کہیں پہ نگاہیں، کہیں پہ نشانہ

0

عام زندگی میں ہی نہیں، عالمی سیاست میں بھی اس بات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کہ فیصلے حالات کی متوقع تبدیلیوں کے پیش نظر لیے جائیں۔ اس طرح لیے جائیں کہ ہر ایک کے لیے اصل مقصد کو سمجھنا مشکل ہو۔ مطلب یہ کہ نگاہیں کہیں پر ہوں، نشانہ کہیں اور لگایا جائے، چنانچہ یوکرین کے خلاف روس نے جنگ چھیڑی توایک طرف امریکہ اور روس کے بیشتر اتحادی ملکوں نے یوکرین کی مدد کی تاکہ روس کو کمزور کیا جاسکے، جنگ کی آگ یوکرین تک ہی محدود رہے، اس کا دائرہ یوروپ میں نہ پھیلے تو دوسری طرف روس کے حامی ملکوں کی کوشش یہ رہی کہ امریکہ اور روس کے اتحادیوں کو اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔ اسی مقصد کے تحت ایران نے روس کی مدد کی تو چین نے روس سے دوری بنانے میںدلچسپی نہیں دکھائی۔ وہ آج بھی روسی تیل کا ایک بڑا خریدار ہے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پابندی کو بے اثر بنانے میں ان ملکوں نے اہم رول ادا کیا ہے جنہوں نے روس سے تیل اور گیس خریدنا بند نہیں کیا۔ اگر وہ بند کر دیتے تو روس کے لیے یوکرین سے جنگ لڑتے رہنا نہایت مشکل ہو جاتا۔ اس کی اقتصادی حالت کے خستہ ہونے کی صورت میں اس کے اندرونی حالات کے خراب ہونے کا اندیشہ رہتا اوراس کا پورافائدہ یوکرین کے توسط سے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اٹھانے کی کوشش کرتے مگر یہ بات واضح کر دینی ضروری ہے کہ ہندوستان کے روس اور امریکہ دونوں سے بہتر تعلقات رہے ہیں اور وہ ان دونوں ملکوں سے تعلقات تونبھاتا آیا ہے مگر کسی ایک کا طرف دار بننے کی اس نے کبھی کوشش نہیں کی۔ کواڈ میں اس کی شمولیت پر روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف ایک بار دلبرداشتہ ہوگئے تھے۔ انہیں لگاتھا کہ مغربی ممالک ہندوستان کو چین کے خلاف الجھا رہے ہیں۔ اس وقت ہندوستان نے یہ بات واضح کی تھی کہ وہ ایک خودمختار ملک ہے اور فیصلے اپنے مفاد کے مطابق لیتا ہے۔ یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد امریکہ اور روس کے اتحادی ملکوں کی یہ چاہت رہی کہ ہندوستان روس سے دوری اختیار کرے مگر ہندوستان نے پھر یہی بات کہی کہ وہ ایک خودمختار ملک ہے اور اپنے مفاد کے مطابق ہی فیصلے لیتاہے۔
ایران اور چین کے روس سے جس طرح کے رشتے ہیں، اس سے ویسے رشتے ہمارے ملک ہندوستان کے نہیں۔ اسی لیے اس کے روس سے تیل کی خریداری جاری رکھنے پر امریکہ متفکر نہیں تو روس کی سمجھ میں یہ بات آ چکی ہے کہ کواڈ میں ہندوستان کی شمولیت کو اس نے غلط سمجھا تھا۔ عالمی سیاست میں کہیں پہ نگاہیں، کہیں پہ نشانہ والا معاملہ شروع سے رہا ہے۔ امریکہ فدیل کاسترو کے بہت خلاف تھا۔ سی آئی اے نے کاسترو کو جان سے مارنے، انہیں اقتدار سے ہٹانے کی بہت کوشش کی تھی اور انہیں حالات کا فائدہ اٹھاکر سوویت یونین نے کیوبا میں ایٹمی میزائلیں نصب کر دی تھیں جو بعد میں کیوبن میزائل کرائسس کی وجہ بنی تھیں۔ یوکرین سے امریکہ کے قربت کااظہار کرنے کی بھی یہی وجہ ہے کہ یوکرین روس کا پڑوسی ملک ہے۔ اس کے ساتھ رہنے سے روس پر دباؤ بنانے میں اسے کامیابی مل جائے گی مگر روس ایساہونے دینا نہیں چاہتا۔ جنگ کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ چین اور ایران کے روس کی حمایت کی بھی یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں ملک یوکرین کو امریکہ کے دائرئہ اثر میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہیوگوشاویز کے دور حکومت میں وینزویلا سے ایران کی قربت کی وجہ بھی یہی تھی کہ اس کے تعلقات امریکہ سے اچھے نہیں تھے۔ دراصل یہ عام زندگی کا ہی نہیں، عالمی سیاست کا بھی اصول ہے کہ دشمن کے دشمن سے دوستی کی جائے تاکہ خود کو مضبوط کیاجاسکے۔ یہ بات الگ ہے کہ عالمی سیاست میں دشمنی اور دوستی کی اصل وجہ نہیں بتائی جاتی اور جو وجہ بتائی جاتی ہے، وہ اکثر ہوتی نہیں ہے مگر عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے لوگ سمجھ ہی جاتے ہیں کہ کس ملک کا کون دوست ہے اور کون دوست نہیں ہے۔n

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS