دروپدی مرمو اب ملک کی نئی عزت مآب ہیں۔ پیر کو وہ صدارتی عہدہ کا رسمی حلف لے لیں گی۔ آزادی کے امرت کال میں ان کا انتخاب کئی تاریخی اتفاقات کا سبب بنا ہے۔ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ قبائلی سماج کا کوئی نمائندہ ملک کے آئینی سربراہ کے عہدہ کو عزت بخش رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دروپدی مرمو پہلی ایسی صدر ہیں جو آزاد ہندوستان میں پیدا ہوئی ہیں۔ یہ اتفاق اس وجہ سے بھی بے مثال ہوجاتا ہے کہ اب ملک کے دو سب سے اہم عہدوں-صدر اور وزیراعظم کے عہدے پر سرفراز شخصیات آزاد ہندوستان میں پیدا ہوئی ہیں۔
سال 2014میں جب نریندر مودی نے وزیراعظم کے عہدہ کا حلف لیا تھا، تو ان کے تعلق سے تمام چرچاؤں کے دوران اس بات کو بھی اہمیت حاصل ہوئی تھی کہ وہ پہلے ایسے وزیراعظم ہیں جنہوں نے آزاد ہندوستان میں اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔ آج جب دروپدی مرمو نئی تاریخ لکھ رہی ہیں تب وزیراعظم نریندرمودی ایک الگ وجہ سے چرچہ میں ہیں۔ دراصل، مرمو کی جیت کو بی جے پی بالخصوص پی ایم مودی کے ماسٹر اسٹروک کی شکل میں دیکھا جارہا ہے۔
رائے سینا کی ریس کو شروع سے ہی لوک سبھا الیکشن-2024کے سیمی فائنل اور اپوزیشن اتحاد کا ٹسٹ سمجھا جارہا تھا۔ کوئی اور نہیں، اپوزیشن خود ہی اپنے اتحاد کی دہائی بھی دے رہا تھا۔ لیکن جب نتیجے آئے تو اس دہائی کی زبردست دھلائی ہوگئی۔ این ڈی اے امیدوار کے طور پر مرمو کو 64فیصد ووٹ ملے، جو اپوزیشن میں اچھے خاصے نقب کا اشارہ کرتا ہے۔ دعویٰ ہے کہ مرمو کے حق میں 13ریاستوں کے 119ایم ایل ایز نے کراس ووٹنگ کی۔ آسام،گجرات، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، راجستھان جیسی ریاستوں میں ضمیر کی آواز اعلیٰ کمان کے فرمان پر بھاری پڑگئی۔یہ وہ تمام ریاستیں ہیں جہاں پر کانگریس اقتدار یا اپوزیشن میں ہے۔ اس کے علاوہ 17ممبران پارلیمنٹ نے بھی صدارتی الیکشن میں کراس ووٹنگ کی ہے۔
اتنا ہی نہیں، صدر جمہوریہ کے عہدہ کے لیے قبائلی کارڈ مودی کا ایسا ماسٹر اسٹروک رہا جس کی کاٹ نہ تو وہ پارٹیاں تلاش کرپائیں جن کا اپنی ریاستوں میں بی جے پی سے راست مقابلہ ہے، نہ ہی غیراین ڈی اے اور غیریوپی اے پارٹیاں اس کی مخالفت کرپائیں۔ وائی ایس آر کانگریس، بیجو جنتا دل، شرومنی اکالی دل، بی ایس پی، شیوسینا، جھارکھنڈ مکتی مورچہ وغیرہ۔ یہ فہرست صرف اپنی لمبائی سے حیران نہیں کرتی، بلکہ اس حقیقت کی وجہ سے بھی حیرت زدہ کرتی ہے کہ نظریات کے سروں پر کھڑی ان پارٹیوں نے پہلے کبھی یکساں ہدف کے لیے اس طرح کے اتحاد کا مظاہرہ نہیں کیا۔ صدارتی الیکشن اگر لوک سبھا الیکشن 2024کا سیمی فائنل ہے تو کیا ان پارٹیوں کا این ڈی اے کے قریب آنا اسی سے وابستہ ’بہانہ‘ ہے؟
اس ماسٹر اسٹروک کے ذریعہ وزیراعظم مودی ممتابنرجی کو بھی زبردست پٹخنی دینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اپوزیشن کا امیدوار ممتا کی پارٹی ٹی ایم سی نے ہی طے کیا تھا، لیکن مرمو کا نام آگے کرکے وزیراعظم مودی نے ممتا کے لیے ’نہ اگلنے، نہ نگلنے‘ والے حالات بنادیے۔ بنگال میں قبائلی سماج کی بڑی تعداد کی موجودگی کے دباؤ میں ممتا نہ مرمو کی مخالفت کرپائیں، نہ ہی اپنے پرانے راجیہ سبھا ممبران پارلیمنٹ یشونت سنہا کی کھل کر حمایت کرپائیں۔ حالت یہ ہوئی کہ پورے ملک میں گھوم گھوم کر اپنے حق میں ووٹ مانگنے والے یشونت سنہا کو تشہیری مہم کے لیے مغربی بنگال کی زمین ہی نہیں مل پائی۔
اب لوک سبھا کی لڑائی ایسے دہانے پر آکھڑی ہوئی ہے جہاں ایک طرف اپوزیشن ہے جو یشونت سنہا کی امیدواری کے ذریعہ کوئی سیاسی پیغام دینے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے، تو دوسری طرف بی جے پی ہے جو صدارتی الیکشن کو ہی ایک طرح سے لوک سبھا کی لڑائی کا لانچ پیڈ بنادیتی ہے۔ اس کا ایک نمونہ ہم گزشتہ الیکشن میں دیکھ بھی چکے ہیں۔ بی جے پی نے گزشتہ صدارتی الیکشن دلت طبقہ کی کولی برادری سے تعلق رکھنے والے رام ناتھ کووند کے نام پر لڑا تھا۔ تب صدارتی الیکشن میں بڑی جیت کے ساتھ ہی لوک سبھا الیکشن میں درج فہرست ذات کی سیٹوں پر بھی بی جے پی کا ووٹ فیصدبڑھا تھا۔ اس مرتبہ صدر کا چہرہ قبائلی ہے اور وہ خاتون بھی ہیں۔ قبائلی ریزرو سیٹوں کے ساتھ یہ داؤ پہلے سے بی جے پی کی ووٹر بن چکی خواتین کے بیچ پارٹی کی بنیاد مضبوط کرے گا۔
ویسے بھی حال کے کچھ برسوں میں بی جے پی نے دو اہم قبائلی ریاستیں گنوائی ہیں- چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ۔ اگلے سال چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں اسمبلی الیکشن ہونے ہیں، جہاں قبائلی آبادی بھی کافی ہے۔ ظاہر ہے، بی جے پی کو امید ہے کہ وہ قبائلی ووٹ پھر سے حاصل کرے گی، جو اس نے جھارکھنڈ مکتی مورچہ اور کانگریس جیسی پارٹیوں کے ہاتھ گنوا دیا تھا۔ قبائلی ووٹوں کے نظریہ سے اہم ایک دیگر ریاست اڈیشہ ہے، جہاں نوین پٹنائک کے بعد کے منظرنامہ پر بھی بی جے پی کی نظر ہوگی۔ قبائلی سیٹوں کے لحاظ سے گجرات، مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسی ریاستیں بھی اہم ہیں۔ گجرات اور مدھیہ پردیش میں بیشک بی جے پی کی حکومتیں ہیں لیکن وہاں بھی اقتدار بچانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے قبائلی سیٹوں پر جیت ضروری ہوگی۔ وزیراعظم مودی کی دونوں مدت کار میں شمال-مشرق نے بھی حکومت بنانے میں اہم تعاون دیا ہے اور شمال مشرقی ریاستوں کی پہچان ہی یہاں کی قبائلی ثقافت ہے۔ مرمو پر داؤ لگانے کے پیچھے یقینی طور پر شمال-مشرق کی ریاستوں میں پکڑ مضبوط کرنا بھی ایک وجہ رہی ہوگی۔
نئے صدر کی جیت پر بی جے پی کا جشن منانا بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا کہ غیرسیاسی سمجھے جانے والے صدارتی عہدہ پر کسی شخص کی جیت کے تعلق سے کوئی سیاسی پارٹی اس طرح اسے اپنی کامیابی کی طرح اظہار کرے۔ ظاہری طور پر اس کے پیچھے کا پیغام سیاسی اور مقصد سیاسی اجتماع ہی ہے۔ لوک سبھا الیکشن کے لیے اس بار بی جے پی نے 400+کا ہدف طے کیا ہے۔ سرسری طور پر یہ ہدف ناممکن نہیں تو چیلنج سے بھرا تو ہوگا ہی۔ ملک میں اب تک کسی ایک سیاسی پارٹی کا 400سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا کارنامہ صرف ایک بار ہی ہوا ہے جب سابق وزیراعظم اندراگاندھی کے قتل کے بعد1984میں ہوئے الیکشن میں کانگریس نے ہمدردی کی لہر پر سوار ہوکر 415سیٹیں جیتی تھیں۔ لیکن بی جے پی کو لگتا ہے کہ اگر اس کی تمام اندازے درست ٹھہرے تو وہ کارنامہ بغیر کسی ہمدردی کی لہر کے بھی دہرایا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی ہندوستان میں ایک قبائلی خاتون کے جمہوریہ کا سربراہ بننے کی سیاسی اہمیت کو کم کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ لیکن مرمو کی جیت قبائلی ووٹ بینک میں بی جے پی کی پکڑ بنانے کی گارنٹی ہے، اس پر فی الحال کچھ بھی کہنا جلدبازی ہوسکتی ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ قبائلی داؤ چل کر بی جے پی نے ملک کی سیاسی بحث میں اخلاقی طور پر ایک نمایاں فوقیت ضرور حاصل کرلی ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
مودی کے ماسٹر اسٹروک کی مہیما
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS