ایم اے کنول جعفری
چین اور امریکہ ندی کے دو کناروں کی مانند ہیں۔ طاقت میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی جستجو میں دونوں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ کبھی امریکہ اپنا بحری بیڑہ سمندر کی سطح پر اُتارتا ہے ،تو کبھی چین اسی طرح کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اِس وقت چین اور ہندوستان کے تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ چین نہ صرف ہماری زمین پر ناجائز طریقے سے قبضہ کر رہا ہے،بلکہ میزائل ٹیسٹ پروگرام میں بھی رخنہ ڈال رہا ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ بھارت نے اُڈیشہ کے ساحل میں واقع ایک جزیرے سے بین البراعظمی میزائل تجربہ کرنے کے لیے 10-11نومبر کو نو فلائی زون کا نوٹس دیا تھا۔اس کے باوجود چین نے بحر ہند میں اپنا تحقیقی جہاز’یوان وانگ6-‘ بھیج دیا تھا۔ جہاز کی آمد کے بعد بھارت نے تجربہ مؤخر کرتے ہوئے23-24 نومبر کو میزائل ٹیسٹ کے لیے دوبارہ نو فلائی زون کا نوٹس جاری کیا۔اس کا دائرہ 2250کلومیٹر تک خلیج بنگال میں اُڈیشہ کے سمندر میں واقع میزائل تجربہ گاہ مرکز سے لے کر سری لنکا کے سمندر میں نیچے تک کے خطے تک پھیلا ہوا ہے۔ چین کے ذریعہ پھر سے اپنا تحقیقی جہاز بحر ہند میں اُتار دیا گیا۔مانا جا رہا ہے کہ اس جہاز کو جاسوسی کے لیے بھیجا گیا ہے،لیکن چین نے اس کی تردید کرتے ہوئے اسے معمول کی پورٹ کال بتایا۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ چین سپرپاور امریکہ سے آگے نکلنے کے لیے تو لگاتا ر کوششیں کر ہی رہا ہے، اُن ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بھی بڑھا رہا ہے ، جو امریکہ کے قریبی رہے ہیں۔ اسی ترتیب میں چینی صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب کا تین ر وزہ دورہ کیا۔ شی جن پنگ نے دورے کو بے حد کامیاب بتاتے ہوئے اُمید ظاہر کی کہ سعودی عرب کے دورے سے دیگر عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ دورے کے آغاز پر چین کو خلیجی تعاون کونسل کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار قرار دینا بھی اس بات کی علامت ہے کہ چین عرب دنیا کے ساتھ تعلقات کی نئی عبارت لکھنے کا خواہاں ہے۔
سچ یہ بھی ہے کہ موجودہ حالات،ضرورت اور سیاسی داؤپیچ کی بنا پر دوست ممالک کے درمیان دوستی دائمی نہیں رہتی۔ مستقبل میںدوستی کی گرفت کب ڈھیلی پڑ جائے، اس بابت یقین کے ساتھ کچھ بھی کہنا بڑا مشکل ہے۔ جاپان کو ہی دیکھئے۔ کل تک جاپان امریکہ پر بھروسہ کرتا تھا، لیکن اَب اُس نے چین سے مقابلے کے مدنظر لڑاکو جیٹ بنانے کے لیے اپنے دیرینہ معین و مددگار امریکہ کو درکنار کرتے ہوئے برطانیہ اور اٹلی کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے۔ جاپان کا یہ قدم چین کے لیے تو ایک بڑا جھٹکا ہے ہی،امریکہ کے لیے بھی نیک فال نہیں ہے۔جاپان اپنی حفاظت اور چین وشمالی کوریا سے بڑھتے خطروں کا مقابلہ کرنے کے لیے طاقت بڑھا رہا ہے۔اس معاہدے کے ذریعہ جاپان نے اپنے دوست اور اتحادی امریکہ کو بھی بڑا پیغام دیا ہے۔1945میں دوسری جنگ عظیم میں اپنی شکست کے بعد جاپان نے پہلی مرتبہ امریکہ کو چھوڑتے ہوئے اپنا بڑا دفاعی منصوبہ آگے بڑھایا ہے۔ جاپان نے اس کے لیے پہلے امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کا انتخاب کیا تھا،لیکن بعد میں اس نے برطانیہ اور اٹلی کے ساتھ معاہدہ کرنے کو ترجیح دی۔ یہ معاہدہ اس وقت ہوا ہے،جب روس اور یوکرین کے مابین جنگ جاری ہے اور چین نے تائیوان اور جاپان کے خلاف فوجی کارروائیاں تیز کردی ہیں۔ چین کے تئیں نیوزی لینڈ کا نظریہ بھی مثبت نہیں ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈہ آرڈرن کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ علاقے میں چین کا رویہ پہلے کے مقابلے زیادہ جارحانہ ہوا ہے۔ بحرالکاہل علاقے میں چینی جارحیت نے بحرالکاہل کے بعض ممالک کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
شی جن پنگ کے سعودی عرب کے دورے کے اختتام پر جاری مشترکہ اعلامیہ میں تیل کی ایک مستحکم عالمی مارکیٹ کی اہمیت پر زور دیا گیا۔روس یوکرین تنازع اور ایران کے جوہری پروگرام کے پُرامن حل، ایران کے ذریعہ پڑوسی ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز،یمن اور شام کے پرامن حل کی کوششوں کی تائید، لبنان کے بحران کا حل، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق، دو طرفہ سرمایہ کاری منصوبوں، توانائی اور تجارت کے امور پر اعلیٰ سطح کی دو طرفہ کمیٹی قائم کرنے پر زور دیا گیا۔ چین نے تیل کی مستحکم اور متوازن عالمی منڈی کے لیے مملکت کے کردار اور حمایت کا خیرمقدم کرتے ہوئے خام تیل کی بڑی اور قابل بھروسہ برآمد کنندہ مملکت کے طور پر سعودی عرب کو سراہا۔ دونوں ممالک کے درمیان مستقبل میں تعلقات کو غیر معمولی اہمیت دینے، جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے لیے باہمی تعاون میں اضافہ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ دونوں ممالک گرین انرجی، گرین ہائیڈروجن، فوٹو وولٹائک انرجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کلوڈسروسز کے شعبوں میں تعاون کے لیے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔ فریقین نے12معاہدات اور مفاہمتی یادداشتوں پر ہائیڈروجن انرجی، عدالتی شعبے، چینی زبان کی تعلیم، ہاؤسنگ، ڈائریکٹ انویسٹمنٹ، ریڈیو، ٹی وی، ڈیجیٹل اکانومی، معاشی ترقی، اسٹینڈرائزیشن، خبری کوریج، ٹیکس ایڈمنسٹریشن اور اینٹی کرپشن سے متعلق موضوعات پر دستخط کیے۔ اس کے علاوہ سرکاری اور نجی شعبوں میں نو معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔دونوں ملکوں کی نجی کمپنیوں نے25معاہدوں پر دستخط کیے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں مداخلت پر مبنی اقدامات کی مخالفت کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ اس سلسلے میں سعودی عرب میں شہری اور شہری تنصیبات کو نشانہ بنا کر کیے جانے والے اور مملکت کے مفادات پر کیے جانے والے حملوں کی مخالفت کا عندیہ دیا گیا۔ پیٹرو کیمیکلز کے شعبے کے علاوہ بجلی،پی وی انرجی ونڈ انرجی سمیت قابل تجدید توانائی کے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کے لیے ہم آہنگی ظاہر کی گئی۔ دونوں ممالک نے ہائیڈروجن سے متعلق وسائل کے استعمال، توانائی کی مستعد،توانائی کی مقامی سطح پر پیداوار کے اجزا اور فراہمی توانائی کے لیے اقدامات پر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ اس کے علاوہ مال کے نقل و حمل کے لیے دوطرفہ تعاون بڑھانے، فضائی و بحری روابط کو فعال بنانے، شہریوں کو جدید سفری سہولتیں دینے کے لیے بشمول ریلوے سفری ذرائع کو مثبت انداز میں دیکھا گیا۔اتنا ہی نہیں سعودی عرب نے چین کے تاجروں کو مملکت میں اپنا علاقائی ہیڈ کوارٹر قائم کرنے کی دعوت دی اور تیل کے علاوہ دیگر شعبوں کی تجارت کو بڑھانے پر بھی زور دیا۔سعودی عرب اور چین کے درمیان آٹوموٹوانڈسٹری اور مشینوں کی سپلائی کے تسلسل،نقل و حمل سمیت انفرااسٹرکچر اور مینو فیکچرنگ کے امور میں بھی تعاون پر اتفاق کیا گیا۔ دونوں ممالک کے درمیان ہوئے معاہدوں کے تحت امید ظاہر کی گئی کہ چین و عرب کے درمیان تعلقات نہ صرف بہتر ہوں گے،بلکہ مستحکم بھی رہیں گے۔ دونوں ملکوں کی نزدیکی سے امریکہ میں گہری تشویش کا پایا جانا وقت کا تقاضہ اور لازمی امر کا جز ہے۔
دوسری جانب سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چین کے ساتھ معاہدوں کا مطلب امریکہ کے ساتھ عدم تعاون نہیں ہے۔ تعاون مضبوط بنانے والے ان معاہدں سے بہت سے چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کی پہلی سب سے بڑی معیشت امریکہ کے ساتھ تعاون ختم ہوگیا۔سعودی عرب کے دونوں بڑی معیشتوں کے ساتھ مشترکہ مفادات ہیں اور وہ ان کے حصول کے لیے کام جاری رکھے گا۔ہم نے چین اور جی سی سی ممالک کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے تک پہنچنے کے لیے تبادلہ خیال کیا۔چین کے ساتھ مواصلات دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ مستقل رابطے کی توسیع ہے۔انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ سعودی عرب سب کے لیے کھلا ہے اور ہم کثیرالجہت تعاون پر یقین رکھتے ہیں۔چین کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کسی بھی ہتھیاروں کے مسئلے سے زیادہ گہرے ہیں۔ سعودی عرب کی امریکہ، بھارت، چین، جاپان اور جرمنی وغیرہ کے ساتھ تزویراتی شراکت داری ہے۔ ہم اپنی پالیسیاں اپنے مفادات کے مطابق بناتے رہیں گے۔سعودی عرب سیاسی میدان میں ایک اہم کھلاڑی ہے اور دنیا میں اس کا اہم کردار ہے۔معاشی ترقی ہماری خارجہ پالیسیوں کا ذریعہ ہے۔ چین عرب تعاون فورم آج کا نہیں،بلکہ2004کا ہے۔خلیجی خطے کی سلامتی اور استحکام دنیا کی سلامتی اور استحکام کے لیے اہم ہے۔اس موقع پر دعویٰ کیا گیا کہ خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کی سلامتی اٹوٹ حصہ ہے۔اسے ٹکڑوں میں نہیں بانٹا جاسکتا۔ فریقین تزویراتی شراکت کے لیے کام کریں گے اور مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔قائدین نے ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے اس کی فنڈنگ کے ذرائع کو ختم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے حصول کو اولین ترجیح میںشامل بتاتے ہوئے ایٹمی اسلحہ کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے اور خلیج کے علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے کے پھیلاؤ کو روکنے اور ایران کے ایٹمی پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنے تک محدود کرنے پر زور دیا گیا۔
امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تیل کے تحفظ پر مبنی کم و بیش سات دہائیوں پرانے تعلقات حالیہ دنوں میں یوکرین میں جنگ اور خام تیل کی سپلائی کو لے کر انتہائی کشیدہ ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن اس بابت سعودی عرب کو تیل میں کٹوتی کے نتائج بھگتنے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔اس کے باوجود تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک پلس نے سپلائی میں کٹوتی کرنے کے فیصلے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ سپلائی کم ہونے کی وجہ سے عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں،جس کا اثر مغربی ممالک پر پڑ رہا ہے۔ سعودی عرب کی حکمت عملی ہے کہ وہ تیل پر منحصر رہنے کے بجائے امریکہ سے آگے دیکھے۔ یہ عرب ممالک میں امریکہ پر اعتماد کے فقدان کی جانب اشارہ ہے۔اُدھر سعودی عرب نے گزشتہ ماہ سب سے زیادہ خام تیل چین کو مہیا کرایا۔چین سعودی عرب پرتجارت کے لیے ادا ئیگی کی کرنسی ڈالر کے بجائے چینی کرنسی یوآن میں ہونے پر زور دے رہا ہے۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ذریعہ چین کے ساتھ فوجی سازوسامان کے معاہدے کے علاوہ سعودی عرب نے چینی کمپنی سے مسلح ڈرون بنانے کا معاہدہ بھی کیا ہے۔سعودی عرب جہاں نئی سوچ اور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے،وہیں چین عرب کے ساتھ نئی عبارت لکھنے کا خواہاں دکھائی دیتا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]