منی پور کے واقعات نے ملک کو شرمسار کر دیا: پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ

0

پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
منی پور ان دنوں ذات پات کے تشدد کی لپیٹ میں ہے اور منی پور کے پہاڑی علاقوں میں ایک ویڈیو کو لے کر کشیدگی پھیل گئی ہے جس میں دو خواتین کو برہنہ کرکے گھمایا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ ویڈیو 4 مئی 2023 کی ہے۔ جبکہ دونوں خواتین کا تعلق ’کوکی‘ برادری سے ہے، لیکن جو مرد خواتین کی برہنہ کرکے پریڈ کرا رہے ہیں وہ ’میتئی‘ برادری سے ہیں۔ کوکی عیسائی ہیں اور میتئی ہندو ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ “آج میرا دل درد اور غصے سے بھر گیا ہے۔ منی پور کی بیٹیوں کے ساتھ جو ہوا اسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ میں تمام وزرائے اعلیٰ سے کہتا ہوں کہ امن و امان کو مضبوط کریں، ماؤں اور بہنوں کی حفاظت کے لیے سخت اقدامات کریں، ہندوستان کے کسی بھی کونے میں یا کسی بھی ریاست میں امن و امان اور بہنوں کی عزت سیاسی بحثوں سے بالاتر اور سب سے پہلی ترجیح ہے جس پر حکومتوں کو کام کرنا چاہیے”۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس، جسٹس دھننجے یشونت چندرچوڑ نے خود اس واقعہ کا نوٹس لیا اور انسپکٹر جنرل آف پولیس اور منی پور کے چیف سکریٹری سے رپورٹ طلب کی۔ گینگ ریپ، خواتین کو برہنہ گھومانے کے اس واقعہ پر پوری دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان کا ہر شہری شرمندہ ہے اور ہمارا سر جھک گیا ہے۔ 30 سال سے، نینا ساہنی قتل کیس، جیسیکا قتل کیس، نربھیا (جیوتی سنگھ قتل کیس) سے لے کر منی پور کے ایک پسماندہ قبیلے کوکی برادری کی خواتین کے ساتھ اس طرح کے واقعات ملک کے بہت شرم کی بات ہے۔
اس موضوع پر میں نے ہزاروں مضامین لکھے ہیں۔ میں نے ہمیشہ خواتین کی حفاظت اور خواتین کو بااختیار بنانے پر آواز اٹھائی ہے۔ توقع ہے کہ 60 دنوں میں جج مجرموں کو سزائے موت سنائیں گے۔قبائلی تنظیم ‘انڈیجینس ٹرائبل لیڈرز فورم’ نے مجرموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔یہ واقعہ منی پور کے دارالحکومت امپھال سے تقریباً 35 کلومیٹر دور کانگ پوکپی ضلع میں پیش آیا۔ ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ مرد مسلسل ان بے سہارا خواتین کے ساتھ بدتمیزی کر رہے ہیں جو رو رہی ہیں اور ان سے چھوڑنے کی منتیں کر رہی ہیں۔ اس گھناؤنے فعل کی مذمت کرتے ہوئے آئی ٹی ایل ایف نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں، قومی کمیشن برائے خواتین اور قومی کمیشن برائے شیڈولڈ ٹرائب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس گھناؤنے جرم کا نوٹس لیں اور مجرموں کو انصاف کے لیے کٹہرے میں لائیں۔ ‘وہ ہمیں کپڑے اتارنے پر مجبور کر رہے تھے، پولیس خاموش کھڑی تھی’۔ منی پور وائرل ویڈیو میں ایف آئی آر لکھنے والے ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ ’’یہاں، اجتماعی زیادتی ہوئی ہے‘‘ یہ کوئی نئی بات نہیں ہیجبکہ متاثرہ خواتین کا کہنا ہے کہ ہم پولیس کی گاڑی میں تھے۔ سوچا پولیس ہمیں بچا لے گی۔ اسی بیچ میتئی قبیلہ کےMeitei) (لڑکوں کا ایک ہجوم نے کار کو گھیر لیا۔ وہ ہمیں اتار کر ادھر ادھر چھونے لگے۔ اس نے کہا کہ جینا ہے تو کپڑے اتار دو۔ ہم نے مدد کے لیے پولیس والوں کی طرف دیکھا، وہ پیچھے ہٹ گئے۔ پھر ہم نے اپنے کپڑے اتارے۔
21 سالہ متاثرہ لڑکی کا یہی کہنا ہے۔ یہ اس لڑکی کی کہانی ہے، جسے آپ نے 19 جولائی کو منی پور سے وائرل ویڈیو میں دیکھا ہوگا۔ اس ویڈیو میں ایک خاتون بھی ہے، ایک 42 سالہ خاتون۔ اس کے کپڑے بھی اتار دیے گئے۔ وہ کہتی ہیںکہ ان لوگوں نے کہا کہ اگر تم نے اپنے کپڑے نہیں اتارے تو تم مر جاؤ گی۔ میں نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے اپنے کپڑے اتارے۔ وہ مجھے مارنے لگے، میرے جسم کو چھوتے رہے۔ میری عصمت دری نہیں کی گئی’۔ منی پور میں 3 مئی کو تشدد ہوا اور یہ ویڈیو 4 مئی کی ہے۔ وائرل ہونے والے ویڈیو کی تحقیقات کے دوران متاثرہ خواتین کے علاوہ اس پولیس اہلکار سے بھی بات کی گئی جس نے پہلی بار 18 مئی کو شکایت درج کی تھی۔ جبکہ اس معاملے میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسے بچانے کے لیے آنے والے بھائی کو بھی بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا تھا۔ ’سائیکول پولیس اسٹیشن‘ میں تعینات ایس ایچ او ’انسپکٹر لونگتھانگ‘ وہ شخص ہے جس نے اس معاملے میں پہلی شکایت درج کرائی تھی۔ کیس کی صفر ایف آئی آر 18 مئی 2023 کو درج کی گئی تھی۔ اس میں Meitei تنظیموں سے وابستہ 800 سے 1000 لوگوں کو ملزم بنایا گیا تھا۔ لونگتھانگ کا مزید کہنا ہے کہ جب متاثرہ لڑکی اس سے ملی تو وہ بہت ڈری ہوئی تھی۔ لونگتھانگ کے مطابق اس فرقہ وارانہ فساد میں سب سے پہلے ایک 56 سالہ شخص کو ہلاک کیا گیا۔ پھر عورتوں سے کہا کہ وہ اپنے کپڑے اتار دیں۔
21 سالہ متاثرہ لڑکی کے ساتھ بدفعلی کی گئی اور اس کے 19 سالہ بھائی نے اسے بچانے کی کوشش کی تو ہجوم نے لڑکے کو مار مار کر ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد تینوں خواتین کے کپڑے اتار دیے گئے اور 21 سالہ متاثرہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی بھی کی گئی۔ گاؤں کے لوگوں نے بتایا کہ میتی لیپن کے لوگوں نے حملہ کیا تھا۔ یہ واقعہ منی پور کے تھوبال ضلع کے نونگ پوک سیکمائی پولیس اسٹیشن سے چند کلومیٹر دور پیش آیا۔ متاثرہ کے ایک رشتہ دار نے کہا، ” کہ ’’ میتئی‘‘ ہجوم بدلہ لینا چاہتا تھا۔ ان کا الزام ہے کہ ارمبائی ٹینگول، میتئی یوتھ آرگنائزیشن، میتی لیپون اور کنگلیپک کنبا لوپ، ورلڈ میتئی کونسل اور شیڈول ٹرائبس ڈیمانڈ کمیٹی سے تعلق رکھنے والے لڑکوں نے حملہ کیا تھا۔ عینی شاہدین اور پولیس افسران سے بات کرنے کے بعد ہم نے اس وائرل ویڈیو میں واقعات کی ٹائم لائن تیار کی ہے۔ لوگوں کے ہاتھوں میں چاقو، لاٹھیاں، رائفلیں اور دیگر ہتھیار تھے۔ اگرچہ میتئی( Meitei) کی بھیڑ کم تھی، لیکن کوکی طبقہ کے لوگوں نے ان کا مقابلہ کیا۔ جس کے بعد چلے گئے لیکن Meitei بھیڑ رات کو شور مچاتے ہوئے واپس آگئی۔ ایف آئی آر کے مطابق، ‘تقریباً 800 سے 1000 لوگ تھے۔ تمام Meitei نوجوان تنظیموں جیسے (Meitei Lipun، Kangleipak ??Kanba Lap، Arambai Tengol، World Meitei )کونسل سے وابستہ تھے۔ وہ اسلحہ لے کر گاؤں میں داخل ہوئے اور لڑائی اور جھگڑے شروع کر دیے۔ ان لوگوں کے پاس کئی خودکار رائفلیں بھی تھیں جیسے AK-47، INSAS وغیرہ۔ مشتعل میتئی ہجوم نے گاؤں کے بیشتر گھروں میں توڑ پھوڑ کی اور آگ لگا دی اور سامان وغیرہ چوری کرلیے۔ بائی فانوم گاؤں کے 5 افراد جن میں 3 خواتین اور 2 مرد شامل تھے، اپنی جان بچانے کے لیے جنگل کی طرف بھاگے۔ بھاگنے ہونے والے کوکی لوگوں کو نونگ پوک سیکمائی پولیس اسٹیشن کی ٹیم نے بچایا اور اپنے ساتھ لے کر جانے لگے مبگر نونگ پوک سیکمائی پولیس اسٹیشن سے تقریباً 2 کلومیٹر پہلے ہی میتئی گروپ کے لوگوں نے انہیں پولیس کی گاڑی سے باہر نکالا۔ اس کے بعد وہاں کیا ہوا جو پوری دنیا نے منی پور کی ویڈیو میں دیکھا۔ ہجوم کے سامنے دو خواتین کو چھین لیا گیا، جنسی طور پر ہراساں کیا گیا اور عصمت دری کی گئی۔ لونتھانگ نے کہا کہ اس نے پہلے صفر ایف آئی آر درج کی اور پھر کیس کو نانگ پوک سیکمائی پولیس اسٹیشن منتقل کردیا کیونکہ یہ پولیس اسٹیشن وہاں ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ اس معاملے میں آئی پی سی کی دفعہ 302 (قتل)، 354 (عورت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور بے حیائی)، 376 (ریپ)، 326 (شدید چوٹ پہنچانا) کے تحت رپورٹ درج کی گئی ہے۔ یہ ایف آئی آر میتئی( Meitei) نوجوان تنظیموں کے خلاف درج کی گئی تھی۔ کئی سالوں میں لکھے گئے ہزاروں مضامین میرے قلم سے لکھے گئے۔ خواتین کی حفاظت میں پولیس کا اہم کردار ہے۔ مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر بٹے ہوئے معاشرے نے خواتین کے تحفظ کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مہم نے کیا شکل اختیار کی؟ خواتین کے خلاف جرائم پر قابو پانا، ہمارے منو وادی مردانہ تسلط والے معاشرے کی کمزور ذہنیت اور حکومتوں کا اسے ہلکا لینا، ہندوستان کے لیے شرمناک ہے۔ ایک طرف عورتوں کو دیوی سمجھنا اور دوسری طرف عورتوں کی برہنہ کرکے گھوماتا، عصمت دری زہریلی ذہنیت کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ شرم کرو ہمارے مہذب جدید معاشرے پر!
(مضمون نگار سینئر صحافی، تجزیہ کار ہیں اور سالیڈیٹری فار ہیومن رائٹس سے وابستہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS