صبیح احمد
’دی اسٹیٹ از نائو اسٹیٹ لیس‘ یعنی ریاست میں اب لاقانونیت ہے۔ یہ بیان گزشتہ دنوں ہندوستانی فوج کے ایک سبکدوش لیفٹیننٹ جنرل ایل نشی کانت سنگھ نے اپنی آبائی ریاست منی پور کی موجودہ حالت زار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دیا تھا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے ریاست کے موجودہ حالات کا موازنہ لیبیا، لبنان، نائیجریا اور شام جیسے ملکوں کی خانہ جنگی کی صورتحال سے کیا تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل سنگھ نے یہ موازنہ اس وقت کیا تھا جب قتل و غارت گری، لوٹ مار اور آتشزنی جیسے واقعات کی ہی خبریں آ رہی تھیں، خواتین کو برہنہ کر کے سڑکوں پر گھمانے اور ہجوم کے ذریعہ گینگ ریپ اور پھر ان کے قتل کے متعدد واقعات ابھی منظرعام پر نہیں آئے تھے۔ اپنی مادروطن پر جان کی بازی لگانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے والے فوجی افسر پر اب کیا گزرتی ہوگی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اب تو یہ عام خیال ہے کہ منی پور خانہ جنگی کے دہانے پر ہے۔ میتیئی اور کوکی کمیونٹی کے درمیان جھڑپوں میں بڑی تعداد میں افراد مارے جا رہے ہیں ۔ اب تک ہزاروں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور اب وہ مختلف کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ بڑی تعداد میں عبادت گاہوں کو بھی مشتعل ہجوم کے ذریعہ تباہ کیاجا رہا ہے۔ مقامی وزرا اور قانون سازوں کے گھروں پر بھی حملے کیے جا رہے ہیں اور انہیں آگ لگا ئی جا رہی ہے۔ معمولات زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئے ہیں۔ ریاست کے بیشتر اضلاع میں رات کا کرفیو جاری ہے۔ اسکول بند ہیں اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔
بہرحال یہ منی پور کی تاریخ کا تاریک ترین لمحہ ہے۔ منی پور نے اپنی حالیہ تاریخ میں اس قسم کا تشدد نہیں دیکھا تھا، حالانکہ میانمار کی سرحد سے جڑی ریاست منی پور کی نسلی تشدد کی ایک تاریخ ہے۔ ہندوستان کا پرامن اور دوردراز شمال مشرقی خطہ تقریباً 45 ملین افراد کا مسکن ہے جن کا تعلق 400 سے زیادہ کمیونٹیوں سے ہے۔ ریاست میں تقریباً 33 نسلی قبائل آباد ہیں۔ یہ تنوع اب تیزی سے تقسیم کی وجہ بن رہا ہے۔ ریاست میں فی الحال تقریباً 40 باغی گروہ ہیں۔ میتیئی، ناگا اور کوکی باغیوں نے مسلح افواج کے اسپیشل پاورس ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) جیسے متنازع قوانین کے خلاف احتجاجاً طویل مسلح جدوجہد شروع کی۔ اس دوران انہوں نے اکثر ہندوستانی سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا۔ میتیئی، ناگا اور کوکی ملیشیا بھی آپس میں علیحدہ سر زمین حاصل کرنے کے متضاد مطالبات کی وجہ سے لڑچکے ہیں۔ منی پور میں اندازے کے مطابق 3.3 ملین افراد میں سے نصف سے زیادہ میتیئی کمیونٹی کے لوگ آباد ہیں۔ تقریباً 43 فیصد لوگ پہاڑوں پر آباد کوکی اور ناگا برادری سے تعلق رکھتے ہیں، جو یہاں کی اکثریتی قبائلی کمیونٹی ہیں۔ زیادہ تر میتیئی ہندو ہیں جبکہ زیادہ تر کوکی مسیحی ہیں۔ اس سے قبل بھی منی پور میں نسلی اور مذہبی جھڑپوں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں، لیکن اس بار تنازع کی جڑ مذہب نہیں بلکہ نسل پرستی ہے۔ گزشتہ مئی میں ہونے والی بڑے پیمانے پر پرتشدد کارروائی پر تنازع اس وجہ سے شروع ہوا کہ کوکی کمیونٹی نے میتیئی کے لیے قبائلی حیثیت کے مطالبہ کی مخالفت کی، لیکن صرف یہ تنازع پوری صورتحال کا احاطہ نہیں کرتا کہ کس طرح یہ ریاست تشدد کا مرکز بن کر رہ گئی ہے۔ منی پور میں گنجان آبادی بھی ایک مسئلہ ہے یعنی تقریباً 60 فیصد آبادی ریاست کی صرف 10 فیصد آراضی پر وادی امپھال میں آباد ہے۔ میتیئی اس حقیقت سے ناراض ہیں کہ انہیں اور دیگر غیر قبائلی لوگوں کو پہاڑی اضلاع میں زمین خریدنے یا آباد ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
خطہ میں بنیادی کشیدگی کے پیچھے متعدد پیچیدہ محرکات ہیں، جس میں ایک طویل عرصہ سے جاری شورش، منشیات کے خلاف ایک متنازع حالیہ جنگ، غیر محفوظ سرحدوں کے ذریعہ شورش زدہ میانمار سے غیر قانونی ہجرت، آبادی کا دباؤ اور روزگار کے مواقع میں کمی شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وزیراعلیٰ این بیرن سنگھ کی ایک متنازع ’وار آن ڈرگز‘ مہم نے عوام کے ایک طبقہ اور حکومت کے درمیان تقسیم کو بڑھا دیا ہے اور یہاں کے لوگوں کے درمیان اس عدم اعتماد کو ہتھیار بنا دیا گیا ہے۔ اعتماد کی کمی کے نتیجے میں ایک ایسی تقسیم پیدا ہوئی ہے جس کا حل اب نمائندہ حکومت کے پاس بھی نہیں ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ منی پور مکمل طور پر خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لے گا، اگر ’بین المذاہب، بین النسل مکالمے‘ کے لیے سنجیدگی سے پہل نہ کی گئی۔ حالانکہ دیرینہ اختلافات کے باوجود کوکی اور میتیئی کمیونٹی ریاست میں پرامن طریقے سے رہ رہے تھے۔ یہاں تک کہ دونوں کے درمیان کاروباری تعلقات بھی رہے ہیں، لیکن اب صورتحال ایسی ہو گئی ہے کہ ان کا ایک دوسرے سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ کوئی میتیئی منی پور کے کوکی اکثریتی علاقے میں قدم رکھنے کی ہمت بھی نہیں کرسکتا۔ جبکہ دوسری جانب کوئی کوکی بھی میتیئی کے علاقوں میں جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ اب جب تک مرکزی حکومت بہت سخت مداخلت نہیں کرتی اور ریاستی حکومت عام لوگوں کی حفاظت کے انتظامات نہیں کرتی تشدد کا یہ دور رکنے والا نہیں لگتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مرکزی حکومت نے ریاست میں جاری تشدد سے نمٹنے میں وہ سنجیدگی نہیں دکھائی جو اسے دکھانی چاہیے تھی۔ وزیر داخلہ امت شاہ کا منی پور کا دورہ بھی محض خانہ پری تھا۔ انہوں نے کسی ٹھوس اقدامات کی بات نہیں کی۔
پرتشدد واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم نریندر مودی کی خاموشی پر لوگ سوال اٹھا رہے ہیں۔ اس معاملے پر ہنگامہ کے سبب پارلیمنٹ کے مانسون سیشن میں کوئی کا م کاج نہیں ہو رہا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں وزیراعظم سے ایوان میں آکر بیان دینے کا مطالبہ کر رہی ہیں، لیکن وزیراعظم ابھی تک کچھ بولنے کو تیار نہیں ہیں۔ ’برہنہ ویڈیو‘ پر صرف ایک رسمی بیان دے کر انہوں نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ مرکز اور ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومتیں ہیں، لیکن پھر بھی تشدد جاری ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں کئی ماہ سے جاری کشیدگی اور تشدد پر قابو پانے میں ناکام ہیں؟ کیا وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ منی پور کے محاذ پر ناکام ثابت ہو رہے ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ کوکی اور میتیئی دونوں کمیونٹیوں کے لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں اپنی حفاظت خود کرنی پڑے گی کیونکہ حکومت ان کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہے اور اسی وجہ سے حالات خراب ہوتے چلے گئے کیونکہ لوگ خود تشدد سے نمٹنے کے لیے تشدد کا ہی سہارا لے رہے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ ریاست میں مشتعل ہجوم نے اب خواتین پر تشدد کے نئے دور کا آغاز کر دیا ہے۔ مسلح اور مشتعل گروپوں کی لڑائی کے دوران ریپ کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ جنوبی ایشیائی خطہ کے سب سے پرتشدد واقعات جیسا کہ 1947 میں تقسیم ہند، 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی، 1984 میں سکھ مخالف فسادات، سری لنکا میں خانہ جنگی، 2002 کے گجرات فسادات وغیرہ میں وسیع پیمانے پر ریپ اور جنسی تشدد کی اطلاعات سامنے آئیں۔ بربریت کا یہ دور اتنا وسیع تھا کہ ان پر سے دہائیوں بعد ہی پردہ اٹھ سکا۔ اکثر انتقام اور غیرت کی خاطر دوسری کمیونٹی کی خواتین کا ریپ کیا جاتا ہے۔ بالآخر نزلہ بے قصور خواتین پر ہی گرتا ہے، آخر کیوں؟ منی پور میں جاری تشدد بھی اب اس مرحلے میں داخل ہو گیا ہے!
[email protected]