تعلیم کا بنیادی مقصد انسان کی ذہنی نشوونما کرکے اسے اعلیٰ اخلاق سے مزین کرنا اور اس کی تخیلی و تخلیقی قوتوں کی ترتیب و تہذیب ہے۔دنیا کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ تعلیم کو ہر طرح کے رنگ، تعصب اور امتیاز سے بالاتر ہوکر خالص علمی حیثیت میں فروغ دیاجاناچاہیے تاکہ انفرادی اکائی کے طور پر ایک تعلیم یافتہ شخص کی ذات پورے معاشرہ کیلئے نافع ہوا ور فلاح انسانیت کاسبب بنے۔ لیکن ہندوستان جنت نشان میں تعلیم کا یہ آفاقی اصول خطرات سے دوچار ہوچلا ہے۔ حکمراں طبقہ کی خواہش ہے کہ تعلیم کو باقاعدہ بھگوارنگ میں رنگ د یا جائے اوران کے ہی حسب خواہ نظام تعلیم رائج کرکے پورے ملک کو اس کے دائرہ میں لے آیاجائے۔اپنی کوشش کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کیلئے ہرطرح کا حربہ استعمال کیاجارہاہے۔ کہیں تعلیمی اداروں میں حجاب پر تنازع اٹھاکر یکسانیت کی بحث چھیڑی جارہی ہے تو کہیں اسکول یونیفارم کے معاملہ کو طول دے کر سماج کے ایک طبقہ کو تعلیم سے ہی محروم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ اب ایک نیا تنازع ہمارے نائب صدر جمہوریہ عزت مآب وینکیا نائیڈو کے اس سوال سے اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ ’ تعلیم کے بھگواکرن‘ میں کیا غلط ہے؟
اتراکھنڈ کے ہری دوار میں دیو سنسکرتی وشو ودیالیہ کے سائوتھ ایشین انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ ری کونسی لیشن (امن و مفاہمت کا ادارہ برائے جنوبی ایشیا) کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران نائب صدرجمہوریہ نے ہندوستان میں مروجہ تعلیم کے بھگواکرن کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کو ’نوآبادیاتی ذہنیت‘ سے پرہیز کرنا چاہیے اورا پنی ہندوستانی شناخت پر فخر کرنا سیکھنا چاہیے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کی نئی تعلیمی پالیسی میں ’ ہندوستانیت‘ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جس میں مادری زبانوں کو فروغ دینے پر زور دیاگیا ہے۔ہمیں اپنی وراثت، اپنی ثقافت اور اپنے آبا و اجداد پر فخر محسوس کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے بچوں کو اپنی ہندوستانی شناخت پر فخر کرنا سکھانا چاہیے اور اپنے شاستروں کو جاننے کیلئے سنسکرت سیکھنا چاہیے جو کہ علم کا خزانہ ہے۔اسی تسلسل میں موصوف نے یہ سوال بھی کرڈالا کہ تعلیم کے بھگواکرن میں کیا خرابی ہے؟
نائب صدر کی اس بات سے تو کسی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دی جانی چاہیے اورنوآبادیاتی ذہنیت ختم کی جانی چاہیے لیکن ان کی یہ رائے کہ ہندوستان کی وراثت و ثقافت اورشاستروں کو جاننا لازم کیا جانا چاہیے اور ’خزینہ علم‘ سنسکرت سیکھنا چاہیے، سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے۔اس تناظر میں بھگوا خیمہ کی اب تک کی جانے والی کوششوں کا جائزہ لیا جانا بھی ضروری ہے۔بھارتیہ جنتاپارٹی یا راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ جب کوئی شخص تعلیم کے بھگواکرن کی بات کرتا ہے، اس سے مراد ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت اور روایت و وراثت نہیںبلکہ ’دیومالائی ہندوستانی روایت‘ کی واپسی ہوتی ہے۔ایک ایسی تاریخ و تہذیب مراد ہوتی ہے جس میں کسی دوسرے فرقہ اور طبقہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہو۔ایک ایسی خودساختہ اور گڑھی ہوئی تاریخ و تہذیب پڑھائی جائے جو صرف اور صرف ایک ہی مذہب کے گرد گردش کرتی ہواور ان کی آرزوئوں کی تکمیل ’ ہندو راشٹر‘ کے قیام پر منتج ہو۔
چونکہ آج کے ہندوستان کی نصابی کتابوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ میں کوئی ایسا باب نہیں ہے جس سے سنگھ کی یہ مرا د پوری ہوتی ہو، اس لیے یہ اس کی دیرینہ آرزو ہے کہ تاریخ ہی بدل دی جائے۔ اس کی کوشش اس نے آزادی کے فوراًبعد سے ہی شروع کردی تھی۔ خود ساختہ تاریخ تیار کرنے کا آغاز کردیا تھا، اپنے افکار و نظریا ت اور دیومالائی قصے کہانیوں کو تاریخ بتاکر پڑھانے کیلئے ملک بھر میں درس گاہوں کا جال بچھایا اور جب حکومت پرقبضہ ہوا تو نصاب تعلیم بدلنے کی کوششیں کی گئیں۔ 1998میں جب پہلی بار مرلی منوہر جوشی کو وزارت فروغ انسانی وسائل (موجودہ وزارت تعلیم) کی ذمہ داری ملی تھی تو انہوں نے تعلیمی پالیسی ساز اداروں میں پورے ملک سے چن چن کر ایسے لوگوں کو لا بٹھایاجوسنگھ کے نظریات و افکار کوجزو ایمان سمجھتے تھے۔ 2014کے بعد سے ان کوششوں کو پر لگ گئے ہیں۔ یہ کوشش اب تک پردہ کے پیچھے سے ہورہی تھی، حکومت بہرحال اپنا دامن بچاتی نظرآتی تھی لیکن اب وینکیا نائیڈو نے نائب صدر جمہوریہ کی حیثیت میں یہ سوال اٹھاکر کہ تعلیم کے بھگوان کرن میں کیاخرابی ہے، یہ سمجھنے پر مجبور کردیا ہے کہ نظام تعلیم کی موجودہ لبرل ایپروچ حکومت کو منظور نہیں ہے اوراسے جلد یابدیرختم کرنا چاہتی ہے۔
صرف سنسکرت اور شاستروں کو ہندوستان کی تہذیب و ثقافت سے جوڑنا ایک ایسی تنگ نظری ہے جس کی ہندوستان کے آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ملک کا آئین سب کیلئے مساوات کا قائل ہے، مذہب او رجنس کے کسی امتیاز کے بغیر سبھی کو تعلیم کا حق دینے پر آئین کو اصرار ہے۔آئین ایک ایسے ہندوستان کا تصور دیتا ہے جس کا ہر تعلیم یافتہ فر د کسی ایک رنگ میںرنگا ہوا نہ ہوکسی خاص مذہب یا طبقہ کے بجائے پورے معاشرہ کیلئے نافع ہو۔
وینکیانائیڈو جس ہندوستانی تعلیمی ورثہ اور تعلیم کے بھگواکرن کی بات کررہے ہیں، اس کا ہر ورق امتیاز و تعصب کی نفرت انگیز کہانیوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہندوستان کی قدیم وراثت اور تہذیب خواتین اور معاشرہ کے نچلے طبقہ کو علم کاحق دینے کو تیار نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس تہذیب و وراثت میں علم و عقل کی بات سننے والی خواتین اور نچلے طبقات کے کانوں میں پگھلا ہواسیسہ ڈالنے کی انسانیت سوزروایت بھی ہے۔کیا وینکیا نائیڈو تعلیم کا بھگواکرن کرکے پھر وہی دن واپس لاناچاہتے ہیں ؟
[email protected]
’تعلیم کے بھگواکرن ‘میں خرابی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS