نظر سپریم کورٹ پر

0

آدمی کہیں بھی مرے، کوئی بھی مرے، اس کی موت باعث غم ہوتی ہے مگر وباؤں کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ مرنے لگتے ہیں تو یہ سوال فطری طور پر اٹھتا ہے کہ کیا ان میں سے بہتوں کو بچایا نہیں جاسکتا تھا؟ کیا حالات اچانک بدترین ہوگئے؟ مغربی بنگال، آسام، تمل ناڈو، کیرالہ اور پدوچیری میں انتخابی تاریخوں کا اعلان ہوا تو یہ بات ناقابل فہم تھی کہ الیکشن کمیشن مغربی بنگال کے ہی اسمبلی انتخابات کو 8 مرحلوں میں کیوں کرانا چاہتا ہے؟ اس دور میں جبکہ چناؤ کرانا ہی مشکل ہے، الیکشن کمیشن نے کیوں اتنی لمبی تاریخ دی ہے؟ کورونا متاثرین کی بڑھتی تعداد کو دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن نے الیکشن جلدی کرانے میں دلچسپی کیوں نہیں دکھائی؟ ایسا محسوس ہوا جیسے وہ ملک کے حالات سے بے خبر ہو، اس لیے انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن پر مدراس ہائی کورٹ کی بات ناقابل فہم نہیں ہے۔ کورٹ نے بجا طور پر الیکشن کمیشن کو کورونا بحران کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ہائی کورٹ نے یہ چبھتا ہوا سوال الیکشن کمیشن سے کیا ہے کہ ’جب انتخابی ریلی ہو رہی تھی تو آپ کسی اور سیارے پر تھے کیا؟ ‘ عدالت نے سخت رخ اپناتے ہوئے کہا کہ ’غیرذمہ دارانہ سلوک کے لیے الیکشن کمیشن کے خلاف قتل کا کیس درج کیا جانا چاہیے۔ ‘ مدراس ہائی کورٹ نے یہ انتباہ بھی دیا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن نے کووِڈ-19 پروٹوکال پر عمل کرانے کے لیے مناسب منصوبہ نہیں بنایا تو 2 مئی کو ہونے والی ووٹوں کی گنتی روک دی جائے گی۔
کورونا وائرس کی توسیع کے بعد سے یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ کلکتہ ہائی کورٹ، مدراس ہائی کورٹ، بمبئی ہائی کورٹ، الہ آباد ہائی کورٹ اور دلی ہائی کورٹ نے حالات کی سنگینی کو بڑی شدت سے محسوس کیا ہے اور سنوائی کے لیے لمبی تاریخیں دے کر اپنی اہمیت جتانے یا لوگوں کو مایوس کرنے کی وجہ بننے سے گریز کیا ہے۔ متذکرہ ہائی کورٹوں نے کورونا کے خلاف کتنا سخت رخ اپنایا ہے، اس کا اندازہ 24 اپریل کو دلی ہائی کورٹ کے جسٹس وپن سانگھی اور جسٹس ریکھا پلی کی بنچ کی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’جو کوئی بھی آکسیجن کی سپلائی میں رکاوٹ ڈالے گا، اسے لٹکا دیا جائے گا۔‘ ہائی کورٹ نے یہ واجب سوال دہلی سرکار سے کیا کہ ’ایک رپورٹ کے مطابق مئی میں کورونا انفیکشن کی سونامی آنے والا انتباہ دیاگیا تھا۔ اس وقت کے لیے آپ کا منصوبہ کیا ہوگا اور کیسے انتظام کریں گے؟‘اس سے قبل صنعتی دنیا کو 22 اپریل سے آکسیجن کی سپلائی بند کرنے کے مرکز کے فیصلے پر جسٹس وپن سانگھی اور جسٹس ریکھا پلی کی دہلی ہائی کورٹ کی بنچ نے سرزنش کی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ ’صنعتیں انتظار کرسکتی ہیں، مریض نہیں۔‘
اترپردیش میں آج کیا حالات ہیں، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہاں کے حالات دیکھتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے 5 اضلاع میں لاک ڈاؤن لگانے کا حکم دیا تھا۔ اترپردیش حکومت نے اس حکم کو سپریم کورٹ میں چنوتی دی۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگا دی۔سپریم کورٹ نے 23 اپریل کو از خود نوٹس پر سماعت ملتوی کر دی تھی۔ اس سلسلے میں سماعت وہ آج کرے گی۔ ان چار دنوں میں 12 لاکھ سے زیادہ لوگ کورونا سے متاثر ہو چکے ہیں۔ تمام لوگوں کی نگاہیں سپریم کورٹ پر مرکوز ہیں کہ اس سلسلے میں اس کا فیصلہ کیا آتا ہے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ سپریم کورٹ کو اتنا وقت لینے کی ضرورت ہی کیوں محسوس ہوئی؟ ایک صحافی کا فیصلہ عدالت عظمیٰ ایک دن میں سنادیتی ہے لیکن عوامی مفاد کے فیصلے لینے میں اسے اکثر وقت لگ جاتا ہے جیسے سی اے اے کا معاملہ ہو یا کسانوں کے بل کا معاملہ۔ اب کورونا کا معاملہ ہے۔ کیا سپریم کورٹ کو پہلے ہی اس طرف توجہ نہیں دینی چاہیے تھی؟
وقت اچھا ہو یا برا، گزر جاتا ہے۔ لوگ عدالتوں کے فیصلے یاد رکھتے ہیں مگر یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ عدالتوں میں بھی انسان ہی بیٹھتے ہیں، بھگوان نہیں بیٹھتے، لیکن کوئی جج ریٹائرڈ ہونے کے بعد کوئی بڑا عہدہ لے لیتا ہے یا پارلیمنٹ چلا جاتا ہے تو اس کی اس کامیابی کو اس کے سابقہ فیصلوں سے جوڑ کر دیکھنا فطری ہے، البتہ برا وقت کرداروں کی پہچان کرانے کے لیے آتا ہے۔ یہ دکھانے کے لیے آتا ہے کہ کون انسان دوست ہونے کا سوانگ کرتا ہے اور کون واقعی انسان دوست ہے۔ شمشان کے لوہے جب لاشوں کے دن رات جلنے سے پگھل جا رہے ہوں، جب قبرستانوں میں تدفین کے لیے جگہیں کم پڑ رہی ہوں تو پھر اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے۔ کسے معلوم کون کب چلا جائے مگر سچ کے ساتھ جی کر انصاف کی باتیں کر کے یہ اطمینان تو رہے گا کہ زندگی کا اختتام انصاف کہتے ہوئے،انصاف کرتے ہوئے ہوا۔ اس دور میں جب میڈیا کے کئی لوگ بھونپو بن چکے ہیں، انصاف کرنے والی عدالتوں پر لوگ بولنے لگے ہیں، ہر ایک کو اپنی جان کی پڑی ہے تو سچ بولنے والے لوگ، انصاف کی باتیں کہنے والے لوگ واقعی قابل تعریف ہیں۔ انہیں لوگوں سے عدلیہ پر بھی لوگوں کا اعتماد رہے، انسانیت پر بھی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS