کام کے طویل اوقات ہلاکت کا باعث ہو سکتے ہیں، عالمی ادارہ صحت

0
dw.com

کام کے طویل اوقات سے سالانہ بنیادوں پر ہزاروں انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ بات عالمی ادارہ صحت نے پیر سترہ مئی کو اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتائی ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ریسرچ رپورٹ ایک اہم جریدے انوائرمینٹل انٹرنیشنل میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ میں کام کے طویل اوقات سے انسانی صحت کو پہنچنے والے نقصانات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی بیان کیا گیا کہ طویل اوقات کے انسانی صحت پر پڑنے والے منفی اثرات اتنے شدید ہو سکتے ہیں کہ ان سے متاثرہ انسان اپنی جان سے ہاتھ تک دھو بیٹھتا ہے۔

کام کے طویل اوقات اور انسانی اموات
عالمی ادارہٴ صحت کے مطابق اقتصادی عدم اطمینان کی وجہ سے کئی انسانوں کو طویل اوقات تک کام کرنا پڑتا ہے اور یہ صورت حال کورونا وبا کے ایام میں خاص طور پر زیادہ دیکھی گئی ہے۔ ریسرچ رپورٹ کے مطابق کام زیادہ کرنے کے اوقات کی وجہ سے انسانوں کو مختلف عوارض کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں عارضہٴ قلب خاص طور پر اہم ہے۔ سن 2016 میں کام کے طویل اوقات کی وجہ سے دنیا بھر میں سات لاکھ پینتالیس ہزار افراد اپنی زندگی سے محروم ہو گئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کی موت کی وجہ ہارٹ اٹیک اور اسٹروک ہے۔ یہ اضافہ سن 2000 کے مقابلے میں تیس فیصد زیادہ ہے۔

طویل اوقات تک کام کرنے سے انسانی صحت کو کئی مسائل کا سامنا ہو جاتا ہے
Symbolbild WHO Studie Lange Arbeitswoche erhöht das Risiko tödlicher Erkrankungen

عالمی ادارہٴ صحت کا ردعمل
ریسرچ میں واضح کیا گیا ہے کہ عالمی آبادی میں کام کے زیادہ اوقات کا سامنا کرنے والی آبادی نو فیصد ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے شعبہ انوائرنمنٹ اور کلائمیٹ چینج و صحت کی ڈائریکٹر ماریا نائرا کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے میں پچپن گھنٹے کام کرنے سے صحت کے شدید مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے لیے عام لوگوں تک بنیادی معلومات پہچانا اور ورکرز کی صحت کا تحفظ بھی بہت ضروری ہے۔

عالمی ادارہٴ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس آڈہانوم گیبرائسس کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران لوگوں کے کام کی ہیت میں بڑی تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور کئی اداروں میں کمپیوٹر یا ٹیلی ورکنگ نے معمول کی صورت اختیار کر لی ہے۔ گبرائسس کے مطابق اس نئی صورت حال نے کام کے مقام اور گھر میں فرق مٹا دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اور اداروں کو اپنے ورکرز کی صحت کو مقدم سمجھنا چاہیے جب کہ ورکرز کو اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ زندگی کے سامنے روزگار کی کوئی اہمیت نہیں اور بہتر ہے کہ کام اس طرح کیا جائے کہ ہارٹ اٹیک یا اسٹروک سے محفوظ رہا جائے۔

بنگلہ دیش میں کپڑے بنانے کی انڈسٹریز کے ورکرز کو طویل اوقات تک کام کرنے کا سامنا رہتا ہے

عالمی ادارہٴ صحت اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ سن 2016 میں تین لاکھ اٹھانوے ہزار افراد کی موت کی وجہ اسٹروک اور تین لاکھ سینتالیس ہزار افراد کو دل سے جڑی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں جانا پڑا۔

کام کے لیے پولینڈ سے میکسیکو، وہاں جسمانی اعضاء نکال لیے گئے
Vietnam

عالمی ادارہٴ صحت کا کہنا ہے کہ کورونا وبا نے انسانی زندگی میں کام کے اوقات کو بڑھا دیا ہے۔ کام کے اوقات زیادہ ہونے سے جو سات لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوئی تھیں، ان میں زیادہ افراد مرد تھے، جو اوسط یا بڑی عمر کے تھے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS