فقیری میں بھی نام پیدا کر

0

زین شمسی

تعلیم مخالف سرکار کی نصابی کتابوں میں تبدیلی بہت زیادہ حیران کرنے والی بات نہیں ہے۔ بھارت کو وشوگرو بنانے کے لیے سرکار کی حکمت عملی کاروباری عمل کو مزید پختہ کرنے میں مصروف ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہندوستان کو کاروبار کا کتنا فائدہ مل رہا ہے اور کاروباری گھرانے کو اس کا کتنا فائدہ مل چکا ہے۔ مالامال میڈیا گھرانہ کی عوام کے بنیادی مسائل پر نظر نہیں ہے۔ غریب عوام مذہب کا جھنڈا لے کر خود کی زندگی میں بہتری لانے کی ناکام کوشش میں مگن ہے۔ جو کچھ پڑھے لکھے اور بیدار مغز ہیں وہ کنفیوژن اور مصلحت کی آڑ میں سچ اور جھوٹ کا فیصلہ نہیں کرپارہے ہیں۔ کسی بھی ملک کی بنیاد اس کی تعلیمی سرگرمیوں پر منحصر کرتی ہے۔ جس دیش کے عوام جتنا تعلیم یافتہ ہوں گے، دیش اتنا ہی ترقی کرے گا۔ بھارت کو شاید اس فارمولے پر کبھی بھی اعتبار نہیں رہا۔ اسی لیے تعلیمی بجٹ کو بھکاری کا کٹورا سمجھ کر کچھ سکے بھردیے گئے۔ اب تو یہ حال ہے کہ دیش کو پڑھائی سے نفرت ہوگئی ہے۔ سرکاری تعلیمی نظام اپنے بدترین دور میں ہے۔ سینٹرل یونیورسٹیوں میں زوال کی آمد ہے تو علاقائی اور صوبائی یونیورسٹیاں اب پیسے کمانے کا مرکز بن چکی ہیں۔ طلبا پرائیویٹ تعلیم کی طرف راغب ہوچکے ہیں۔ کوچنگ اور ٹیوشن کا کاروبار زوروں پر ہے۔ ایسے میں سرکاری حکام خوش ہیں کہ ان کی تعلیم مخالف سرگرمیاں اپنا رنگ دکھا رہی ہیں۔
اسکولوں میں مڈڈے میل کا چلن اسکولی نظام کو کھاچکا ہے اور کالجوں میں مختلف طریقے کے فنڈ طلبا کو پڑھائی سے زیادہ اسکیموں کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ کلاسز میں طلبا کی تقریباً غیر موجودگی، امتحانات میں چوری اور کاپیوں میں پیروی نے طلبا کو گھر بیٹھے ہی سرٹیفکیٹ کا انتظام کردیا ہے۔ وہ مقابلہ جاتی امتحان کے لیے نہیں بلکہ سرٹیفکیٹ کے لیے رجسٹرڈ ہورہے ہیں۔ یونیورسٹیاں سرٹیفکیٹ کی دکان ہوچکی ہیں۔ کالجوں میں طلبا صرف سرٹیفکیٹ لینے کے لیے پہنچ رہے ہیں۔ طلبا کا یہ رجحان اس لیے بن پایا کہ سرکاروں نے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی اسامیاں بند کردیں۔ کئی کالجز صرف دو یا تین اسٹاف پر چل رہے ہیں۔ جب اسٹاف ہی نہ ہوں گے تو پھر طلبا کالج کا رُخ کیوں کریں؟ آج جو حالت دیکھنے کو ملتی ہے اس سے حیرانی ہوتی ہے کہ یہی سرکاری اسکول، یہی کالجز ہندوستان میں اعلیٰ تعلیمی معیار کے ضامن ہوا کرتے تھے۔ جب سے پرائیویٹ اسکولوں کا رجحان بڑھا، اعلیٰ طبقہ ہی خود کو تعلیم یافتہ بنا پارہا ہے۔ 90کی دہائی سے پہلے سرکاری اسکول و کالج کے علاوہ کوئی متبادل ہی نہیں تھا۔ ہم پورے تعلیمی نظام کو دیکھیں تو اس بات کا شدید احساس ہوتا ہے کہ کاش ہم آگے نہ بڑھتے، پیچھے ہی کی طرف دوڑتے تو آج صورت حال ایسی نہیں ہوتی۔
نصاب میں تبدیلی کی دلیل یہ ہے کہ طلبا پر زیادہ بوجھ نہ پڑے، مذاق کی تمام سرحدوں کو توڑنے والا ہے۔ این سی ای آر ٹی جو طلبا کے لیے ہی نہیں استادوں کے لیے بھی بنیادی جانکاری کا سب سے بڑا وسیلہ ہوا کرتی تھی۔ آج اس کی صورت ہی بگڑ گئی ہے۔ تاریخ میں نہیں، کیمسٹری، بایولوجی، سماجیات اور کامرس کے بنیادی فارمولے حذف کیے گئے۔ تاریخ کے ساتھ مذاق تو جیسے فرض اولین ہوچکا ہے۔ مغل حکومت کی تمام طرح کی جانکاریاں حذف ہوگئی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آگے والی نسلوں کو یہ کیسے بتایا جائے گا کہ تاج محل، لال قلعہ، ہمایوں کا مقبرہ اور دیگر تاریخی مقامات کی بنیاد کس حکومت میں پڑی۔ اگر وہ حکومت میں نہیں تھے تو اتنی بڑی عمارت بنانے کے لیے اسے کس حکومت نے اجازت دی تھی۔ آخر 700سال کی حکومت کا متبادل کس حکومت کو بنایا جائے گا، لیکن سرکار کو اس سے کوئی مطلب نہیں۔ اسے بھارت کو وشوگرو بنانا ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ سرکار مغل کو بے دخل کررہی ہے اور بھارت میں موجود مغلیہ خاندان اور مغلیہ خاندان سے وابستہ لوگ آج سرکار سے ریزرویشن کا مطالبہ کررہے ہیں کہ انہیں پسماندہ طبقہ میں شامل کیا جائے۔ میرے کچھ لوگوں نے ’’جن گنا‘‘ کا حوالہ دے کر سرکار کو دیے گئے نوٹس کی کاپی بھیجی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’مرزا‘‘ یعنی مغل کو پسماندہ طبقہ میں شامل کیا جائے۔ ایک اور نوٹس جوجالے(بہار) کی مغل قوم نے آر جے ڈی کو لکھا ہے کہ مغل کو اب تک پسماندہ میں شامل کیوں نہیں کیا گیا۔ حیران کن بات تو نہیں ہے بلکہ سبق آموز بات ہے کہ جس طبقہ کا 700سالہ عہد ہندوستان کی حکمرانی کا دلیل رہا ہے، وہ یکایک خود پسماندہ طبقہ میں شمار ہونا چاہتا ہے۔
مغلوں کی وجاہت، وقار اور عظمت کو اس اپیل نے نہ صرف دھومل کیا ہے بلکہ غریبی میں بھی شان سے رہنے والی اسلامی روایت کو بھی توڑ دیا ہے۔ اے کاش! یہ وقت اپنے پیچھے کی طرف دیکھ پاتا۔ اے کاش! یہ قوم ’’جواب شکوہ‘‘ کی تشریح سمجھ پاتی۔ کاش یہ فقیری میں بھی نام پیدا کرسکتی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS