شاہد زبیری
احترامِ آدمیّت،حقوقِ انسانی اور مذہب و اخلاق کے داعیان نے دور ِ حاضر کے اسرائیل جیسے جابر ،ظالم حکمرانوں اور وقت کے شیطانوں کے آگے کیا سپر ڈال دی ہے، جبکہ تاریخ کی سب سے بھیانک اسرائیلی بربریت اور سفاکیت کے سامنے انسانیت برہنہ پا سر پیٹ رہی ہے۔ حقوقِ انسانی کو پائوں تلے روندا جا جا رہا ہے ،مذہبی تعلیمات اور اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا ہے نہ عیسائیت کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس، نہ یہودی پیشوا کوئی ربی، حرم کے محافظ اور مٹھوں کے پجاری کسی کا ضمیر نہیں جاگ رہا ہے ،یو این او تو بے بس و لاچار ہے، دنیا کی امن فورس کے ہتھیار بھی زنگ آلود ہو گئے ہیں، مغرب اور امریکہ کی اسلحہ کی تاجر حکومتیں اسرائیلی درندوں کو اسلحہ فروخت کررہی ہیں، بھرپور تعاون دے رہی ہیں۔ عرب لیگ ہو یامسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی سب مفلوج نظر آتے ہیں، لیکن احترامِ آدمیّت ،حقوقِ انسانی، مذہب کی روشن اخلاقی اور انسانی تعلیمات کے داعی کہاں ہیں وہ کیوں خاموش ہیں؟ ۔زمین اور آسمان سے ارضِ فلسطین پر آگ اور خون کی بارش ہورہی ہے ہر طرف موت کا رقص جاری ہے ایک ماہ ہوگیا ہے موت کا یہ رقص لمحہ بھر کو بھی نہیں تھما۔فلسطین کی زمین کو زندہ انسانوں کا قبرستان بنا دیا گیا، اسپتال یاتو ڈھا دئے گئے یا وہ ایندھن کی قلّت سے موت نہیں لڑ پارہے چلتی پھرتی لاشوں کی آخری پناہ گاہوں رفیوجی کیمپوں پر بھی بم گرائے جارہے ہیں اور 9,000 سے زائد انسان اسرائیلی بر بریت کا شکار ہو چکے ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں بچے ،خواتین اور ضعیف شامل ہیں نہیں معلوم انسانی ہلاکتوں کا یہ سلسلہ کہا ں جاکر تھمے۔ مبصرین کے مطابق یو کرین میں دوسال سے جاری جنگ میںبھی اتنی ہلاکتیں نہیں ہوئی ہیں جتنی ایک ماہ میں فلسطین میں۔ آخر حماس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے 1400بے گناہ اسرائیلی شہریوںکی ہلاکتوں کا یہ جواز کیسے مانا جا سکتا ہے؟ ۔ غزہ کے 23لاکھ انسانو ں کوتو پہلے سے ہی دنیا کی سب سے بڑی جیل کی گھٹن بھری فضا میں سانس لینے کیلئے مجبور کیا ہوا تھا جس کا فائدہ حماس نے 7اکتوبر کے حملہ میں اٹھا یا۔ غزہ کی کھلی جیل کے 23لاکھ قیدیوں کی بچی کچھی سانسیں بھی گھونٹی جا رہی ہیں ان بے بس مقہور اور مجبور قیدیوں سے ان کی یہ سانسیںبھی چھینی جا رہی ہیں اس خطہ میں مغربی ممالک اور امریکہ کے بھرپور تعاون سے اسرائیلی فوجی جس طرح انسا نوں کی چیر پھاڑ کررہے ہیں، ان کی ہڈیاں چبا رہے ہیں، اس سے تو ہٹلر کیا چنگیز اور ہلاکو کی روحیں بھی شرما رہی ہوں گی۔ انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کا مظا ہرہ کیا جا رہا ہے۔ اتحادی فوجوںنے ہٹلر کو سبق سکھانے کیلئے جس طرح جرمنی کو نیست و نابود کرنے کیلئے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے گئے تھے۔ اسی طرح فلسطین میں کیا جا رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اسرائیلی کے دورِ حاضر کے ہٹلر نیتن یاہو کے ارادے کیا ہیں۔ نیتن یا ہو نے امدادی سامان پہنچنے تک کیلئے بھی عارضی جنگ بندی کی اپیل کو خارج کردیا ہے، اگر امریکہ عراق اور افغانستان کو زندہ انسانوں کا قبرستا ن بنا نے کے بعد بھی باہمت عراقیوں اور غیور افغانیوں کو ختم نہیں کرپایا ان کے حوصلوں کو پست نہیں کرسکا وہ ان فلسطینیوں کو جو گزشتہ 58سالوں اس کی بربریت اور د رندگی کوجھیلتے آرہے ہیں اس قوم کو نیست و نابود اور اس کے حوصلوں کو پست کر پائے گا جو غلیل سے اس کی گولیوں اور اپنی جا نوں سے اس کے ٹینکوں اور بموں کا مقابلہ کرتی آرہی ہے جس کی کئی نسلیں آزادی کی جنگ لڑتے لڑتے ختم ہو گئی ہیں۔
اس خونی کھیل اور انسانی جانوں کے زیاں میں جہاں مغربی ممالک اورامریکہ کی انسان دشمن حکو متیں اسرائیل کے ساتھ برابر کی ذمہ دار ہیں عرب ممالک اور اسلامی ممالک کی بزدلی بے ہمتی اور درونِ خانہ اسرائیل سے تعلقات بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں۔ سفارتی تعلقات ختم کرنا کیا اس کا حل ہے تعلقات تو دوسرے غیر مسلم انصاف پسند ممالک نے بھی ختم کئے ہیں۔ اگر یہ کہا جا ئے کہ انہوں نے اس سمت میں پہل کر کے عرب ممالک اور عالمِ اسلام کی حکومتوں کو آئینہ دکھا یا تو لوگ لاج کیلئے انہوں نے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑدئے، لیکن کیا یہ ممالک جس امریکہ کے قصیدے پڑھتے ہیں اور جن مغربی ممالک ان کے دوستانہ رشتے قائم ہیں اور جن کی حکومتیں انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ اسرائیل کو فلسطینیوں کے اس قتل عام میں بھر پور تعاون دے رہی ہیں کیا ان ممالک سے بھی سفارتی تعلقات ختم کرنے کا حوصلہ اور ہمّت دکھا سکتی ہیں۔ دنیا کا ہر قانون قاتل کی مدد کر نے اس کو آلۂ قتل مہیّا کرا نے یہاں تک کہ قاتل کو پناہ دینے والوں کو بھی مجرم مانتا ہے کیا یہ حکو متیں انسانی قتل عام میں اسرائیلی سفا کیت میں بھر پور معاون نہیں ہیں اگر ہیں تو عرب ممالک اور دیگر اسلامی ممالک کو سپر پاور کہلانے والی طاقتوں سے بھی اپنے سفارتی تعلقات ختم کر لینے چا ہئے سب جا نتے ہیں وہ یہ جرأت نہیں رکھتی ہیں، اتنی مجبور کمزور حکومتیں اس حالت میں کبھی نہیں رہیں کہ وہ ان سپر طاقتوں کو آنکھیں دکھا سکیں اگر کوئی یہ جرأت دکھا ئے گا تو اس کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا جائے گا ان کو اسی کا خوف ہے ان میں بعض حکومتوں نے تو اپنے عوام کو بھی اتنی آزادی نہیں دے رکھی ہے کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور انسانی جرائم کے خلاف سڑکوں پر اتر کر صدائے احتجاج بلند کر سکیں اور اپنے سینو ں میں کھول رہے غصہ کے آتش فشاں کو سرد کرسکیں ۔ان حکومتوں سے کہیں بہتر وہ حکومتیں ہیں جو براہِ راست اس خونریزی میں اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہیں، لیکن ان ممالک کے کے انسان دوست اور انصاف پسند عوام سڑکوں پر اسرائیل کی اس بر بریت کے خلاف احتجاج درج کرا رہے ہیں حتیٰ کہ اسرائیل اور امریکہ کی عوام بھی اس میں پیش پیش ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ثالثی کا کردار ادا کررہے قطر نے تو ابھی بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تمام ممالک حسبِ عادت اسرائیل کے خلاف بیانات کے گولے داغ رہے ہیں اور عالمی سطح مسلم مذہبی رہنما دنیا بھر میں دعائوں اور وظائف کا ورد کرنے کی مسلمانوں کو تلقین کررہے ہیں اگریہ مسلم مذہبی رہنما عالمی سطح پر تمام مذاہب کے مذہبی رہنمائوں کو امن و آشتی کیلئے اکھٹا کر کے اجتماعی طور پراسرائیل اور اس کی ہمنوا حکومتوں کی چیرہ دستی اور انسا ن دشمنی کیخلاف آواز بلند کریں تو شاید وہ مغربی ممالک اور امریکہ کو اسرائیل کی حمایت اور تعاون سے باز رکھ سکیں اور اسرائیل کو اس کی کھلی دہشت گردی سے باز رہنے کیلئے مجبور کیا جا سکے ۔
اسی کالم میں یہ یاد دہانی کرائی جاتی رہی ہے کہ ہندوستان’وسو دیو کٹھمبکم‘کے انسان دوست نظریہ پر یقین رکھتا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی ’ایک زمین ایک کنبہ اور ایک مستقبل‘ کے نظریہ کے پُر جوش حامی ہیں انہوں نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای )کے صدر شیخ محمد بن زایدالنہیان سے بات کی اور دونوں رہنمائوں نے اس مسئلہ سے پیداہونے والے انسانی بحران کے جلد حل کی اپیل بھی کی اور خطہ میں مستقل امن ،تحفط اور استحکام کی اہمیت پر زور دیا لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب فلسطین کا مسئلہ حل ہو چونکہ اسرائیل تو فلسطین کے وجود سے ہی انکار کرتا آرہاہے وہ طاقت کے بل پر پورے فلسطین پر اپنا جارحانہ تسلط چاہتاہے اور فلسطینیوں کو اس حصہ پر بھی آباد نہیں دیکھنا چاہتا جو غزہ پٹی یا ویسٹ بینک کہلاتا ہے ۔ظالم اور مظلوم کو ایک پلڑے میں رکھ کر انصاف کبھی ممکن ہوا ہے نہ ہو گا۔ اسرائیل کے قیام کو دنیا اگر ایک حقیقت مانتی ہے تو فلسطین کے وجود کو بھی اسرائیل سے تسلیم کرا ناہوگا اور فلسطین کے جن حصوں پر وہ قابض ہے ان کو خالی کرانا ہوگا اس کے بغیر اس خطہ میں امن و آشتی کی خواہش ورنہ محض خام خیالی کہلائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی سپر طاقتیں اس کا مستقل حل نہیں چاہتی ہیں وہ فلسطینیوں کے کٹے ہوئے سروں کو صرف فٹ بال سمجھتی ہیں اور ارضِ فلسطین کوکھیل کا میدان جہاں وہ یہ کھیل کھیلتی آرہی ہیں انسانی بحران کیلئے سپر طاقتیںذمہ دار ہیں۔ اسرائیل تو محض ایک مہرہ ہے۔ انہوں نے ہی اسرائیل کوجود بخشا ہے ۔ مہذب کہی جا نے والی اس دنیا میں آج بھی ایسا لگتا جیسا دنیا میں جنگل راج ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔ جوش ملیح آبادی کا یہ شعرجوہندوستان کی تقسیم کے تناظر میں کہا گیا تھا آج بھی صادق آتا ہے کہ:
درندو ں جنگلو ں سے آئو اور آکر یہ گواہی دو کہ
انساں سے نہیں پائی ہے انساں نے اماں ابتک
[email protected]