الہ آبادہائی کورٹ کا یو پی حکومت کوجوابی حلف نامہ داخل کرنے کا حکم
نئی دہلی(اظہار الحسن،ایس این بی ) :میرٹھ میں1987 کے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران ہاشم پورہ کے قتل عام کے متاثرین کو تو تین سال قبل دہلی ہائی کورٹ سے 31سال بعد انصاف مل گیا تھا لیکن 23مئی 1987کو ہوئے ملیانہ قتل عام جس میں تقریباً سوا سو بے گناہ مسلمانوں کو جن میں زیادہ تر نوجوان تھے ،انتظامیہ نے اس مقدمے کی فائل ہی غائب کردی تھی جس کی وجہ سے متاثرین کی انصاف کی امید یں قریب ختم ہی ہوچکی تھی ۔لیکن گذشتہ روز 19اپریل 2021کو الہ آباد ہائی کورٹ کی ڈویزن بنچ نے تقریباً 34سال بعدریاست اتر پردیش کوحکم دیا ہے کہ وہ سینئر صحافی قربان علی کی طرف سے دائر رٹ پٹیشن پر جوابی حلف نامہ کے طور پر جواب داخل کرے ، جس نے اس وقت 72 مسلمانوں کے قتل عام کو دیکھا ہے اور کوربھی کیا تھا ۔ درخواست گزار کی طرف سے انسانی حقوق کے مشہور کارکن سینئر وکیل کولن گنزاولس کے ذریعہ داخل پیش ہوئے ۔حالانکہ اس عرضی کی یو پی سرکار کے وکیل کی طرف سے پرزور مخالفت کی گئی ۔
قابل ذکر ہے کہ اس معاملے میں سینئر صحافی قربان علی کے علاوہ دوسرے درخواست گزار وبھوتی نارائن رائے ، آئی پی ایس ، سابقہ ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) اتر پردیش ، متاثرہ اسماعیل ، جس نے گیارہ کنبہ کے ممبروں اور ایک وکیل راشد کھو دیا تھا، جنہوںنے میرٹھ کی ایک ٹرائل کورٹ میں مقدمہ چلایا تھا۔ درخواست گزاروں نے بتایا کہ تین دہائیوں سے میرٹھ میں ٹرائل کورٹ رک رہی تھی کیونکہ عدالتی کاغذات بشمول اس مقدمے کی ایف آئی آر ، پراسرار طور پر غائب تھے۔ اس دوران ، یوپی پولیس اور پی اے سی اہلکاروں پر متاثرین اور گواہوں کو ڈرانے،دھمکی دینے کا بھی الزام لگایا گیا تھا۔ سینئر صحافی قربان علی نے بتایا کہ وہ اس معاملے میں دیگر فریقین کے ساتھ مل کر پچھلے تین سال سے کوشش کر رہے تھے کہ ہاشم پورہ کی طرح ملیانہ کے متاثرین کو بھی انصاف دلایا جاسکے ،جس میںدیر سے ہی صحیح لیکن الہ آباد ہائیکورٹ سے ایک بہت بڑی کامیابی ملی ہے۔واضح رہے کہ ہاشم پورہ کے ایک متوازی معاملے میں ، جہاں یوپی پولیس اور پی اے سی کے ذریعہ 22 مئی 1987 کو 50سے زیادہ مسلم نوجوانوں کو اٹھایا گیا تھا، اور بعد میں مراد نگر میں بالائی گنگا نہر اور یوپی کے قریب دریائے ہنڈن میں ہلاک کردیا گیا تھا۔
دہلی کے بارڈر ، اس معالے کو دہلی منتقل کردیا گیا ۔ دہلی ہائی کورٹ نے بالآخر 19 ملزم پی اے سی اہلکاروں کو مجرم قرار دیا اور 31 اکتوبر 2018 کو انہیں عمر قید کی سزا سنائی۔ گزشتہ روز19اپریل 2021کو ملیانہ قتل عام کے معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ میں سنوائی کے دوران حالانکہ ریاست کے وکیل نے دلیل دی کہ یہ کیس بہت پرانا ہے اور اس معاملے میں کوئی میرٹ نہیں ہے ، لیکن الہ آباد ہائی کورٹ ڈویڑن بینچ نے زوردیا کہ ریاست کو جوابی حلف نامہ داخل کرنا چاہئے۔درخواست گزاروں کی جانب سے انسانی حقوق کے مشہور کارکن اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کولن گونسلز پیش ہوئے۔عرضی گزار سینئر صحافی اور اس قتل عام کے عینی شاہد سینئر صحافی قربان علی نے بتایا کہ یہ واقعات دل کو چھو لینے تھے جن میں ایک طرح سے ظلم کی انتہا تھی کیونکہ وہ اس وقت ان واقعات کی رپورٹنگ بھی کر رہے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ تین سال پہلے دہلی ہائی کورٹ کے ذریعہ ہاشم پورہ قتل سانحہ معاملے میںتقریباً 31 سال بعد انصاف ملاجس میں متاثرین کو کچھ حد تک راحت ملی۔ لیکن بدقسمتی ملیانہ قتل عام معاملے کو انتظامیہ شروع سے دباتی رہی جس کے نتیجہ میں یہ کیس آگے نہیں بڑھ سکا اور یسا فائلوں کا غائب کیا جانا رہا ۔لیکن خود ان کے ذریعہ دیگر افراد کے ساتھ ہاشم پورہ کے متاثرین کی طرز پر انصاف دلانے کی کوشش جاری رہی اور آخر کار الہ آبادہائی کورٹ نے یو پی سرکار کے وکیل کی شدید مخالفت کے باجود ان کی عرضی کو ایڈمٹ کیا ہے ،اور اس معاملے میں جواب میں مانگا ہے۔مسٹر قربان علی نے کہا کہ اب عدالت نے کیس کو ایڈمٹ کر لیا ہے اور جواب بھی مانگا ہے ،سنوائی جاری رہے گی ،جس سے متاثرین کو انصاف ملنے کی راہ ہموار ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ اس کوشش سے ملیانہ قتل عام کے سبھی متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دلانے کی سمت میں پیش رفت ہوئی ۔انہوں نے عدالت کے فیصلہ پر کہا کہ ملیانہ قتل عام معاملے میں جب لوگ نا امید ہوگئے تھے ان سبھی کی کوشش سے اب عدالت کے ریمارکس سے روشنی جگی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS