مادرامت حضرت خدیجۃ الکبریؓ

0

سید قمر عباس قنبر نقوی

حضرت خدیجۃ الکبریٰ اس عظیم الشان اور مایہ ناز خاتون کا نام ہے جس نے امت محمدی میں سب سے پہلے دین و ایمان کا اظہار کیا۔ ملیکۃ العرب حضرت خدیجۃ الکبریٰ بنت خویلدؓ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپ کائنات کی سب سے بلند شخصیت خاتم النبیین ، مرسلِ اعظم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ و علیہ و آل وسلم کی پہلی شریک حیات یعنی اسلام کی خاتونِ اول اور کائنات کی سب سے عظیم بیٹی سیدہ فاطمہ زہراؓ کی ماں ہیں۔ حضرت خدیجہؓ وہ عظیم خاتون ہیں جنھوں نے پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانی زندگی میں نہیں بلکہ پیغمبرانہ زندگی میں ہاتھ بٹایا ہے یعنی آپ صرف شریک حیات ہی نہیں شریک مقصد بھی ہیں۔ آپ ہی کا وجودِ مقدس پیغمبر اسلامؐ کے لیے ایک ایسی نسل کا وسیلہ بنا جو ہمیشہ اپنے خون سے گلشنِ اسلام کی آبیاری کرتی رہے گی۔ بی بی خدیجہؓ کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ پیغمبرِ اسلامؐ نے آپ کے عزت و احترام اکرام اور محبت و تعظیم کے باعث بی بی کی حیات مبارکہ میں دوسرا عقد نہیں کیا۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ عرب کی سید التجار بھی تھیں اور ایسی تاجر تھیں کہ جن کی منظوری سے ہی پورے سال کے اصولِ تجارت طے ہوتے اور اشیاکے قیمتیں معین ہوتی تھیں۔ مگر اللہ رے ایثار خدیجہؓ ، انفاقِ خدیجہؓ کہ زوجیتِ رسول اکرمؐ میں آتے ہی اپنا تمام مال و دولت حضورؐ کے قدموں پر نچھاور کر دیا اور فرمایا اے اللہ کے رسولؐ میں آپ کی کنیز ہوں یہ سارا مال آپؐ کا ہے یہ گھر آپؐ کا ہے۔ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکرؓکا بیان ہے کہ جب حضورؐ کی خدمت میں بی بی خدیجہؓ کا مال پیش کیا گیا تو اْس مال سے ایک ایسی دیوار بن گئی ہے کہ اْس طرف کا ادھر نہیں دیکھ سکتا تھا اور اِدھر کا اْس طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ یہ سارا مال بی بی خدیجہؓ نے حضورؐ کی خدمت میں یہ کہتے ہوئے پیش کیا کردیا تھا کہ یہ سارا مال آپؐ کا ہے۔ آپؐ جس طرح چاہیں اس کو خرچ کریں چنانچہ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ دینِ اسلام کے ابتدائی دور میں تبلیغِ دین پر سارا مال زوجہ مرسلِ اعظم والدہ خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمہ زہراؓ حضرت خدیجۃ الکبریٰ کا ہی صرف ہوا ہے۔ پروردگار نے بھی اپنے محبوب نبیؐ کو غنی بنانے اور مالی مشکلات دور کرنے کے لیے بی بی خدیجۃ الکبریٰ کی بابرکت دولت کو وسیلہ بنایا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ترجمہ:اور تم کو تنگ دست پاکر غنی نہیں بنایا۔ (قرآن مجید، سورہ مبارکہ93 الضحیٰ ، آیت 8 ) ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ وفاتِ حضرتِ خدیجہؓ کے بعد اللہ کے رسولؐ تمام عمر اپنی پہلی شریک حیات خدیجہؓ کی رفاقت کو یاد کرتے رہے جب بھی گوسفند ذبح کرتے خدیجہؓ کی سہلیوں کو ضرور بھیجواتے ، آپؐ جب بھی باہر جاتے یا باہر سے واپس آتے تو خدیجہؓ کو یاد کرتے ان کی تعریفیں کرتے۔ ایک دن اللہ کے رسولؐ خدیجہؓ کو یاد کر رہے تھے تو میں نے کہا آپ کب تک بوڑھی خدیجہؓ کو یاد کریں گے۔ اللہ نے آپؐ کو ان سے اچھا ہمسر عطا کردیا۔ پیغمبر اکرمؐ غضب ناک ہوگئے اور عظمتِ ملیکتہ العرب حضرت خدیجۃ الکبریٰ ظاہر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کون ہے جو خدیجہؓ کے برابر ہو سکتا ہے۔ خدیجہؓ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں جب سب مجھے جھٹلارہے تھے ، خدیجہؓ نے اْس وقت میری تصدق کی جب لوگ میری تکزیب کر رہے تھے۔ خدیجہؓ نے اْس وقت اپنے مال سے میری مدد کی جب مجھے غربت کا سامنا تھا۔ جب کفار و مشرکین مجھے ابتر کے تانے دے رہے تھے تو پروردگار نے خدیجہؓ کے توسل سے مجھے فاطمہ الزھراؓ جیسی با عظمت بیٹی عطاکی یعنی نسل بھی خدیجہؓ کے ذریعے عطا کی۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی یہ عظمتیں وہ رسولؐ ارشاد فرما رہیں تھے جن کے بیان کی ضمانت خود پرور دگار یوں لے رہا ہے کہ ہمارا رسولؐ اپنی مرضی سے کوئی بات نہیں کرتا۔ یہ وہی کرتا اور کہتا ہے جو وحی کی صورت میں اِن پر نازل ہوتا ہے۔ اب ہم سب غور کریں کہ عظمتِ خدیجۃ الکبریٰ کا اعلان کیا منشا پروردگار کے بغیر ممکن تھا قطعاً نہیں بلکہ یہ پروردگار کی طرف سے یہ امر حکم تھا کہ رسولؐ آپ خدیجۃ الکبریٰ کو یاد کرتے رہیں۔بعثت کے دسویں سال ماہ مبارکہ رمضان کی 10 تاریخ کو مرسل اعظم کی یہ پْر وقار ، صالح، طاہرہ، مجاہدہ اور غمگسارِ نبوت نبوت زوجہ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں رسول اکرمؐ بہت رنجیدہ ہوئے ، آپؐ ہی نے بی بی خدیجہؓ کو قبر میں اتارا، قبر کو خود تیار کیا۔ اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ مرسلِ اعظمؐ آپ کے غم میں ہمیشہ روتے اور آپ کی رفاقت سے متاثر ہوکر آپ کی وفات کے سال کو ’ عام الحزن‘ قرار دیا کیونکہ اسی سال آپ کے عظیم محسن اور ہمدرد چچا حضرت ابو طالبؓ بھی اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ آیے ہم سب دعا کریں کہ پرور دگار ہم سب کو خدمتِ دین اور اطاعتِ پیغمبر اکرمؐ کیلئے حضرت خدیجہؓ کی راہ پر چلنے کی تو فیق عطا کرے۔ آمین یا رب العالمین۔ qlq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS