ایم اے کنول جعفری
علامہ اقبال کی نظم ’سید کی لوح تربت‘ کے شعر،’وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے؍دیکھ کوئی دل نہ دُکھ جائے تری تقریر سے‘ میں کہا گیا ہے کہ تو اگرقوم کے لیے کچھ لکھنا یا تصنیف کرنا چاہے توتیرا اَنداز بیان لوگوں میں ایک دوسرے کے ساتھ میل جول بڑھانے اور اتحاد کو فروغ دینے والا ہونا چاہیے۔ اورتواگر کسی مسئلے کے متعلق وعظ یا گفتگو کرے تو اس بات کا خاص خیال رہنا چاہیے کہ کوئی ایسی بات زبان پر نہ آ جائے جو کسی کی دل آزاری کا سبب بنے یا کسی کو تکلیف پہنچے۔ایسااس لیے بھی ضروری ہے کہ کسی کا دل دُکھاکر آپس میںمیل جول اور اتحاد کو فروغ نہیں دیا جا سکتا۔کبیرداس نے بھی اپنے دوہے کے ذریعہ ا سی قسم کاقیمتی مشورہ دیاہے: ’بولی اک انمول ہے،جو کوئی بولے جانی؍ ہیے ترازو تول کے تب مکھ باہر آنی‘ یعنی کبیر کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص صحیح طریقے سے بولنا جانتا ہے تو اُسے معلوم ہے کہ بولی ایک قیمتی ہیرا ہے۔اس لیے وہ اسے اپنے دل کے ترازو میں تول کر ہی منہ سے باہرنکلنے دیتا ہے۔دوسری جانب یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ سیاست داں ہو یا عام آدمی وہ نہ تو سنت کبیر سے اتفاق کرتا ہے اور نہ ہی علامہ اقبال کی بات اس کی سمجھ میں آتی ہے۔
اَﷲ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے لیکن ساری مخلوق سے بزرگ تراس انسان کونہ تو اپنی عظمت کا پاس ہے اور نہ ہی اپنی برتری کا لحاظ۔حقیقت یہ ہے کہ ہمیں نہ مجلس میں اُٹھنا بیٹھنا آتا ہے اور نہ ہی راستہ چلنا اور اسے پار کرنا آتا ہے۔انسان اچھا انسان تب ہی ہوسکتا ہے،جب اُسے بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر رحم کرنا آتا ہو ۔ اُس میںصبر،تحمل اور برداشت کا مادہ ہی صرف نہ ہو،بلکہ انسان کے سب سے بڑے دشمن غصے کو پی جانے کی قوت بھی ہو۔ اس کے علاوہ اُسے بول چال اور گفتگو کے آداب بھی معلوم ہوں۔ مطلب صاف ہے کہ ہرشخص کو انسان بننے کے لیے کئی قسم کی پابندیوں کے ساتھ زندگی گزارنی ہوگی۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہم دن بھر غیبت اورچغلی ہی نہیں، بہتان تراشنے تک میں ایک دوسرے کو شکست دینے کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔ اس سے حالات بد سے بدتر ہوتے جاتے ہیں۔اگر ہماری گفتگو کا اندازنرم اور خوشگوار ہو جائے تو پھر ایک دوسرے کی غیبت اور بہتان سے بچنے کی راہ آسانی سے نکل سکتی ہے۔لیکن یہ ہو نہیں رہا ہے۔ ہماری گفتگو اور تقاریر دلوں کو جوڑنے والی نہیں،بلکہ دلوںکو توڑنے والی ثابت ہو رہی ہیں۔ رفتہ رفتہ محبت کے باغات ختم ہو تے جا رہے ہیں اور نفرت کی کھیتی خوب پھل پھول رہی ہے۔ حالات اس طرح کے ہیں کہ صدیوں سے ساتھ رہنے والے مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھ اور نفرت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ سیاست کی دنیامیں تو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا رواج عام ہو گیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کو نفرت انگیز تقاریر پر قابو پانے کے لیے سیاست اور مذہب کو الگ الگ کرنے کی صلاح دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگرتنا کی بنچ نے29مارچ2023کو نفرت انگیز تقاریر اور بیانات کے تناظر میں کہا کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟ بنچ شاہین عبداﷲ کی طرف سے مہاراشٹر حکومت کے اہلکاروں کے خلاف ایک توہین آمیز درخواست کی سماعت کر رہی تھی، جس میں کہا گیا ہے کہ مہاراشٹر میں گزشتہ چار مہینے میں 50 سے زیادہ نفرت والے بیانات دینے کے معاملے سامنے آئے ہیں۔بنچ نے کہا کہ ہمارے پاس پنڈت جواہر لعل نہرو اور اٹل بہاری واجپئی جیسے خطیب تھے۔ دیہی علاقوں سے لوگ ان کی تقاریر سننے آیا کرتے تھے۔اَب جن لوگوں کے پاس کہنے کو کچھ خاص نہیں ہے،وہ اس طرح کی تقریریں کر رہے ہیں۔ نفرت انگیز تقاریر کے سلسلے میں بنچ نے سخت اور سنجیدہ اعتراضات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس لمحہ مذہب اور سیاست کو الگ کر دیا جائے گا اور سیاست داں سیاست میں مذہب کا استعمال کرنا بند کر دیں گے،اُسی لمحہ اس طرح کی تقاریر بند ہوجائیں گی ۔ ہر پارٹی کے مخالف عناصر کی طرف سے اس طرح کے بیانات دیے جا رہے ہیں۔آخر عدالتیں کتنے لوگوں کے خلاف ہتک عزت کے معاملے شروع کر سکتی ہیں۔ حکومتیں معاشرے سے اس جرم کو ختم کرنے کے لیے کوئی طریقہ کار کیوں نہیں بنا سکتیں؟ بھائی چارے کا خیال بہت اچھا تھا،لیکن ہمیں یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہاہے کہ اس میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سیاست داں مذہب کا استعمال کر رہے ہیں۔ ہم سبھی سیکولر اور روادار معاشرے کے بجائے نفرت سے بھرا معاشرہ تیار کر رہے ہیں۔تحمل بہت ضروری ہے۔ شہریوں کو ایک دوسرے کی تذلیل نہیں کرنے کا حلف لینا چاہیے۔عدالت عظمیٰ نے صاف الفاظ میں کہا کہ روزانہ غیرسماجی عناصر ٹی وی اور عام اسٹیجوں سمیت دیگر مقامات پر لوگوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے بیانات دے رہے ہیں۔ نفرت انگیز تقاریر کا استعمال ایک شیطانی چکر ہے، جو حکومتوں کے ذریعہ بروقت کارروائی نہیں ہونے کی وجہ سے فروغ پا رہا ہے۔
دراصل، سیاست داں جب تب اور خاص کر انتخابات کے اجلاسوں اور ریلیوں میں مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں میں مذہب کی بنیاد پراشتعال انگیز تقریر کرنے کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔اس معاملے میں کسی بھی جماعت کو دودھ سے دھلا ہونے کی کلین چٹ نہیں دی جاسکتی۔ ستمبر 2022 کو اس طرح کے ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ نفرت سے لبریز تقاریر کرنے والے سیاست دانوں اور ان کی سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی،کیونکہ اس بابت کوئی قانون نہیں ہے۔تاہم،جیسا کہ کمیشن نے بھی تسلیم کیا تھا کہ تعزیرات ہند اور عوامی نمائندگی قانون میں مناسب دفعات موجود ہیں،جنہیںنفرت انگیز تقاریر کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے سختی سے نافذ کیا جا سکتا ہے۔اس کے باوجود الیکشن کمیشن انتخابات کے وقت ایسی نفرت انگیز تقاریر پر کارروائی کرنے کے معاملے میں بے بس نظر آتا رہاہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنی سابقہ سماعتوں کے دوران ٹی وی چینلوں اور دیگر عام اسٹیجوں پر ہونے والے اشتعال آمیز مباحثوں پر بھی اعتراض کیا تھا۔ا س کے باوجود یہ سلسلہ رُکنے کانام نہیں لے رہا ہے۔30مارچ کوگجرات کے سومناتھ ضلع کے اونا میں رام نومی کے موقع پر منعقدہ’ہندو سمیلن‘ میں کاجل ہندوستانی کے ذریعہ اقلیتی طبقے کو نشانہ بنانے کی تقریر سے کشیدگی پیدا ہوئی اوریکم اپریل کو امن کمیٹی کی میٹنگ میں تعاون کا یقین دلانے کے بعد ایک حساس علاقے میں پتھراؤ ہو گیا۔پولیس نے خاتون اور فساد کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرتے ہوئے 50-60 لوگوں کو حراست میں لیا ہے۔ودودرا میں پولیس نے وشو ہندو پریشد کے کارکن روہن شاہ اور کئی دیگر افراد کو رام نومی کی شوبھا یاترا کے دوران نفرت انگیز تقریر کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔ نفرت کی آگ بھڑکا کر فساد کرانے والوں کے خلاف کارروائی تو ٹھیک ہے،لیکن یہ اس طرح کی کارروائیاں آخر کہاں تک ہوں گی؟سب جانتے ہیں کہ نفرت اور اشتعال انگیز بیانات سے ماحول خراب اور تشدد کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ اِن پر قدغن کے لیے علامہ اقبال کی نصیحت اور کبیرداس کی صلاح کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو زبان اور قلم پر قابو رکھنے کے ساتھ کارکنان پر بھی کنٹرول کی ضرورت ہے۔ اگر سیاست دانوں کے ساتھ عام لوگ بھی اپنی زبان پر قابو رکھنے کے متحمل ہوجائیںتو نفرت کے شعلے ہمیشہ کے لیے سرد ہو سکتے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]