گفتار کے غازی کی منی پور پر ’مون برت‘: ڈاکٹر سیّد احمد قادری

0

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

منی پور گزشتہ تین ماہ سے سلگ رہا ہے ، ٹھیک اسی طرح جس طرح 2002 ء میں گجرات کئی ماہ تک جلتا رہا تھ ۔ ا س وقت بھی مرکز اور گجرات میں بی جے پی کی ہی حکومت تھی ۔ گجرات میں بھی فوج کو بلا کر آرام کرنے دیا گیا تھا، یہاں بھی فوج کو حسّاس علاقوں سے دور رکھا گیاہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ گجرات میں مسلم اقلیت نشانے پرتھے اور منی پور میں عیسائی اقلیت نشانے پر ہیں۔ تین ماہ بعد بھی اب جب کہ ہر سمت منی پور فساد کی مذمت کی جا رہی ہے ، پھر بھی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔ اس سے منی پورکی شدت اور حسّاسیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ قتل و غارت گری ، عورتوں کی عصمت دری کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اگر اس پورے سانحہ کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں ۔کارگل کی جنگ لڑنے والے فوجی کی بیوی اور دیگر دو لڑکیوں کوشدت پسندوں کے ہجوم کے ذریعہ برہنہ کر کے شاہراہوں پر گھمایاجاتا ہے اور ان کی عصمت دری کی جاتی ہے ، احتجاج کئے جانے پر ایک لڑکی کے بھائی کو سر عام قتل کر دیا جا تا ہے۔ یہ شرمناک ، ہیبت ناک، ہولناک سانحہ جب طشت از بام ہوتا ہے تو ا س ریاست کا وزیر اعلیٰ بڑی بے شرمی سے کہتا ہے کہ یہاں ایسے سیکڑوں واقعات ہو چکے ہیں۔ انتہا تو یہ ہو رہی ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والے شرمناک اور ذلّت آمیز واقعہ کا ویڈیو بنانے والے اور دنیا کی توجہ مبذول کرنے والوں کے خلاف ہی حکومت اپنی خفّت مٹانے کے لئے سی بی آئی انکوائری کرا رہی ہے ۔ جبکہ یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے دو ماہ قبل ہی اس سانحہ کے ملزمان کے خلاف ایف آر درج کرائی جا چکی تھی،لیکن ڈبل انجن کی حکومت خاموش تماشائی بنی رہی ۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اس وحشیانہ سانحہ پر صدا بلند کرنے لگا ، عالمی سطح پر اس کی مذمت کی جا نے لگی اور سپریم کورٹ نے جب منی پور پر از خود نوٹس لیتے ہوئے مرکزی اور ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا اور واضح طور پر کہا کہ ہم حکومت کو ملزمان کے خلاف تادیبی اقدامات کئے جانے کا وقت دیتے ہیں ۔دل دہلا دینے والے واقعات پر اب تک کیا کارروائی کی گئی نیز حکومت یہ بھی بتائے کہ مستقبل میں ایسے سانحات نہ ہونے کے لئے کیا کیا کارروائیاں کی گئی ہیں ؟ وہاں امن و امان بحال نہیں ہوا تو پھر ہم قدم اٹھانے پر مجبور ہوںگے۔ سپریم کورٹ کے ا س سخت رویہ اور بین لاقوامی میڈیا کے ذریعہ مسلسل مذمت کئے جانے کے بعد مرکزی اور ریاستی حکومت کی آنکھ کھلی اور دونوں کی زبانی جمع خرچ والے بیانات منظر عام پر آئے ۔ وزیر اعظم نے تو پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے شروع ہونے سے ایک دن قبل ہی پارلیمنٹ کے باہر ہی منی پور کے پر تشدد سانحات کے 79 دنوں تک جاری رہنے والے خونین واقعات پر اپنے 36 سکنڈ میںغم و غصہ کا اظہار کر دیا اور بعد میں منی پور پر پارلیمنٹ کے اندر وزیر اعظم کے بیان دینے کے مطالبہ کو بھی ٹھکرا دیا اور منی پور فساد پروہ مسلسل ’مون برت ‘ پر قائم ہیں۔ ملک کی ایک اہم ریاست میں ہونے والے ایسے ہولناک، خوفناک اور غمناک سانحہ پر 79 دنوں تک کی وزیر اعظم کی مسلسل خاموشی اپنے آپ میں کافی پر اسرار ہے۔ وزیراعظم کے ذریعہ 79 دنوں بعد اظہار غم وغصّہ پر انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلی گراف ‘ نے صفحہ اوّل کے نصف صفحہ کی سرخی اس طرح لگائی ہے کہ 79 مگرمچھوں کی تصویر ہے جن کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں اور اس تصویر کے نیچے لکھا گیاہے ’56انچ کے سینہ نے 79 دنوں بعد زبان کھولی‘۔اس کے بعد تو وزیر اعظم نے ایسا مون برت دھارن کر لیا ہے کہ اپوزیشن کے ذریعہ وزیر اعظم کو منی پور پر پارلیمنٹ کے اندر 267 رول کے تحت بیان دینے کے لئے پُر زور مطالبہ پر ہر دن ہنگامہ ہو رہا ہے ۔ پارلیمنٹ کی کارروائی معطل کی جا رہی ہے۔ پھر بھی وہ اپنا مون برت نہ توڑنے کو تیار ہیں اور نہ ہی منی پور کا دورہ کرنے کو رضا مند ہیں۔ اب اپوزیشن ’انڈیا‘ کی سولہ پارٹیوں کے 20اراکین پارلیمنٹ منی پور کے سنگین حالات کا جائزہ لینے پہنچ گئے ہیں۔ راہل گاندھی حکومت کی جانب سے روکنے کی لاکھ کوششوں کے باوجود وہاں پہنچ کر متاثرین سے مل کر ان کے آنسو پوچھنے کی کوشش کر چکے ہیں ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ وزیر اعظم منی پور سانحہ پر اپنے 36 سکنڈ کے غم و غصہ کے اظہار کے مطابق اگر واقعی انھیں منی پور کے پر تشدد واقعات پر ، عیسائیوں کی جان و مال ، عزت و عصمت ، املاک کی تباہی و بربادی پر غم وغصہ ہے تو وہ پارلیمنٹ میں بھی اپوزیشن کے مطالبہ پر بولنے سے کیوں احتراز کر رہے ہیں ؟ منی پور کے وزیر اعلیٰ کو اب تک کیوں نہیں برطرف کر رہے ہیں ؟ منی پور میں امن و امان کیوں نہیں بحال کئے جانے کی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے ؟ان سوالات کا جواب بھی بہت ہی واضح ہے کہ ایک خاص مذہب عیسائی (کوکی) کے لوگوں کے خلاف یہ فرقہ وارانہ فساد اور وحشیانہ عمل منظم اور منصوبہ بند ہے ۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح گجرات میں کیا گیا تھا ۔ منی پور میں فساد سے قبل اکثریتی فرقہ کے ذریعہ تھانوں اور پولیس تربیتی مراکز سے بڑی تعداد میں رائفل، ریوالور، کاربائن، مشین گن، ہتھ گولے اور 6لاکھ گولیوںکی لوٹ کی چھوٹ دی گئی ۔ سیکڑوں کوکی فرقہ کے لوگوں کا میتئی فرقہ نے بے رحمانہ قتل کیا ، ان کے گھروں ، دکانوں اور عبادت گاہوں کو نذر آتش کیا ، بیٹیوں کے ساتھ حیوانیت کا مظاہرہ کیا ۔ ایسے منظم اور منصوبہ بند قتل عام اور وحشیانہ فعل و عمل کار ی پر ایکشن ہونا فطری ہے۔ منی پور کے عیسائیوں کا مطالبہ ہے کہ وہ اب اکثریتی فرقہ کے ساتھ کسی قیمت پر نہیں رہیں گے۔ اب انھیں الگ ریاست دی جائے۔ منی پور کی پڑوسی ریاستوں میں بھی منی پور میں ہونے والے ظلم وبربریت کا شدید ردّ عمل سامنے آ رہا ہے ۔ پڑوسی ریاست میزورم کی سابق عسکریت پسند تنظیم کے انتباہ کے بعد میتئی فرقہ کے لوگوں نے یہاں سے نقل مکانی شروع کر دی ہے ۔ اس لئے کہ منی پور میں، بدامنی اور تشدد کا سلسلہ حکومت کی نااہلی کے باعث تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ انسانی حقوق کی اہم رکن ایروم شرمیلا نے بھی منی پور میں خواتین کے برہنہ گھمائے جانے کی بے بسی کو دیکھنے کے بعد سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعدوہ اپنے آنسو نہیں روک پائیں۔ انھوں نے اپنے درد و کرب کو بیان کرتے ہوئے وزیر اعظم کی خاموشی پر حیرت کا بھی اظہار کیا ہے ۔ منی پور کے بی جے پی کے ممبر اسمبلی پاؤ لین کیپ شمال مشرقی ریاست میں قبائلی تشدد پر وزیر اعظم کے امریکی دورہ سے قبل ان سے مل کر وہاں کے حالات سے آگاہ کرنا چاہتے تھے، لیکن انھیں ملنے کا وقت نہیں دیا گیا ۔ ’’نیوز لانڈری‘‘ کو دئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کیپ نے بہت کچھ ایسا کہاہے جو شمال مشرق ریاستوں کے لئے خطرے کی گھنٹی کی جانب اشارہ کرتے ہیں ۔ ادھر منی پور کے سانحات پر احتجا ج کرتے ہوئے بہار میں بی جے پی کے ترجمان ونود شرما نے بی جے پی سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔ منی پور سانحہ پر پورے ملک میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
منی پور کے اتنے حساس معاملے پر حکومت کی خاموشی پر میڈیا کا ایک گروپ تو اپنے آقا کی خوشنودی کے لئے عام طور پر خاموش ہی ہے، لیکن ملک کے کچھ بے خوف اخبارات میں اور کچھ ٹی وی چینلوں کے ساتھ ساتھ بین لاقوامی میڈیا پر زبردست مذمت کا سلسلہ جاری ہے ۔ نئی دہلی میں مقیم امریکی سفیر ایرک گارسیٹی اور اقوام متحدہ کے سفیر نے بھی منی پور تشددو سانحات پر اپنی گہری تشویش کے ساتھ ساتھ اپنی جانب سے منی پور کے فرقہ وارانہ فساد کو روکنے میں تعاون کی پیشکش کی ہے ۔ برطانیہ کی رکن پارلیمنٹ فیونا بروس (جو وزیراعظم رشی سونک کی خاص نمائندہ برائے آزادیٔ مذہب ہیں) نے منی پور کے پر تشدد سانحات پرسوال اٹھاتے ہوئے کہاہے کہ منی پور میں سیکڑوں چرچ نذر آتش کر دئے گئے ہیں ، 100سے زائد معصوم اور بے گناہ افراد مارے جا چکے ہیں اور 50ہزار سے زیادہ لوگوں کو بے گھر کر دیا گیا ہے۔ فیونا بروس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ منی پور میںجو پر تشدد حملے ہوئے ہیں وہ منظم اور منصوبہ بند معلوم ہوتے ہیں ۔ برطانیہ کے ہی ایک دوسرے رکن پارلیمنٹ نے بھی فیونا بروس کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فیونا بروس نے اس حساس معاملہ کو اٹھا کر اور اسے ایوان کے ریکارڈ میں درج کرا کر بہت اچھا کام کیا ہے ۔ 27 ملکوں کی یورپیئن پارلیمنٹ نے منی پور کے ساتھ ساتھ ملک کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک ، صحافیوں کے ساتھ نا مناسب رویہ اور انسانی حقوق کی مسلسل پامالی کے خلاف 5تجاویز پاس کرکے وزیر اعظم ہند کی سخت الفاظ میں مذّمت کی ہے ۔ برطانیہ اور فرانس کی طرح امریکی میڈیا اور امریکی وزارت نے بھی منی پور کے سنگین حالات پر برسر اقتدار حکومت کی تنقید کرتے ہوئے پورے سانحہ کو غیر انسانی قرار دیا ہے ۔
منی پور جیسے حساس معاملے پر وزیر اعظم کا مون برت کوئی نیا نہیں ہے ۔ جب کبھی ملک کے اندر ایسا کوئی حسّاس اور ناخوشگوار معاملہ سامنے آتا ہے اور ملک کااپوزیشن و سوشل میڈیا سوال اٹھاتا ہے تو ہمارے وزیر اعظم مون برت رکھ لیتے ہیں ۔ابھی تو یہ معاملہ سرد نہیں ہوا ہے کہ ملک کا وقار بڑھانے والی خواتین پہلوان دہلی کے جنتر منتر پر رات دن اس لئے احتجاج اور مظاہرہ کر رہی تھیں کہ ان کے ساتھ جنسی استحصال کرنے والے دبنگ ممبر پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ کی شرمناک حرکتوں کے باعث جو جسمانی اور ذہنی اذیت پہنچی ہے ۔ اس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے، لیکن افسوس کہ اس دبنگ ممبر پارلیمنٹ کے خلاف سخت کارروائی کے بجائے اسے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ افسوس کہ وزیر اعظم اس نازک اور حساس معاملہ میں بھی کوئی کاروائی کیا کرتے بلکہ وہ خواتین پہلوانوں کے اس جائز مطالبہ اور احتجاج پرایک بیان دینا تو دورپوری طرح خاموشی اختیار کر لی۔ کٹھوعہ ، ہاتھرس، اناؤ اور ایسے دیگر بہت سارے حساس معاملے میں بھی وزیر اعظم خاموش ہی نظر آئے ۔ بلقیس بانو کے زانیوں کو سنسکاری بنا کر جیل سے رہا کیا گیا انھیں پھول مالا پہنایا گیا ،جس کی مذّمت پورے ملک میں کی گئی، لیکن افسوس کہ اس غیر انسانی حرکت پر بھی خاموشی کو راہ دی ۔برسر اقتدار پارٹی بی جے پی کے ہی رکن اور سابق گورنر بہار و کشمیر ستیہ پال ملک نے معروف صحافی کرن تھاپڑ کو دئے گئے ایک انٹرویو میں پلوامہ میں 40جوانوں کی شہادت اور ملک کی سالمیت سے منسلک بہت ہی سنگین انکشافات کئے ، اس پر بھی لبوں پر خاموشی طاری رہی ۔ ستیہ پال ملک نے کشمیر اور گوا میں بی جے پی کے بڑے نیتاؤں کی بدعنوانیوں کو اجاگرکیا، اس پر بھی مون برت کو ترجیح دی گئی۔ ہنڈن برگ کی تہلکہ مچا دینے والی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد راہل گاندھی نے پارلیمنٹ میں وزیراعظم کے دیرینہ دوست گوتم اڈانی کے عالمی سطح پر امیروں کی فہرست میں 609 ویں نمبر سے چند برسوں میں ہی دوسرے نمبر پر کیسے پہنچ گئے، نیز راہل گاندھی نے ایک بڑا سوال یہ بھی کیا کہ ماریشش کی کمپنی میں20ہزار کروڑ روپے جو لگائے گئے ہیں وہ کس کے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب میں بھی مون برت ہی رہے۔بلکہ ایسا نوکیلا سوال کرنے والے کو ہی پارلیمنٹ سے نکال باہر کر دیا ۔ راہل گاندھی اور حزب مخالف رہنما رافیل سودے پر سوال در سوال کرتے رہے ،لیکن اس پر بھی حکمراں خاموش ہی رہے ۔ اسرائیل کی ایک کمپنی سے راہل گاندھی سمیت ملک کے کئی حزب مخالف رہنماؤں کے ساتھ ساتھ کئی سرکردہ شخصیات کی جاسوسی کے لئے جدید جاسوسی آلات پیگاسس کے خریدے جانے کا معاملہ اجاگر ہو ا، لوگ سوال پوچھتے رہے ،جواب میں مون برت۔ ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ہر جمہوری ملک میں وزیر اعظم کی ہر بات کی اہمیت ہوتی ہے، لیکن افسوس کہ ہمارے وزیراعظم ادھر ادھر کی باتیں تو خوب کرتے ہیں ، لیکن جب کوئی سنگین مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو وہ چپی ساد ھ لیتے ہیں ۔ منی پور کے ساتھ ساتھ ملک کے ہر حساس مسئلہ پر وزیر اعظم کا یہ مون برت کتنے طوفان کا پیش خیمہ بنتا ہے ، ا س کا اندازہ ملک اور بیرون ممالک میں کئے جانے والے تبصروں، تجزیوں اور تنقیدوں کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS