کرناٹک:مودی کرشمہ اور کھڑگے کے درمیان مقابلہ

0

صبیح احمد

کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ریاست میں 10 مئی کو ووٹنگ ہونی ہے۔ اس کے نتائج 13 مئی کو آئیں گے۔ سیاسی جماعتوں نے تمام تیاریوں کے ساتھ الیکشن جیتنے کے لیے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ الزامات اور جوابی الزامات کا دور بھی جاری ہے۔ سیاسی ہلچل کے درمیان چند ایسے ایشوز ہیں جو پورے الیکشن پر حاوی ہیں۔ کرناٹک کا الیکشن انہی ایشوز کے گرد گھومے گا۔ اپوزیشن ہو یا حکمراں جماعت، ہر کوئی ان ایشوز کو زور و شور سے اٹھا رہا ہے۔
بی جے پی نے کرناٹک اسمبلی الیکشن میں بھی برسوں سے آزمودہ ہندو-مسلم ایشو کے سہارے اپنی کشتی پار لگانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اسمبلی الیکشن سے عین قبل ریاست کے مسلمانوں کو ملنے والے 4 فیصد ریزرویشن کو ختم کرنے کے اعلان سے بی جے پی کی منشا اور پلاننگ واضح طور پر سامنے آ گئی ہے۔ ٹیپو سلطان اور حجاب جیسے ایشوز کے بعد پارٹی نے ریاست کی بساط میں ایک نیا اور گرما گرم مسلم ریزرویشن کا مہرہ آگے بڑھا دیا ہے۔ ٹیپو سلطان کا ایشو تو بہت پرانا ہے لیکن کرناٹک جیسی پارٹی کی نئی تجربہ گاہ میں حجاب کا پانسا محض ایک سال قبل یوپی اسمبلی الیکشن کے دوران پھینکا گیا اور یہ بہت حد تک کامیاب ثابت ہوا۔ اب مسلم اور دلت ریزرویشن پر دائو لگایا گیا ہے۔ فی الحال کرناٹک میں ریزرویشن کے 2 ایشوز بہت گرم ہیں۔ اس میں پہلا مسلم ریزرویشن ہے۔ کچھ ہی دنوں قبل یعنی 27 مارچ 2023 کو کرناٹک کی بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کے لیے مختص 4 فیصد ریزرویشن کو ختم کر دیا تھا۔ صوبہ کی تقریباً 13 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی حکومت کے اس فیصلہ کے بعد سیاسی ماحول کافی گرم ہوگیا ہے۔ کانگریس اور جے ڈی ایس ریاست کی دونوں ہی اہم اپوزیشن پارٹیوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر آئندہ اسمبلی الیکشن کے بعد ریاست میں ان کی حکومت بنتی ہے تو وہ اس ریزرویشن کو دوبارہ نافذ کریں گی۔ جبکہ بی جے پی اس وعدے کو کانگریس اور جے ڈی ایس کی ووٹوں کی سیاست قرار دے رہی ہے۔ کرناٹک میں مسلمانوں کو سماجی طور پر پسماندہ سمجھتے ہوئے سرکاری ملازمتوں اور تعلیم میں ریزرویشن پہلی بار 1994 میں ایچ ڈی دیوے گوڑا کی حکومت میں دیا گیا تھا۔
ریزرویشن کا دوسرا ایشو بنجارہ برادری سے وابستہ ہے۔ کرناٹک حکومت نے مسلم کمیونٹی کے اس 4 فیصد ریزرویشن کو 2 بڑی برادریوں ویرشیو- لنگایت اور ووکلیگا میں تقسیم کر دیا ہے۔ پہلے ووکلیگا کمیونٹی کو 4 فیصد ریزرویشن ملتا تھا، اسے بڑھا کر 6 فیصد کر دیا گیا ہے۔ پنچمسالیوں، ویرشیووں کے ساتھ دیگر لنگایت زمرے کے لیے اب7 فیصد ریزرویشن ہوگا۔ پہلے یہ 5 فیصد تھا۔ ریاست کی بنجارہ برادری اس کی مخالفت کر رہی ہے۔ جیسے ہی فیصلہ آیا، اس برادری کے لوگوں نے بی جے پی کے سینئر لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ بی ایس یدی یورپا کے گھر اور دفتر پر مظاہرہ کیا اور پتھراؤ بھی کیا۔ بنجارہ برادری کا کہنا ہے کہ درج فہرست ذاتوں کے ریزرویشن میں کمی کی گئی ہے۔ ریاست میں ان کی تعداد تقریباً 20 فیصد بتائی جاتی ہے ۔ پہلے انہیں 17 فیصد ریزرویشن مل رہا تھا۔ 27 مارچ 2023 کو دلتوں کے لیے ریزرویشن کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ وہ اسی بات پر ناراض ہیں۔
ٹیپو سلطان کو لے کر کرناٹک میں ہمیشہ سے سیاست گرم رہی ہے۔ اسمبلی الیکشن سے پہلے یہ ایشو پھر گرم ہو رہا ہے۔ یہ تنازع 2015 سے چل رہا ہے، جب اس وقت کی کانگریس حکومت نے ٹیپو سلطان کا یوم پیدائش منانے کا اعلان کیا تھا۔ اس دوران بی جے پی نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ اب بی جے پی نے ایک نیا دعویٰ کیا ہے کہ ٹیپو سلطان کو ووکلیگا کمیونٹی کے لوگوں نے مارا تھا اور یہ کہ ٹیپو سلطان آزادی پسند نہیں تھے۔ کرناٹک میں ووکلیگا کمیونٹی کے تقریباً 14 فیصد ووٹ ہیں۔ ایسے میں مانا جا رہا ہے کہ بی جے پی ٹیپو سلطان کا ایشو اٹھا کر برتری حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کانگریس اور جے ڈی ایس اب بھی ٹیپو سلطان کا یوم پیدائش مناتے ہیں، جبکہ بی جے پی نے 2019 میں حکومت بنانے کے بعد ٹیپو سلطان کا یوم پیدائش نہ منانے کا فیصلہ کیا۔ بی جے پی حکومت نے یہ بھی اعلان کیا کہ ٹیپو سلطان سے متعلق سیکشن کو اسکول کے نصاب سے ہٹا دیا جائے گا۔ حالانکہ بعد میں وزیر تعلیم نے واضح کیا کہ ایسا کوئی خیال نہیں ہے۔ وہ حصہ نصاب سے نکال دیا جائے گا جو کہ بے بنیاد اور خیالی ہے۔
کرناٹک میں 2021 سے حجاب کا ایک نیا تنازع شروع ہوا ہے۔ یہاں کے اڈوپی کے گورنمنٹ کالج میں حجاب پہن کر آنے والی 6 طالبات کو کلاس میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ یہاں سے شروع ہونے والا احتجاج ریاست اور پھر ملک بھر میں پھیل گیا۔ فروری 2022 میں ہندو طلبا احتجاجاً بھگوا کپڑا پہن کر اڈوپی ہی کے ایک کالج میں آئے۔ اسکولوں میں جے شری رام کے نعرے لگائے گئے۔ فروری 2022 میں کرناٹک ہائی کورٹ نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں مذہبی لباس نہیں پہنا جاسکتا۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر فوری سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔ مارچ میں ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ حجاب مذہبی طور پر ضروری نہیں ہے، اس لیے اسے تعلیمی اداروں میں نہیں پہنا جا سکتا۔ فروری 2023 میں سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سماعت کی۔ اس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ میں مسلسل 10 دن تک سماعت ہوئی۔ اب بھی یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ یہ ایشو سیاسی طور پر حاوی ہو گیا ہے۔ کانگریس اور جے ڈی ایس نے اسے انتخابی ایشو بھی بنایا ہے۔
ایک اور عوام سے وابستہ مسئلہ کو انتخابی ایشو بنایا جا رہا ہے اور وہ ہے بدعنوانی کا ایشو۔ کانگریس اور جے ڈی ایس سمیت مختلف اپوزیشن جماعتوں نے بدعنوانی کے معاملے پر بی جے پی کو گھیرنے کی کوشش کی ہے۔ راہل گاندھی نے ایک ریلی کے دوران الزام لگایا تھا کہ کرناٹک میں 40 فیصد کمیشن لے کر کام کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں بی جے پی کے ایک ایم ایل اے کے بیٹے کو ویجیلنس نے رشوت لیتے ہوئے پکڑا تھا۔ اس کے بعد ایم ایل اے کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کانگریس اور اپوزیشن کی دیگر پارٹیاں اس ایشو کو خوب زور شور سے اٹھا رہی ہیں۔ ان کاالزام ہے کہ بی جے پی حکومت میں بدعنوانی زوروں پر ہے اور یہاں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ جبکہ بی جے پی لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ یہ صرف بی جے پی حکومت میں ہی ہو سکتا ہے کہ حکمراں جماعت کا لیڈر رشوت لیتے ہوئے پکڑا جائے۔
2023 کے اسمبلی انتخابات اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن بالخصوص کانگریس بی جے پی کے خلاف کتنی اور کہاں کھڑی ہوگی، اس کی تصویر کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج سے کافی حد تک واضح ہو جائے گی۔ اگر کانگریس کرناٹک میں حکومت بناتی ہے، جہاں بی جے پی حکومت ایک مضبوط ’اقتدار مخالف لہر‘ سے لڑ رہی ہے، تو کانگریس مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ کے بعد کے انتخابات میں بی جے پی کو سخت چیلنج دینے میں کامیاب ہوگی اور اگر مودی کا کرشمہ بی جے پی کو مدد دیتا ہے، اگر وہ ریاست میں اقتدار میں واپس آتی ہے تو نہ صرف کانگریس بی جے پی سے کمزور ثابت ہوگی بلکہ اپوزیشن کی سیاست میں اس کا غلبہ بھی بری طرح متاثر ہوگا۔ بہرحال کرناٹک میں بی جے پی کے مودی کرشمہ اور کانگریس کے کھڑگے کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ سیاسی طور پر راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کانگریس کے لیے کتنی سود مند ثابت ہوئی، اس کا بھی اس جنوبی ریاست کی سرزمین پر امتحان ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS