ڈاکٹر جاوید عالم خان
بی جے پی اپنے انتخابی منشور کے ذریعے یہ اعلان کرنے والی ہے کہ اس کے ذریعے بننے والی نئی حکومت ہندوستان کو 2047تک ایک ترقی یافتہ ملک بنائے گی۔ بی جے پی کے ذریعہ2014 میں بھی پارلیمنٹ کے عام انتخابات کے دوران ملک کے عوام سے اچھے دنوں کا وعدہ کیاگیا تھا اور ملک کے ہر شہری کے اکاؤنٹ میں15لاکھ روپے ٹرانسفر کرنے کی گارنٹی دی گئی تھی۔ ساتھ ہی سالانہ 2کروڑ نئی نوکریوں کی فراہمی، کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنا، مہنگائی کی روک تھام اور عورتوں کا تحفظ جیسے بڑے وعدے بھی کیے تھے جس کے پورا ہونے کا ابھی بھی عوام کو انتظار ہے۔ اسی طرح سے2023میں یہ اعلان کیاگیا تھا کہ آنے والے 25سالوں میں ہندوستان امرت کال میں داخل ہوگا۔ ان سارے اعلانات اور وعدوں کا اگر اقتصادی صورتحال کے نظریہ سے تجزیہ کیا جائے تو کیا یہ نعرہ ایک حقیقت ہے یاصرف خواب۔
جب کسی بھی ملک کی خوشحالی یا عوامی ترقی کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو یہ بہت حد تک منحصر کرتا ہے کہ حکومتیں اپنی پالیسی اور پروگرام کے تحت پچھڑے طبقات کے سماجی اور اقتصادی حالات کو بدلنے کیلئے کس طرح کی کوششیں کررہی ہیں۔ خاص طور سے ملک کا اقتدار جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، وہ کیا اپنے سماجی اور اقتصادی فریم ورک میں ملک کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور ترقی سے متعلق یکساں مواقع فراہم کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ ترقی یافتہ ملک بننے کیلئے کون کون سی اہم چیزیں درکار ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق ترقی یافتہ ملک بننے کیلئے کسی بھی ملک کے لوگوں کی سالانہ فی کس خام قومی آمدنی(Annual Per Capita Gross National Income) 13846 ڈالر سے کم نہیں ہونی چاہیے تبھی وہ ملک اپنے آپ کو بڑی آمدنی والی معیشت کہلا سکتاہے۔ اوسط درجے کی آمدنی والی معیشت کیلئے فی کس آمدنی 4466ڈالر اور13845 ڈالر کے درمیان ہونی چاہیے، وہیں نچلے اوسط درجے کی معاشی آمدنی والے ملک کیلئے فی کس آمدنی 1136 ڈالر اور 4465 ڈالر کے درمیان طے کی گئی ہے۔ عالمی بینک کی فی کس آمدنی کی تعریف کے تناظر میں ہندوستان نچلے اور اوسط ملک کے درجے میں آتا ہے اور اونچی آمدنی والی معیشت بننے کیلئے فی کس آمدنی13846 ڈالر2047تک حاصل کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ ترقی یافتہ ملک کے ہدف کو حاصل کرنے کے بارے میں ماہر معاشیات اشوک گلاٹی کا کہنا ہے کہ ہندوستان 2047 تک ترقی یافتہ ملک بن سکتا ہے اگر موجودہ معاشی نمو کی رفتار کو برقرار رکھاجائے۔ ان کے حساب سے تین اہم خوشحالی سے متعلق اشاریئے(Indicators) پر حکومت کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ایک لمبے وقت کیلئے فی کس آمدنی اور جی ڈی پی کے نمو کی شرح میں لگاتار اضافہ، آمدنی میں غیربرابری کی روک تھام، مہنگائی کی شرح پر قابو رکھنا اور ملک کے زرمبادلہ کی شرح کو کنٹرول میں رکھنا اہم ہے۔ عالمی بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ خوشحالی سے متعلق اشاریوں کا تجزیہ کرتے رہتے ہیں اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی تازہ رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر معاشی غیریقینی اور خراب صورتحال کے باوجود بھی ہندوستان کی معاشی صورتحال آنے والے دنوں میں بہتر رہے گی۔ ترقی یافتہ ملک بننے کی موجودہ بحث میں زیادہ توجہ حکومت اس بات پر دے رہی ہے کہ عالمی سطح پر ہندوستان کی معیشت کتنے ٹریلین ڈالر کی ہے۔ حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ گزشتہ67سالوں میں ہندوستان کی معیشت دو ٹریلین ڈالر کی تھی، اس وقت ملک کی معیشت 3ٹریلین ڈالر کے آس پاس ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ2024تک ملک کی معیشت4ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی اور 2029 تک 6ٹریلین ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔ ان سارے ہدف کے ذریعہ ہندوستان2027تک دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن سکتا ہے اور اس کی موجودہ حیثیت عالمی سطح پر معیشت کے معاملے میں پانچویں نمبر پر ہے۔ اگر انفرادی سطح پر خوشحالی کا جائزہ لیا جائے تو ملک میں فی کس آمدنی 2004 میں 624 ڈالر تھی جو بڑھ کر 2014 میں 1560 ڈالر ہوگئی جبکہ 2022 میں یہ فی کس آمدنی20411 ڈالر تھی۔ ان اعدادوشمار سے یہ پتا چلتا ہے کہ ہندوستان کیلئے ترقی یافتہ ملک یا اونچی آمدنی والی معیشت یا لوگوں کی فی کس آمدنی 13846 ڈالر تک پہنچ پانا کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے۔ کئی سارے ماہرین معاشیات کا دعویٰ ہے کہ فی کس آمدنی لوگوں کی حقیقی خوشحالی کو ظاہر نہیں کرتی ہے کیونکہ سماج کے اندر آمدنی کی غیر برابری میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس بات کو آکسفیم انڈیا کے ذریعہ2023میں شائع ہونے والی رپورٹ نے پوری طرح سے واضح بھی کردیا تھا۔ یہاں پر یہ جاننا ضروری ہے کہ بڑھتی ہوئی آمدنی کی غیر برابری کی پیمائش کیسے کی جائے۔ آمدنی کی غیر برابری کی پیمائش کیلئے گنی انڈیکس(Gini Index) کا استعمال کیاجاتا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق یہ انڈیکس2004میں34.4تھا جبکہ 2021میں گھٹ کر 34.2ہوگیا تھا۔ حالانکہ مرکزی حکومت نے گزشتہ دس سالوں سے غریبی کی سطح کی پیمائش کے لیے کسی بھی طرح کا کوئی سروے نہیں کرایا ہے، اس لیے آمدنی میں غیر برابری کی پیمائش کے لیے گنی انڈیکس کے موجودہ نتیجے پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کیا جاسکتاہے۔ یہاں پر ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت دنیا کی زیادہ تر معیشتوں کا انحصار زراعت پر نہیں ہے بلکہ ان کی خام گھریلو پیداوار(جی ڈی پی) کا زیادہ حصہ خدمات اور صنعت کے شعبہ سے آتا ہے۔ لیکن اگر ہندوستان کی بات کی جائے تو یہاں کی50فیصد سے زیادہ آبادی کے روزگار کا انحصار زراعت پر ہے جبکہ جی ڈی پی میں اس کا حصہ 15فیصد کے آس پاس ہے۔ جہاں تک صنعت کا معاملہ ہے تو ہندوستان اس میں ابھی بھی کافی پیچھے ہے۔ ہندوستان کی جی ڈی پی کا تقریباً60فیصد حصہ خدمات کے شعبہ سے آتا ہے جبکہ اس شعبے میں روزگار کی شرح بہت ہی کم ہے۔ اقتصادیات کی تاریخ کے مطالعے سے یہ پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر ترقی یافتہ ملکوں نے ترقی کی دوڑ میں صنعت کے شعبے کو پہلے مضبوط کیا ہے جبکہ ہندوستان کئی وجوہات کی بنا پر صنعت کے شعبہ کو مضبوط نہیں کرپایا ہے، موجودہ حکومت نے ’میک ان انڈیا‘ اور ’اسکل انڈیا‘ جیسے اقدامات کی شروعات تو کی ہے مگر پھر بھی ابھی تک اس کا کوئی تشفی بخش نتیجہ پیداوار اور روزگار کے میدان میں نہیں دکھائی دیتاہے۔2011 کی قومی صنعتی پالیسی کے مطابق ملک کے اندر صنعتی انفرااسٹرکچر اور باصلاحیت انسانی وسائل کی فراہمی میں کافی کمیاں ہیں، اس کے علاوہ قوانین اور پالیسیوں میں کافی پیچیدگیاں ہیں جس کی وجہ سے جی ڈی پی میں صنعت کا شعبہ اپنی موجودگی پوری طرح سے درج نہیں کرا پارہا ہے۔ اگرچہ موجودہ حکومت معاشی ترقی اور جی ڈی پی کے نمو اور اعدادوشمار کو لے کر کافی بڑے دعوے کرتی ہے لیکن روزگار مانگنے والوں کی تعداد میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے سرمایہ کاری کی صورتحال اور روزگار کا معیار باعث تشویش ناک ہے۔ 2017-18میں ملک میں مجموعی افرادی قوت460ملین تھی جو2022-23میں بڑھ کر560ملین ہوگئی۔ گزشتہ5سالوں کے دوران لیبر مارکیٹ میں100ملین کام مانگنے والوں کا اضافہ ہوا ہے، وہیں پر صنعت کے شعبہ میں بمشکل ہرسال 2 ملین لوگوں کو ہی روزگار ملا ہے جبکہ زراعت کے شعبے میں 8 ملین لوگ ہر سال برسر روزگار ہوئے ہیں حالانکہ اس شعبے کی پیداواریت نہایت ہی کم ہے۔
ملک کی لیبر مارکیٹ سے متعلق ریسرچ اس بات کا اشارہ کرتی ہیں کہ غیر منظم شعبے میں زیادہ تر روزگار غیر رسمی ہیں، پیداواریت کی سطح میں کافی کمی ہے اور مزدوروں کو اجرت کی ادائیگی بہت ہی تھوڑی ہے۔ مائیکرو، اسمال، میڈیم انٹرپرائز کی موجودہ تعداد تقریباً63ملین ہے اور وہ غیر منظم شعبے کا حصہ ہیں۔ جہاں تک پیداواریت اور روزگار کا معاملہ ہے، اس میں یہ شعبہ ابھی بھی بہت پیچھے ہے، اس لیے صنعتی شعبے کو مزید آگے بڑھانے، پیداواریت اور روزگار میں اضافہ کرنے کیلئے ہندوستان کو چین سے سبق لینا چاہیے، تب ہوسکتا ہے کہ آنے والے سالوں میں ہندوستان ایک ترقی یافتہ ملک بن سکے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ملک کے عوام کی فی کس آمدنی میں اضافہ ہونا چاہیے نہ کہ صرف جی ڈی پی کی مقدار اور شرح نمو میں اضافہ۔ 1990کی دہائی میں چین اور ہندوستان کی فی کس جی ڈی پی تقریباً برابر تھی، ہندوستان کی فی کس جی ڈی پی347ڈالر اور چین کی368ڈالر تھی۔ 2022 میں چین کی فی کس جی ڈی پی بڑھ کر 12720 ڈالر ہوگئی، وہیں ہندوستان کی فی کس جی ڈی پی20410ڈالر تھی۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان اس معاملے میں چین سے ابھی بھی کافی پیچھے ہے اور اس وقت ملک کو بیروزگاری، مہنگائی اور معاشی غیر برابری کا زبردست چیلنج درپیش ہیں، یہ سارے مسائل لوک سبھا انتخابات کا ایجنڈا بننے چاہئیں نہ کہ برسراقتدار پارٹی کے ذریعہ دکھائے جارہے وکست بھارت کا سنہرا خواب۔
(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈوکیسی سے وابستہ ہیں۔)
[email protected]