شاہد زبیری
منی پور میں نسلی فسادات کے دوران کوکی قبیلہ کی دو خواتین کو برہنہ کرکے پریڈ کرائے جانے کی انسانیت سوز واردات کا ویڈیو وائرل ہو نے کے بعد ملک بھر میں جو سنسنی پھیلی تھی، سیاسی حلقوں اور عدلیہ سے لے کر حکومت کے ایوانوں تک جو بھونچال آیا تھا، ابھی اس کی شدت کم نہیں ہوئی تھی کہ منی پور میں دو خواتین کا ریپ کیے جا نے کے بعد قتل کرنے کی سنسنی خیز خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ یہ دل دہلا دینے والی واردات منی پور کی راجدھانی امپھال کی بتا ئی گئی ہے جہاں خواتین سڑکوں پر اتر آئیں اور راستے بند کر دیے گئے اور منی پور میں تشدد کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس سے پہلے کوکی قبیلہ کی دو خواتین کو بر ہنہ پریڈ کرانے اور گینگ ریپ کیے جانے کی انسانیت سوز واردات پرسپریم کورٹ سخت ردعمل ظاہر کر چکا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا، ڈی وائی چندرچوڑ کو از خود نوٹس لیتے ہوئے کہنا پڑا تھا کہ اگر سرکار خاموش رہتی ہے تو ہم خود کارروائی کریں گے۔ سپریم کورٹ کے اس سخت ردعمل کے پیش نظر ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی منی پور میں جاری قتل وغارت گری پر اپنی چپی توڑنی پڑی اور اس پر منہ کھولنا پڑا۔ وزیر اعظم لب کشا تو ہوئے، لیکن منی پور میں جاری نسلی فسادات اور خون خرابہ کو روکنے اور امن قائم کرنے کے لیے کوئی فوری ایکشن منی پور سرکار یا وزیر اعلیٰ کے خلاف نہیں لیا، وزیر اعلیٰ کو اف تک نہیں کہا اور نہ سرکار کی بر خاستگی کا انتباہ دیا۔ جبکہ ان سے ان کے منصب کے پیش نظر یہ توقع تو کی ہی جانی چاہیے تھی۔ وزیر اعظم کے بیان کو اگر غور سے دیکھا جا ئے تو یہ عام طور پر عصمت دری یا اس طرح کی دوسری وارداتوں پر دیے گئے روایتی بیان سے زیا دہ کچھ نہیں لگتا۔ انہوںنے بیان میں کہا کہ وہ اس واردات سے سخت تکلیف اور غصہ میں ہیں، منی پور میں جو ہوا، وہ مہذب سماج کے لیے شرمسار کرنے والا ہے اور یہ واقعہ بھلے ہی منی پور کا ہے، لیکن اس سے پورے ملک کی بے عزتی ہوئی اور 140کروڑ لوگ اس سے شرمسار ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنے بیان میں ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کی بات بھی کہی ہے۔ بیان میں وزیر اعظم نے منی پور میں گزشتہ 3 مئی سے جا ری قتل وگری پر جو ردعمل ظاہر کرنا چاہیے تھا، وہ نہیں کیا اور منی پور سرکار کے خلاف کارروائی کا جو بھروسہ ملک کے 140 کروڑ شہریوں کو دلا نا چاہیے تھا، وہ بھروسہ نہیں دلایا۔ حد تو یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ یا منی پور سرکار کی کار کردگی پر سوال تک کھڑا نہیں کیا۔ نہ کسی کارروائی کے کیے جانے کا اشارہ تک دیا جبکہ انہوں نے ملک کی دوسری ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو نصیحت دیناضروری سمجھا اور لگے ہاتھوں چھتیس گڑھ اور راجستھان کی کا نگریس سرکار کے بھی کان اینٹھ دیے جس سے منی پور کی واردات کو ایک جواز دینے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انسانیت کی اس تذلیل میں تنہا منی پور کی سرکار نہیں کانگریس کی سرکاریں بھی ذمہ دار ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کسی ایک کا جرم کسی دوسرے کے لیے جرم کیے جانے کا جواز کیسے بن سکتا ہے؟۔ وزیر اعظم اگر سمجھتے ہیں کہ اس معاملہ میں چھتیس گڑھ اور راجستھان کی سرکاروں کا بھی اتنا ہی جرم ہے تو ان سرکاروں کے خلاف ان کی سرکار نے کارروائی کیوں نہیں کی؟ اتنا ہی نہیں، دانستہ یا نادانستہ طور پر مدھیہ پردیش اور اترا کھنڈ کی بی جے پی سرکاروں میں ہوئی ایسی دوسری وارداتوں کا ذکر کرنا کیسے بھول گئے ؟ چھتیس گڑھ کی واردات کے الزام میں جو نوجوان گرفتار کیے گئے ہیں، مبینہ طور پر ان کا تعلق ودیارتھی پریشد سے بتا یا گیا ہے جو بی جے پی کا اسٹوڈنٹ ونگ ہے۔ اسی طرح اتراکھنڈ میں جس خاتون کو زندہ جلا کر مو ت کے گھاٹ اتا را گیا، اس میں بی جے پی اترا کھنڈ کے دو بڑے لیڈر شامل بتا ئے جا تے ہیں جن میں باپ بیٹے کا رشتہ ہے۔ یہ واردات اترا کھنڈ کے ہندی اخباروں کی شہ سرخی بن چکی ہے اور ریکارڈ پر ہے۔ انسانیت کی تذلیل میں بھی اگر اس طرح کا امتیاز برتا جا ئے اور منی پور کی واردات کی سنگینی اور ہولناکی کو کم کر نے کے لیے مخالف جماعتوں کی سرکاروں کے سیاہ کارناموں سے موازنہ کیا جا ئے تو یہ طرز عمل انصاف کے منا فی ہے۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز شخصیت کو منی پور کی بی جے پی سرکار کو برخاست کر نا چاہیے۔ کانگریس کے صدر کھڑگے کے مطابق اس پر وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں بیان دینا چاہیے لیکن پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائی ہی ملتوی کردی گئی اور اس سلگتے ایشو پر بحث نہیں کرا ئی گئی ۔کانگریس کے قومی صدر کھڑ گے یا ترنمول کانگریس کے راجیہ سبھا کے رکن ڈیریک او برائن یا کپل سبل وزیر اعظم اور بی جے پی سرکارکے رویہ پر جوسوال کھڑے کررہے ہیں اور پورا اپوزیشن اس ایشو پر پارلیمنٹ میں بحث کرا ئے جانے کا مطا لبہ سرکار سے کر رہا ہے۔ شیو سینا (ادھو بالاصاحب ٹھاکرے) نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’دی کشمیر فائلس‘ کی طرح منی پور پر بھی منی پور فائلز بننی چاہیے۔ اپوزیشن اگر وزیراعظم کے رویہ اورپارلیمنٹ میں منی پور ایشو پر بحث نہ کرا ئے جا نے پر بر ہمی کا اظہار کررہا ہے تو کیا غلط کررہا ہے ؟ یوروپی یو نین نے اگر منی پور میں جاری نسلی تشدد پر بیان دیا ہے اور ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی ہے تو یہ موقع کس نے دیا؟
لوگ بھو لے نہیں کہ2002 میں جب گجرات بھیانک فسادات کی لپیٹ میں آیا تھا تو منی پورکی طرح وہاں بھی قتل و غارت گری کا بازر گرم کیا گیا تھا اور وہاں بھی اسی طرح دختران وطن کی آبرو ریزی کی گئی تھی۔ اس فساد میں گینگ ریپ کی شکار بلقیس بانو کی چیخیں ابھی بھی ذی حس لوگوں کی سماعتوں میں محفوظ ہیں۔ بلقیس بانو کی کم سن بچی کے سامنے درندوں نے ان کی اجتماعی عصمت دری کی تھی۔ کیا تب ملک شرمسار نہیں ہوا تھااور کیا ملک کو اس پر شرمسار نہیں ہو نا چاہیے کہ بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کے جن 11 ملزمان کو عدا لت سے عمر قید کی سزا سنا ئی گئی تھی، گزشتہ سال ان درندوں کو گجرات کی بی جے پی سرکار نے رہا کرا دیا تھا اور رہائی کے بعد بی جے پی کے لوگوں نے ان کا استقبال کیاتھا۔ بی جے پی سرکار نے ان کی رہا ئی کی دلیل یہ تھی کہ دوران قید ان کا چال چلن ٹھیک رہا تھا اور وہ اچھے سنسکاروں کے ہیں۔ بلقیس بانو نے مجرموں کی دوبارہ گرفتاری کے لیے عدالت کے دروازہ پر دستک دے رکھی ہے اور قبل از وقت رہا ئی کے خلاف سپریم کورٹ میں حتمی سماعت 11اگست، 2023کو ہو نی ہے ۔
منی پور میں کوکی قبیلہ کی خواتین کے ساتھ انسانیت سوزی کی ایک ہی واردات نہیں ہوئی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق، اب تک 160 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، 70 ہزار لوگ بے گھر ہوئیں ہیں۔ 5 ہزار آتشزنی کی وار دا تیں ہو چکی ہیں ۔ کو کی قبیلہ کی ان مظلوم خواتین کے ساتھ مشتعل بھیڑ نے جو کچھ کیا، اس کے لیے منی پور پولیس پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں جیسا کہ اکثر پولیس پر فرقہ وارانہ فسادات میں اٹھتے ہیں۔ الزام ہے کہ منی پور پولیس نے ان ستم رسیدہ خواتین کو بھوکے بھیڑیوں کی بھیڑ کے آگے ڈال دیا تھا جب وہ اپنے گا ئوں کو جلائے جانے کے بعد اہل خانہ کے ساتھ جان بچا نے کے لیے جنگل کی طرف بھاگ رہی تھیں۔ گھر والے تہ تیغ کر دیے گئے اور بھیڑیے ان بے بس خواتین پر ٹوٹ پڑے تھے۔ ان میں سے ایک خاتون وہ بھی ہے جس کا شوہر فوج میں صو بیدار رہ چکا ہے۔
منی پور میں بھڑکے تشدد کی آگ کی تپش اب میزورم تک پہنچ چکی ہے۔ منی پور میں جاری تشدد کے دوران میزورم کے سابق باغیوں نے میتئی قبیلہ کو دھمکی دی ہے کہ میتئی میزورم چھوڑدیں، ورنہ نتائج بھگتنے پڑیں گے جس کی ذمہ داری میتئی قبیلہ پر ہوگی لیکن اس کے باوجود وزیراعظم اور مرکزوصوبہ کی منی پور سرکاریں کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کر رہی ہیں۔وزیر داخلہ امت شاہ کا دورہ بھی ناکام رہاہے۔
[email protected]