اللہ اور رسولؐ سے محبت اہل ایمان کاخاص وطیرہ

0

ڈاکٹرحافظ کرناٹکی

اللہ اور اللہ کے رسول سے محبت ایمان والوں کی زندگی کا خاص وطیرہ ہے۔ سچ پوچھئے تو ہماری تمام تر محبت اور عشق کا منبع اللہ اور اس کے رسولؐ ہی ہیں۔ کیوں کہ یہی فطرت کا تقاضہ اور ایمان کی اساس ہے۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ انسان فطری طور پر کس چیز سے محبت کرتا ہے؟ یا یہ کہ انسان کو عشق کن وجوہات کی بناپر کسی سے ہوتا ہے؟ جواب سادہ آسان اور بالکل فطری ہے۔ انسان فطرتاً خیر سے محبت کرتا ہے۔ حسن سے عشق کرتا ہے، یہ خیر یہ اچھائی، یہ نیکی جس انسان میں بھی ہو اس سے انسان کو محبت ہو جاتی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ تو گویا دنیا کے سارے حسن، خیر،نیکی، اچھائی کا منبع و مرکز خدا کی ذات ہے۔ لہٰذا انسان کو ہر حال میں اللہ ہی سے عشق ہونا چاہیے۔ کیوں کہ عشق اللہ ہی کا حق ہے۔ اب یہاں پر ایک منٹ رکیے اور غور فرمائیے کہ انسان کو اپنے بیٹے یا بیٹی سے محبت ہوتی ہے تو لامحالہ اس کو اپنے بیٹے اور بیٹی کے بچوں سے بھی محبت ہوتی ہے۔ چوں کہ اللہ کل کائنات کا خالق ہے اور دنیا کی ہر مخلوق مثل اس کی آل اولاد کی طرح ہے تو پھر جس انسان کو اللہ سے محبت ہوگی اسے اللہ کی ساری مخلوقات سے محبت ہوگی۔ اور بالخصوص اس سے توہر حال میں محبت ہوگی جسے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنا محبوب بنائے گا۔ اور ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے پیارے رسولؐ حضرت محمدؐ اللہ کے محبوب بندے اور رسول ہیں تو پھر تو ہمیں ہر حال میں اپنے رسول پاکؐ سے سب سے زیادہ محبت ہوگی اور ہونی ہی چاہیے۔ کیوں کہ جب تک ہم اپنے رسولؐ سے اپنی آل اولاد، ماں باپ اور اپنی جان سے زیادہ محبت نہیں کریں گے تب تک ہمارا ایمان کامل نہیں ہوگا۔
اللہ کے رسولؐ سے اہل ایمان کو جو محبت ہوتی ہے وہ دراصل اللہ سے محبت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ انسان کو اپنے پوتوں پوتیوں اور نواسوں نواسیوں سے محبت اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح مومن اپنے مالک حقیقی سے جو بے اندازہ محبت کرتا ہے اسی کے سبب سے وہ اللہ کے مبعوث کردہ اس کے محبوب بندے اور رسول حضرت محمد ؐ سے بھی محبت کرتا ہے۔ہر مومن کا یہ پکاعقیدہ ہے کہ حقیقی محبت صرف ذات باری تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔ باقی جتنی محبتیں ہیں وہ اس ذات واحد کی تابع ہیں۔ ذات باری تعالیٰ کے علاوہ جن اشخاص و اعمال واقوال سے محبت کی جائے وہ محبت فی الواقع محبت الٰہی کے تابع ہونی چاہیے۔ بلکہ ہر وہ چیز جو اللہ سے منسوب ہے ان سے محبت صرف اور صرف اللہ ہی کے لیے کرنی چاہیے۔ ابن تیمیہؒ کا قول ہے کہ؛ اہل ایمان جس قدر اللہ سے محبت رکھتے ہیں اتنی کامل اور عظیم محبت کوئی کسی مخلوق سے نہیں کرتا اور نہ ہی اللہ کے علاوہ کائنات میں کوئی ایسا ہے کہ ہر اعتبار سے اس کی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے اس سے محبت کی جائے۔ اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم سے محبت اللہ ہی کے لیے کی جائے گی بلکہ کی جاتی ہے۔ اللہ ہی کے لیے حضورؐ کی اطاعت کی جاتی ہے۔ اور اللہ ہی کی رضا کے لیے ان کی پیروی کی جاتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے کہ؛’’کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو (اس کالازمی نتیجہ ہے کہ) میری اتباع کرو، اللہ بھی تم سے محبت کرے گا۔‘‘ (آل عمران )
اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ؛’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں جن نعمتوں سے نوازا ہے اس کے بدلے اس سے محبت کرو اور اللہ سے محبت کی خاطر مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔‘‘
چوں کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم سے محبت کرتا ہے اسی لیے اس نے آپؐ کو سارے جہان کے لوگوں کے لیے انتخاب فرمایا اور رحمت للعالمین بنایا لہٰذا اللہ سے محبت کا تقاضہ ہے کہ آپؐ سے بھی دل و جان سے بڑھ کر محبت کی جائے۔ ایسی محبت جو اطاعت اور فرماں برداری سے متصف ہو۔فرمان الٰہی ہے کہ؛’’بے شک جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کے لیے رحمان محبت پیدا کردے گا۔‘‘ (مریم ۹۶)
اور یہاںیہ بات بالکل واضح ہے کہ اللہ پر رسولؐ سے زیادہ اعلیٰ، ارفع اور بہترین ایمان لانے والا کوئی دوسرا شخص نہیں ہوسکتا ہے اس لیے آپؐ کی محبت بھی ہر اہل ایمان کے دل میں لازمی طور پر سب سے زیادہ ہوگی۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جن و انس اور شجر و حجر میں سے جس قدر دل آپؐ کی محبت میں تڑپے ہیں اور تڑپ رہے ہیں اور قیام قیامت تک تڑپتے رہیں گے اس کی کوئی دوسری مثال پیش نہیں کی جاسکتی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ؛’’جب اللہ تعالیٰ کسی سے محبت کرتا ہے توحضرت جبرئیل کو پکارتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو نتیجتاً حضرت جبرئیل علیہ السلام اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور آسمان کے فرشتوں میں یہ صدالگاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے۔ لہٰذا تم سب بھی اس سے محبت کرو تو آسمان کے فرشتے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، اس کے لئے اہل زمین میں اس کے لیے قبولیت عام کردی جاتی ہے۔‘‘
یہ بات ہم جانتے ہیں بلکہ اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کو رسالت و نبوّت کے لیے منتخب فرمایاہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ آپؐ سے بے اندازہ محبت کرتا ہے۔ اور چوں کہ اللہ آپؐ سے بے اندازہ محبت کرتا ہے تو ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے کہ ہم بھی سب سے زیادہ محبت آپؐ سے کریں۔ فرمان الٰہی ہے کہ؛
’’فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے پیغام پہونچانے والوں کو اللہ تعالیٰ منتخب کرلیتا ہے بے شک اللہ تعالیٰ سننے والا اور دیکھنے والاہے۔‘‘ (الحج)
یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کا انتخاب صرف سلسلہ نبوّت کے لیے نہیں کیا ہے بلکہ آپؐ کا انتخاب سلسلہ نبوت کی تکمیل کے لیے بھی کیا ہے یعنی آپؐ پر رسالت سمادی کا اختتام فرمادیاہے۔ حضورؐکا ارشاد گرامی ہے کہ؛’’میری اور مجھ سے قبل کے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی نے ایک گھر تعمیر کیا اور بہت ہی اچھااور خوب صورت گھر تعمیر کیا بہ جزا ایک اینٹ کی جگہ کے جو کسی گوشے میں باقی رہ گئی لوگ اس گھر کا معائینہ کرنے لگے۔ اسے پسند کرنے لگے اور اس سے خوش ہونے لگے کہ ایسا خوب صورت گھر، مگر یہ ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ آپؐ نے فرمایا میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔‘‘ہم جانتے ہیں کہ محبت ایسا جذبہ ہے جو سارے جذبوں پر حاوی ہوجاتا ہے۔ بغیر محبت کے دنیا میں انسان کسی بھی کام کے کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس سے جتنی سچی اور سخت محبت ہوتی ہے ہم اسے اتنا ہی زیادہ قیمتی تحفہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کی محبت میں اپنی جان لٹادینابھی بہت آسان کام سمجھتے ہیں۔ یہی وہ جذبہ محبت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس جیسی لافانی کتاب آپؐ پر نازل فرمائی۔ جس کا صاف اور واضح مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ آپؐ سے بہت محبت کرتا ہے۔ ایک حدیث ہے کہ؛’’ایک بار حضرت جبرئیل علیہ السلام نبیؐ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اپنے اوپر ایک تیز آواز سنی تو اپنے سر کو اوپر کیا اور فرمایا یہ آواز آسمان کے اس دروازے کے کھلنے کی آواز ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا اور اس دروازے سے ایک ایسا فرشتہ نازل ہوا ہے جو آج سے پہلے کبھی نازل نہیں ہوا۔ اس فرشتے نے آپؐ کو سلام کیا اور کہنے لگا کہ خوش خبری ہو آپؐ کو دوایسے نور کی جو آپؐ کو دیے گئے ہیں اور آپؐ سے پہلے کسی اور نبی کو نہیں دیے گئے یعنی سورہ الفاتحہ اور سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں۔ آپؐ جو حرف اور جملے اس سے تلاوت کریں گے تو آپؐ کو وہ چیز دی جائے گی جس کا مطالبہ اس جملے میں ہوگا۔‘‘
ایک اور حدیث مبارک ہے کہ؛’’تورات کی جگہ مجھے سبع طوال(یعنی سات بڑی سورتیں)دی گئیں زبور کی جگہ مجھے مئین(وہ سورتیں جن کی آیات سویااس سے اوپر ہیں) دی گئیں اور انجیل کی جگہ مثانی(یعنی وہ سورتیں جن کی آیات سوسے کم ہیں یا اس کے لگ بھگ ہیں)دی گئیں اور مفصل (چھوٹی سورتیں) دے کر مجھے فضیلت بخشی گئی۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ابی بن کعبؓ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان پر نبیؐ کا گزرہوا آپؐ نے فرمایا اے ابی حضرت ابی بن کعبؓ آپؐ کی طرف متوجہ تو ہوئے لیکن جواب نہیں دیا اور ہلکی نماز پڑھ کر خدمت اقدسؐ میں حاضر ہوئے اور کہا؛ السلام علیکم یا رسول اللہ۔ آپؐ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا؛ اے ابی! جب ہم نے تمہیں بلایا تو جواب دینے میں کیا چیز مانع رہی۔ حضرت ابی بن کعبؓ نے جواب دیا یا رسول اللہ میں نماز پڑھ رہا تھا، آپؐ نے فرمایا جو قرآن میری طرف وحی کیاگیا ہے اس میں تمہیں یہ حکم نہیں ملاکہ اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو؛ جب رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔ حضرت ابیؓ نے جواب دیاکہ یقینا یہ حکم موجود ہے۔ اب انشاء اللہ دوبارہ ایسا نہ کروں گا اس کے بعد آپؐ نے فرمایا؛’’کیا تمہاری خواہش ہے کہ میں تم کو قرآن کی وہ سورۃ سکھاؤں جس کے مرتبے کی کوئی سورۃ نہ توریت میں نازل ہوئی نہ انجیل میں نازل ہوئی نہ زبور میں نازل ہوئی اور نہ قرآن میں۔‘‘
حضرت ابی ؓ نے عرض کیا ہاں رسول اللہ(وہ سورۃ مجھے ضرور بتلادیں)تو آپؐ نے فرمایا؛ جب تم نماز میں قرأت کرتے ہو تو کیسے قرأت کرتے ہو۔حضرت ابی بن کعبؓ نے ام القرآن یعنی سورہ الفاتحہ پڑھ کر سنادی تو آپؐ نے ارشاد فرمایا؛’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، توریت میں، انجیل میں، زبور میں، اور قرآن میں اس جیسی کوئی سورت نازل نہیں ہوئی یہی وہ سبع مثانی (سات وہ آیتیں ہیں جو باربار پڑھی جاتی ہیں)اور قرآن عظیم ہے جو اللہ کی طرف سے مجھے عطا کیا گیاہے۔‘‘
یہاں اس بات کی بھی وضاحت ہوگئی کہ تورات، زبور،انجیل سے زیادہ مکمّل اور جاوداں کتاب قرآن کریم ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی محبت کے بے پایاں احساس کے ساتھ حضورؐ پر نازل فرمایا اس لیے لازم ہو جاتا ہے کہ ہم سب سے زیادہ محبت حضورؐ سے کریں۔
ایک اور موقع سے حضورؐ نے ارشاد فرمایاکہ؛’’سورہ بقرہ کی آخر کی یہ آیتیں عرش کے نیچے کے خزانے سے مجھے دی گئی ہیںمجھ سے قبل کسی نبی کونہیں دی گئیں اور نہ ہی میرے بعد کسی کو ملیں گی۔‘‘
یہ بھی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو سورہ بقرہ کی آخری آیتوں کی شکل میں وہ قیمتی اور لازوال تحفہ عطا کیا جو ان سے پہلے اپنے کسی محبوب کو عطا نہیں کیا اب آپ ہی غور فرمائیے کہ جس محبوب سے اللہ خود اتنی محبت کرتا ہے اس سے مومن کیوں کر نہ عشق کرے گا۔ جبکہ یہ عشق خدا ہی کے لیے ہے۔ اللہ نے انسان اور جن اور فرشتوں کو پیدا فرمایا تا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں۔ فرشتے اللہ کے نہایت نیک اور پاکیزہ بندے ہیں۔ جو شب وروز اللہ کی عبادت اور حمدوثنا میں لگے رہتے ہیں۔یہ اللہ کے سب سے مقرب بندے ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ کے محبوب بندہ پر درود وسلام بھیجتے رہتے ہیں۔ اللہ کی محبت کا اندازہ لگائیے کہ اس نے خود حکم دیا ہے کہ وہ آپؐ پر درود وسلام بھیجا کریں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS