محمد فاروق اعظمی
کورونا وائرس کے آغاز سے اب تک وزیراعظم نریندر مودی کم و بیش 10بار قوم سے خطاب کرچکے ہیں۔ پہلے خطاب کے بعد قوم کو جنتاکرفیو، دوسرے کے بعد غیر منظم لاک ڈائون کا تحفہ ملا تھا تو تیسرے خطاب میں انہوں نے رات 9بجے سے 9منٹ کیلئے پورے ملک کی بتی گل کروادی تھی اور اگلے خطاب میں قوم کوتالی اور تھالی کا تحفہ تھمادیاتھا۔ا ن ہی10خطابوں میں سے کسی میں انہوں نے معیشت کی بحالی کیلئے20لاکھ کروڑ روپے کے مجموعہ مراعات کا بھی اعلان کیا تھا۔لیکن جمعہ 22اکتوبر 2021کو قوم کے نام ان کا دسواں خطاب انتہائی پرجوش اور ولولہ انگیز تھا۔کورونا کے خلاف جاری جنگ کے دوران ملک میں ہی تیار کی گئی ویکسین کی 100کروڑ خوراک دیے جانے کاہدف حاصل کرلینے کے تناظر میں وزیراعظم نے کئی ایک ایسی امید افزاباتیں کہیں جن کا جائزہ لینے کی ضرورت سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں اہل وطن سے ہندوستان ساختہ اشیا استعمال کرنے کی اپیل کرتے ہوئے ’ میڈ ان انڈیا‘ کو باقاعدہ تحریک بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ اندرون ملک تیار کردہ چیزوں کی خریداری اور استعمال کو اپنے معمولات میں شامل کرلیں۔ بڑھتی مہنگائی،بے روزگاری، پٹرولیم مصنوعات کی بے لگام ہوتی قیمتوں، تقریباً ایک سال سے احتجاج اور مظاہرہ کررہے کسانوں کی بابت ایک لفظ کہے بغیر وزیراعظم نے ملک کی ’بے مثال معاشی ترقی‘ کا مژدہ بھی سنادیا۔وزیراعظم نریندر مودی کے مطابق ماہرین معیشت اور ملکی نیز غیر ممالک کی بھی کئی ایجنسیاں ہندوستان کی معیشت کے بارے میں کافی پرامید ہیں۔ ملک میں نہ صرف ریکارڈ سرمایہ کاری ہورہی ہے بلکہ روزگار کے نت نئے مواقع بھی وضع کیے جارہے ہیں۔ نئے اسٹارٹ اپس کے ساتھ پرانوں میں ریکارڈ سرمایہ کاری کا بھی ذکر کیا۔ ’ گتی شکتی‘ پروجیکٹ کو ہندوستان میں ترقیاتی انقلاب کا آغاز قرار دیا۔ وزیراعظم نے زراعت کے شعبہ کی تعریف کی اور کہا کہ کورونا بحران کے دور میں زراعت نے ملکی معیشت کومضبوطی سے سنبھالے رکھا، آج ریکارڈ سطح پر حکومت اناج کی خریداری کررہی ہے اور رقم براہ راست کسانوں کے بینک اکائونٹ میں جارہی ہے۔وزیراعظم نے کورونا ویکسین کی بڑھتی ہوئی کوریج کے ساتھ ہر شعبہ میں تیزترین مثبت سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج ہر چہار جانب اعتماد، حوصلہ، جوش و ا منگ کی فضاپائی جارہی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ وزیراعظم نے پہلی بار عوام سے یہ اپیل کی ہو کہ وہ ہندوستان ساختہ اشیا کا استعمال کریں۔اس سے قبل بھی وہ اس معاملے پر اصرار کرچکے ہیں۔ وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے فوراً بعد انہوں نے 2014میں ہی ’ میک ان انڈیا‘ پالیسی کا بھی اعلان کیا تھا۔ لیکن سات برسوں بعد بھی ’میک ان انڈیا‘ سے ’میڈ ان انڈیا‘ تک کا سفر پورا نہیں ہوپایا ہے۔
اس دوران بہت کچھ تبدیلیاں آچکی ہیں مینوفیکچرنگ سیکٹر اور ملک کی معیشت دونوں بہت بدل گئے ہیں۔ ’میڈ ان انڈیا‘ پر اصرار سے قبل ’ میک ان انڈیا‘ کی صورتحال واضح ہونی ضروری ہے۔ 25 ستمبر 2014 کودھوم دھڑکے اور باجے گاجے کے ساتھ اس پالیسی کا آغاز کیاگیا تھا۔ حکومت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’ میک ان انڈیا‘ سے معیشت میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کا حصہ بڑھ جائے گااور شرح نمو12سے 14فیصد سالانہ ہوجائے گی اور2022تک ایک کروڑ روزگار کے مواقع وضع کرلیے جائیں گے۔بظاہر تو یہ پالیسی بڑی خوش کن اور امید افزا نظر آرہی تھی لیکن سات برس گزرنے کے بعدبھی یہ پالیسی بے ثمر ہی رہی۔ ان سات برسوں میں نئے کل کارخانے اور پیداواری اکائیاں لگنے کے بجائے بڑے بڑے بزنس ٹائیکون نے ہندوستان سے اپنا بوریا بستر سمیٹ لیا۔ اس پالیسی کا سب سے زیادہ منفی اثر زراعت پر پڑا۔ ہندوستان جیسے زرعی ملک میں بنائی گئی ’ میک ان انڈیا‘پالیسی میں زراعت کو سرے سے ہی نظرانداز کر دیا گیا۔ میک ان انڈیا بنیادی طور پر مینوفیکچرنگ صنعتوں کو بڑھاوا دینے والی پالیسی ہے اور اس پالیسی کی کامیابی کیلئے لازمی تھا کہ بڑے بڑے کل کارخانے لگائے جاتے لیکن ایسا نہیں ہوپایا۔اس کے برخلاف 2014 سے 2020 تک کے چھ برسوں میں تقریباً35ہزاربڑے تاجروں اور سرمایہ کاروں نے اپنا کاروبار سمیٹتے ہوئے ملک ہی چھوڑ دیا۔ تاجروں اور سرمایہ کاروں کی ہجرت کے معاملے میں ہندوستان نے پہلا مقام حاصل کرکے پوری دنیا میں منفرد ریکارڈ بنالیا۔ وزیراعظم مودی کے پہلے چار برسوں میں 2014 اور 2018 کے درمیان تقریباً 23 ہزاربڑے بزنس ٹائیکون نے ملک چھوڑا تو وزیراعظم کی دوسری پاری کے آغاز یعنی سال 2019 میں 7000 کاروباری افراد نے ہندوستان چھوڑ دیا اور پھر سال 2020 میں 5000 تاجروں نے ملک چھوڑ دیا۔
اتنی بھاری تعداد میں تاجروں اور صنعت کاروں کی ہجرت کی وجہ چاہے جو بھی ہو لیکن یہ بہر حال ’ میک ان ا نڈیا‘ پالیسی کی کامیابی نہیں کہی جاسکتی ہے۔
معیشت میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی ’میک ان انڈیا‘ کی پالیسی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوپائی ہے۔گزشتہ چھ سات برسوں میں معیشت میں سرمایہ کاری کی شرح نمومیں مسلسل کمی آتی رہی ہے۔ اس پالیسی کے بنیادی ہدف یعنی مینوفیکچرنگ سیکٹر میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوپایا ہے۔ معیشت میں کل سرمایہ کاری کی عکاس کہی جانے والی مجموعی فکسڈ کیپٹل فارمیشن (جی ایف سی ایف) اس پالیسی سے قبل 2013-14میں 31.3 فیصد تھی، سال 2017-18 میں کم ہوکر28.6فیصد ہوگئی۔قابل ذکر یہ بھی ہے کہ اس عرصے کے دوران مجموعی سرمایہ کاری میں سرکاری شعبے کا حصہ کم و بیش ویسا ہی رہا لیکن نجی شعبے کا حصہ 24.2 فیصد سے گھٹ کر 21.5 فیصد رہ گیا۔
مینوفیکچرنگ کے شعبہ کی پیداوار میں تبدیلی کا سب سے بڑا انڈیکس آف انڈسٹریل پروڈکشن (آئی آئی پی) میں بھی اس دوران کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ صنعتی پیداوار کا اشاریہ اپریل 2012 سے نومبر 2019 کے درمیان زیادہ تر مہینوں میں یا تو 3 فیصد سے کم یا منفی رہا ہے۔ یعنی مینوفیکچرنگ سیکٹر میں پیداوار میں اضافہ ابھی نہیں ہوا ہے۔
یہی صورتحال روزگار کے شعبہ میں بھی رہی ہے سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی(سی ایم آئی ای)کے مطابق 2014 سے اب تک بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے۔
’میڈان انڈیا‘ پر اصرار سے قبل یہ لازمی ہے کہ ’میک ان انڈیا‘ رو بہ عمل ہو لیکن جو اعدادو شمار سامنے ہیں اس سے تو یہ قطعی نہیں محسوس ہو رہاہے کہ ہندوستان میں مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں کوئی انقلابی تبدیلی آئی ہے اور دنیا کی ہر چیز ہندوستان میں بنائی جارہی ہو۔ اس کے برخلاف اعدادوشمار، سروے، جائزے اور مطالعے کوئی دوسری ہی کہانی سنارہے ہیں۔
[email protected]