منی پور کا تشدد:فسانہ اور حقیقت

0

پروفیسر عتیق احمدفاروقی
منی پور کا تشدد موجودہ دور میں کچھ دردناک واقعات کی یاد دلاتے ہیں :بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک کے مختلف حصوںمیں رونماہونے والے فسادات، گجرات کی نسل کشی ، اونا میں دلتوں کی پٹائی، دادری میں اخلاق کی لنچنگ ، ہاتھرس میں دلت دوشیزہ کی اجتماعی آبروریزی اورقتل، دہلی کا نربھیاسانحہ ،کٹھوعہ کی آٹھ سالہ بچی آصفہ کی اجتماعی عصمت دری اورپولیس کی حراست میں عتیق واشرف کا قتل وغیرہ ۔ ان اندوہناک واقعات کی نوعیت مختلف تھی، لیکن ان کے نتائج اوراثرات یکساں تھے۔ کچھ میں انتظامیہ اورپولیس اہلکاروںکے شامل ہونے کا الزام تھا اورکچھ میں خالص مجرمین کی شمولیت تھی، لیکن تمام معاملات میںدوباتیں واضح ہیں کہ انتظامیہ سست اورلاپرواہ تھی اورسارے واقعات انسانیت کو شرمسار کرنے والے تھے۔دراصل ڈھائی مہینہ سے زیادہ عرصہ سے منی پور تشدد کی آگ میں جل رہاہے۔ بظاہر یہ دوبرادریوں ،میتئی اورکوکی کا جھگڑاہے۔ کوکی طبقہ منی پور میں سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن کیلئے لڑرہاہے جو عیسائی اقلیت سے تعلق رکھتاہے اورمیتئی طبقہ جو ہندو مذہبی اکثریت سے تعلق رکھتاہے، اس ریزرویشن کے مطالبہ کی مخالفت کررہا ہے۔ منی پور حکومت میںمیتئی برادری کی اکثریت ہے اور وہاں کے وزیراعلیٰ بیرین سنگھ کاتعلق بھی میتئی طبقہ سے ہے۔ جس واقعہ نے پورے ملک کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا اورانسانیت کوشرمسار کردیا۔ 4مئی کاہے۔ جس کا ویڈیو 19جولائی کو وائر ل ہوا۔معاملہ یوں ہے کہ چار مئی کو تین خواتین اوردومرد جن کا تعلق کوکی برادری سے تھا، وہ فسادیوں سے بچنے کیلئے جنگل کے راستے محفوظ مقام کی جانب جارہے تھے۔ انہیں پولیس کی ایک ٹیم ملی ۔ پولیس نے انہیں تحفظ فراہم کیا اورانہیں بچاتے ہوئے آگے لے جانے لگی، لیکن راستے میں قریب ہزار لوگوں کی بھیڑنے انہیں گھیرلیا اوران پانچ لوگوں کے ساتھ پولیس پر بھی حملہ کردیا۔ ایک الزام یہ بھی سامنے آیاہے کہ پولیس نے خود ہی انہیں بھیڑکے حوالے کردیا اورالگ ہوگئی جبکہ دوسری اطلاع یہ ہے کہ پولیس پر حملہ کردیاگیا اوران لوگوں کو ان سے چھین لیاگیا۔ دراصل دونوں ہی صورتوں میں پولیس کو تو ذمہ داری لینی ہوگی۔ اس واقعہ میں کہیں بھی پولیس والوں کی ہلاکتوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ گروپ میںشامل 56سالہ شخص کو پہلے ملتے ہی ہلاک کردیاگیا۔ جبکہ 19سالہ نوجوان اپنی بہن کی عصمت بچانے کی کوشش میں لڑتاہوامارا گیا۔ پھران تین میں سے دوخواتین کی پہلے اجتماعی عصمت دری کی گئی اوربعدازاں دونوں کو برہنہ حالت میں سڑک پر گھمایاگیااوراس درمیان ہجوم نے بھی ان کے ساتھ نازیباحرکت کی۔
جب ووہ ویڈیو چیف جسٹس وائی وی چندرچوڑ نے دیکھا تو ان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اورانہوں نے دو ٹوک کہا، ’’اگرحکومت اس معاملے میں کارروائی نہیں کرتی ہے تو ہم خود کریں گے۔ ‘‘جسٹس چندر چوڑ کے اس بیان کے بعد تقریباً تین ماہ سے خاموش حکومت کی زبان پھوٹی اوروزیراعظم نریندرمودی نے کہاکہ’’ منی پور میں خواتین کے ساتھ جو سلوک ہواہے اس نے ملک کے 140 کروڑ عوام کو شرمسار کیاہے۔ ‘‘پھرکیاتھا ریاست کے وزیراعلیٰ جو مہینوں سے سورہے تھے اچانک جاگ گئے اوراسی دن چندمجرموں ، جوویڈیو میں نظرآئے ان کوگرفتار بھی کرلیاگیا۔ جب ایک پریس رپورٹرنے اس واقعہ کے تعلق سے ریاست کے وزیراعلیٰ سے سوال پوچھا توانہوں نے بے شرمی والا جواب دیااورکہاکہ ریاست میں اس طرح کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہواہے ۔اس سے قبل بھی اس طرح کے سیکڑوںگھناؤنے واقعات پیش آچکے ہیںاوران کی ایف آئی آربھی درج ہوچکی ہے۔ اس سانحہ نے بہت سے سوالات کو جنم دیاہے۔ وزیراعظم مودی منی پورکے معاملے پر قریب تین ماہ خاموش کیوں تھے؟ اس دوران ریاست کے وزیراعلیٰ بیرین سنگھ کیاکررہے تھے؟ پوری ریاست جل رہی تھی جس کی متعدد رپورٹ وہاں کے گورنر نے مرکز کو دی تھی ، پھربھی وزیراعظم نے منی پور کا دورہ کیوںنہیں کیا؟ جب بنگال میں تشدد بھڑکاتھا تو مودی جی نے وہاں اپنی ٹیم بھیجی تھی ، منی پور کے حالات اس سے بدترتھے ، وہاں پر انہوں نے کوئی ٹیم کیوں نہیں بھیجی ؟ امت شاہ نے منی پور کا تین چار روز کادورہ ضرور کیا تھا،لیکن وزیراعلیٰ اورافسران سے میٹنگ کرکے وہ دہلی واپس آگئے تھے۔ملک کے وزیرداخلہ کی حیثیت سے انہوںنے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا تھا۔
دراصل منی پورمیں مسئلہ صرف ریزرویشن کا نہیں تھا ۔ بلکہ ملک میں ریزرویشن کے مسئلے پر پہلے بھی تشدد ہوئے ہیں، لیکن اتنے وسیع پیمانے پر کبھی نہیں ہوئے۔ یہ واقعہ گجرات کی نسل کشی سے کافی مشابہت رکھتاہے۔ گجرات میں بلقیس کے خاطیوں نے ایک طبقہ کو سکھانے کیلئے بلقیس بانو کو نشانہ بنایاتھا جس میں پولیس نے بھی ان کے ساتھ تعاون کیاتھا۔ فسادیوں کی سیاسی سرپرستی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اب ایک بار پھر اسی طرح کی شرمناک واردات منی پور میں انجام دی گئی ہے۔ وہاں بھی وہی پرانا انداز یعنی پولیس کا فسادیوں کے ساتھ تعاون اوران کی سیاسی سرپرستی ، دیکھنے کو ملی ۔ فرق اتناہے کہ وہاں مسلمانوں کو سبق سکھاناتھااوریہاں کوکی طبقہ کے عیسائیوں کو نشانہ بنایاگیاہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ عوام کے ایک طبقہ کو مذہبی افیم کھلاکر بیہوش کردیاگیاہے اوروہ ان واقعات سے خوش ہیں اورمودی جی کے انتخابات میں فتحیابی کیلئے کوشاں ہیں۔ یہ سب کچھ نہیں ہوتا اگرعوام اس کے خلاف آواز بلند کرتے اوراحتجاج کرتے۔ اگرآج منی پور جل رہاہے تو اس کے ذمہ دار خاموش رہنے والی سیاسی جماعتوں سے زیادہ چپی سادھنے والے عوام ہیں۔ دیکھنے میں آیاہے کہ اس طرح کی گھناؤنی حرکت کرنے والے خاطیوں کو حکومت نے عہدے دے کر ان کا حوصلہ بڑھایاہے۔ اگرسزا ملتی ہے تو انہیں زیادہ دنوں تک پیرول پر رکھاجاتاہے، یا اس سے پہلے انہیں جیل سے رہاکردیاجاتاہے اورجیل سے باہر آنے پر ان کی گلپوشی ہوتی ہے اورمٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔
چنددنوں قبل یوروپی یونین میں منی پور کے تعلق سے بحث ہوئی اوروہاں کے حالات پر تشویش کااظہار کیاگیا۔ دوسری جانب ہندوستان میں امریکہ کے سفیر نے کہا کہ اگرمنی پور کے حالات قابو میں نہیں آرہے ہیںتو امریکہ اس کی مددکرسکتاہے۔ ہندوستان جیسا ملک جس کے پاس فوج اورپولیس کی اتنی بڑی طاقت ہے اس کے معاملات میں بیرونی ملک کے لوگ دخل اندازی کریں،یہ بات قابل شرم ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ نریندرمودی اورامت شاہ جاگ جائیں اورسیاست سے بالاترہوکر منی پور کے تعلق سے سخت سے سخت قدم اٹھائیں، وہاں کے وزیراعلیٰ کو برخاست کریں ، صدر راز قائم کریں اورعدالت میں منصفانہ پیروی کرکے خاطیوں کو عبرتناک سزادلوائیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS