منی پور:ریزرویشن کے نام پر تشدد

0

منی پور میں تشددختم ہونے کانام نہیں لے رہا ہے ۔ریزرویشن کے نام پر وہاں اس قدر تشدد برپا ہوگا ، کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی۔3مئی کو چوراچاندپور ضلع کے توربنگ علاقے سے شروع ہوا تشدد کرفیواورفوج کی تعیناتی کے بعد لگ رہا تھا کہ بندہو جائے گا اور ریاست میں زندگی پٹری پر لوٹ آئے گی۔ یہ اور بات ہے کہ حالات میں قدرے بہتری آنے لگی تھی جس کے پیش نظرکرفیو بھی ہٹالیا گیاتھا۔ 22مئی کو دوبارہ جس طرح تشدد بھڑکا ۔اس سے ہر کسی کو لگنے لگا کہ بظاہر بھلے ہی حالات پرامن نظر آرہے ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نفرت ودشمنی کی آگ ابھی بجھی نہیں ہے، اندر ہی اندر سلگ رہی ہے اور آگے بھی شعلہ بھڑکنے کاپوراامکان ہے ۔تبھی تو سرکار نے تشدد سے متاثرہ علاقوں میں 31مئی تک انٹرنیٹ پر پابندی لگادی ۔یہ معمولی بات نہیں ہے کہ منی پورمیں کل 16اضلاع ہیں ۔ان میں سے10 سے زیادہ اضلاع تشدد کی زد میں ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری ریاست میں حالات کشیدہ ہیں۔ 3مئی کو جب تشدد شروع ہوا تھا ، تو اس تیزی سے حالات بے قابو ہوگئے کہ دوسرے ہی دن دیکھتے ہی سماج دشمن عناصر کو گولی مارنے تک کا حکم صادر کردیا گیا تھا۔جب ریاستی پولیس تشددکو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی تو فوج طلب کرلی گئی اورنیم فوجی دستوں کو تعینات کرکے کرفیو لگادیا گیا،جنہوں نے فلیگ مارچ کرکے بڑی مشکل سے حالات پر قابو پایالیکن دوبارہ پھر وہی صورت حال پیدا ہوگئی اورتشدد سے وہاں بڑے پیمانے پر جان ومال کو نقصان پہنچا۔ بتایا جاتا ہے کہ اب تک 73لوگو ں کی جانیں جاچکی ہیں، 230زخمی ہوچکے ہیں۔ تقریباً 17 سو مکانات نذرآتش ہونے کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے گھر ہوکر دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔یہاں ہمیں یہ بات ہرگزنہیں بھولنی چاہئے کہ اتنے بڑے پیمانے پر تشدد اگر غیر بی جے پی حکومتوں میں ہوتا تو اب تک وہاں سیاسی ہنگامہ برپا ہوچکا ہوتا ،صدرراج نافذ کرنے کی پرزور مانگ کی جاتی اورریاست کے گورنر سے رپورٹ پر رپورٹ طلب کی جاتی ۔
منی پورمیں جس طرح تشدد برپاہوا ،نہ تو اس کے اسباب معمولی ہوسکتے ہیںاورنہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ میتئی اورکوکی کمیونٹیوں کے درمیان جو دوریاں پیداہوئی ہیں اس کا آسانی سے سدباب کیاجاسکتاہے اوریہ دوریاں جب تک رہیں گی حالات کشیدہ رہیں گے ۔منی پور کی تقریباً 38لاکھ کی آبادی میں نصف سے زیادہ میتئی کمیونٹی کے لوگ ہیں اوروہ اپنی ثقافتی پہچان کے تئیں عدم تحفظ کے شکار ہیںاورریزرویشن کی مانگ کررہے ہیں، تو باقی کمیونٹیوں اوربرادریوں کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔منی پور ہائی کورٹ نے تو ریاستی حکومت کو میتئی کمیونٹی کو درج فہرست قبائل میں شامل کرنے کا حکم صادرکردیا تھا ۔ہائی کورٹ کے حکم کے بعد منی پور ٹرائبل فورم اورہل ایریاکمیٹی نے سپریم کورٹ کادروازہ کھٹکھٹایا۔سپریم کورٹ نے فی الحال ریاستی حکومت سے متاثرہ لوگوں کی امداد ، بازآبادکاری اورتحفظ سے متعلق رپورٹ طلب کرکے معاملہ کی سماعت گرمی کی چھٹی کے بعد جولائی میں کرنے کی بات کہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہاں سے بھی مسئلہ کا قابل قبول حل نہ نکلاتو حالات پھر خراب ہوسکتے ہیں ،کیونکہ جہاںمیتئی کمیونٹی کو یہ شکایت ہے کہ 1949 میں ہندوستانی یونین کے ساتھ انضمام سے پہلے، انہیں ریاست میں ایک قبیلے کادرجہ حاصل تھا۔گزشتہ 70 سالوں میں ان کی آبادی 62 فیصد سے گھٹ کر تقریباً 50 فیصد ہوگئی ہے۔دوسری طرف منی پور کے ناگا اور کوکی قبائل میتئی کمیونٹی کو ریزرویشن دینے کے خلاف ہیں۔ ناگاآبادی ریاست کے90فیصد رقبے پر ہے اور کوکی کی آبادی کا تناسب 34 فیصد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاست کی 60 اسمبلی سیٹوں میں سے 40 سیٹیں پہلے ہی میتئی کے زیر اثر امپھال میں ہیں۔ سیاسی طور پر منی پور میں میتئی کمیونٹی کاپہلے سے دبدبہ ہے۔ ناگا اور کوکی قبائل کو اندیشہ ہے کہ اگر میتئی کو ایس ٹی زمرہ میں ریزرویشن ملتا ہے تو ان کے حقوق پرآنچ آئے گی۔ موجودہ قانون کے مطابق میتئی کمیونٹی کو ریاست کے پہاڑی علاقوں میں آباد ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
الغرض اختلافات اورحقوق کی لڑائی کی جڑیں کافی گہری ہیں اوراتنی آسانی سے مسئلہ کاحل ہنوزدلی دوراست کے مانندہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیںکہ قبائلی لڑائی بہت خطرناک ہوتی ہے ۔ابھی لوگ آپس میں لڑرہے ہیں ۔ اگر ان کے منتخب نمائندے لڑائی میں شامل ہوگئے تووزیراعلیٰ این بیرین سنگھ کی مشکلات کافی بڑھ سکتی ہے۔ شاید اسی لئے مرکزی حکومت پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے ۔فی الحال سبھی کی کوشش یہی ہے کہ کسی طرح حالات قابومیں آجائیں اوروہاں امن وامان کا ماحول قائم ہوجائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS