بھرت جھنجھن والا
سبھی جانداروں کے جسم میں کاربن اور ہائیڈروجن ہوتے ہیں۔ موت کے بعد ان تمام جانداروںکا جسم سڑنے لگتا ہے۔ سڑتے وقت آس پاس آکسیجن دستیاب ہوئی، تو جسم میں موجود کاربن سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈرون سے H2Oیعنی پانی بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر سڑتے وقت آکسیجن دستیاب نہیں ہوتی تو وہی مادّے میتھین گیس یعنی CH4بن جاتے ہیں۔ یہ گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نسبتاً گلوبل وارمنگ کی بڑی وجہ ہے۔ زمین سے جب گرمی کی شعاعیں نکلتی ہیں تو وہ کاربن اور ہائیڈروجن کے ایٹموں کے درمیان تھرتھراہٹ پیدا کرتی ہیں۔ وہ توانائی خلا میں نہیں جاپاتی۔ وہ ہمارے ماحول میں رہ جاتی ہے اور زمین کو گرم کرتی ہے۔ واضح ہو کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلہ میں میتھین کے مالیکیولز میں تھرتھراہٹ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے میتھین 28سے 80گنا زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ گلاسگو میں ہورہی COP26 کانفرنس میں تقریباً 100ممالک نے میتھین کے اخراج کو محدود کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔
زراعت اور مویشی پروری سے بڑی مقدار میں میتھین گیس نکلتی ہے۔ دھان کے کھیتوں کو پانی سے بھردیا جاتا ہے۔ اس پانی میں مناسب مقدار میں آکسیجن نہیں رہتی، جس سے پودوں کے نیچے گرے ہوئے پتے کے سڑنے سے میتھین گیس بنتی ہے۔ گائے کے فضلہ سے بھی میتھین گیس نکلتی ہے۔ بڑے ہائیڈروالیکٹرک پروجیکٹ کے تالابوں میں جو ٹہنی، پتے اور مردہ مویشی بہہ کر آتے ہیں، وہ تالاب کی سطح میں پڑے پڑے سڑتے رہتے ہیں۔ اس سے بھی بڑی مقدار میں میتھین پیدا ہوتی ہے۔ نیشنل انوائرمینٹل انجینئرنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے پایا کے ٹہری جھیل سے بھی میتھین کا اخراج ہورہا ہے۔
ہندوستان کا کہنا ہے کہ دھان، مویشی پروری اور پن بجلی کو فروغ دینا ہماری معیشت کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے میتھین کے اخراج کو محدود کرنے کو قبول کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ دھان کی کھیتی کم کریں گے تو ملک کی فوڈ سیکورٹی بھی متاثر ہوگی۔ اسی لیے ہندوستان نے اس گلاسگو معاہدہ پر دستخط کرنے سے انکار کردیا ہے۔
لیکن اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے مطابق میتھین کا اخراج کم کرنے کے آدھے طریقے ایسے ہیں، جن سے معاشی فائدہ ہوتا ہے۔ مثال کے لیے، دھان کے کھیت میں مسلسل زیادہ وقت تک پانی بھرا رکھنے کی جگہ پر اگر کچھ وقت تک پانی بھر کے رکھا جائے، پھر اسے بہا دیا جائے اور کچھ وقت بعد دوبارہ نیا پانی بھر دیا جائے تو میتھین کا اخراج کم ہوجاتا ہے۔ پانی کی کمی میں پتیوں کا سڑنا رک جاتا ہے اور نئے پانی میں آکسیجن بھی دستیاب رہتی ہے۔ اس سے فصل کی مقدار تو پہلے جیسی ہی رہتی ہے، لیکن میتھین گیس کا اخراج کم ہوتا ہے۔
گوبر سے سابقہ میں اپنے ملک میں گوبر گیس بنائی جاتی تھی۔ گوبر کے سڑنے سے میتھین گیس خارج ہوتی تھی، لیکن اسے ٹریپ کرلیا جاتا تھا اور اس سے لائٹ، رسوئی پکانے جیسے کام لیے جاتے تھے۔ ایسا کرنے سے میتھین کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل ہوکر خارج ہوتی تھی۔ بعد میں ایل پی جی کے سستا ہونے اور دور کے گاؤوں میں دستیاب ہونے سے گوبر گیس کا استعمال کم ہوتے ہوتے تقریباً صفر ہوگیا۔ اس سے میتھین کے اخراج کا نقصان روکتے ہوئے اس کا فائدہ اٹھانے کا ایک طریقہ اس سے چھن گیا۔ ایک ریسرچ میں پایا گیا کہ گائے کے مقابلہ میں بیل کے ذریعہ میتھین کا اخراج زیادہ ہوتا ہے۔ ہم گوبر گیس کا استعمال کریں اور گائے کی ایسی نسلیں بڑھائیں جو کہ دودھ زیادہ دیں اور میتھین کم خارج کریں تو یہ بھی ہمارے لیے فائدہ کا سودا ہوگا۔ ہمیں ویجیٹئرین فوڈ پر بھی غور کرنا چاہیے۔ نان ویجیٹئرین فوڈ میں میتھین کا اخراج زیادہ ہوتا ہے کیوں کہ گوشت کو بنانے میں مویشی کے ذریعہ میتھین کا اخراج ہوتا ہے۔ اگر ہم سبزی خوری کو اپنائیں تو میتھین کے اخراج کو کم کرسکتے ہیں اور کھانے کی لاگت میں بھی بچت کرسکتے ہیں۔
پن بجلی پر بھی دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ موجودہ وقت میں حکومت جنوب میں پولاورم اور شمال میں لکھواڑ بیاسی جیسے بڑے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کی تعمیر کو فروغ دے رہی ہے۔ ان سے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت 10روپے فی یونٹ یا زیادہ ہوگی۔ اگر یہی رقم شمسی توانائی میں لگائی جائے تو کاربن کا اخراج کم ہوگا اور 4روپے فی یونٹ پر بجلی مل جائے گی۔ میتھین کا اخراج کم کرنے کے یہ طریقے کافی اہم ہیں۔ ان کے مدنظر کہا جاسکتا ہے کہ حکومت میتھین معاہدہ پر دستخط کرے یا نہ کرے، اسے ان سرگرمیوں کو فروغ دینے پر ضرور توجہ دینی چاہیے، جن سے کاربن کا اخراج کم ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی بھی ہوتی ہے۔
اس سمت میں حکومت بہتر نظریہ اختیار کرتے ہوئے چلے تو بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اسے کھیتی میں استعمال کیے جانے والے پانی کی قیمت بڑھا دینی چاہیے۔ ایک دیگر طریقہ یہ ہے کہ پانی کو حجم کے حساب سے فروخت کرنے کا انتظام کیا جائے۔ اس سے کسان سستے پانی کے لالچ میں دھان میں مسلسل پانی بھر کر رکھنا بند کردیں گے۔ حکومت کو ایل پی جی کی قیمت بڑھانی چاہیے، جس سے گوبر گیس بنانا فائدہ مند ہوجائے۔ نان ویج کھانے پر بھاری ٹیکس لگانا چاہیے، جس سے ویج کھانے کو وسعت ملے۔ یہی نہیں، بڑے ہائیڈروالیکٹرک پروجیکٹس پر بھاری ماحولیاتی ٹیکس لگانا چاہیے، جس سے شمسی توانائی کا فروغ ہو۔ پانی، ایل پی جی، نان ویج کھانے اور پن بجلی پر لگائے گئے ٹیکس سے حاصل رقم کو سرکاری ملازمین کے بڑھی ہوئی تنخواہوں پر خرچ کرنے کے بجائے عام لوگوں کے درمیان راست طور پر تقسیم کریں۔ ایسا کرنے سے عام آدمی پر اس ٹیکس کا ذرا بھی بوجھ نہیں پڑے گا۔ جتنا بوجھ مہنگے چاول اور ایل پی جی سے پڑے گا، اتنی ہی رقم کی سبسڈی مل جائے گی۔ حکومت کو اس سمت میں قدم اٹھانے چاہیے، جس سے ہماری معاشی ترقی ہو اور ہم گلوبل وارمنگ میں اضافہ والے ممالک کی قطار میں نہ کھڑے ہوں۔
(بشکریہ: نوبھارت ٹائمس)