صدارتی انتخابات کیلئے لابنگ

0

راجیہ سبھاکی 57سیٹوں کے انتخابات کے بعد اگلامرحلہ صدارتی انتخاب کا ہے، جس کے لئے ووٹوں کا حساب کتاب لگایا جارہا ہے۔ صدارتی انتخاب کیلئے الیکٹورل کالج کے ارکان کی تعداد کچھ اس طرح ہے کہ مرکز میں حکمراں این ڈی اے کا پلڑا بھاری نہیں ہے۔ اسے بھی اپنے پسندیدہ امیدوار کو کامیاب بنانے کیلئے کچھ اپوزیشن پارٹیوں کی حمایت اورووٹ کی ضرورت پڑے گی، جس کیلئے مودی سرکار اوربی جے پی ضرور کوشش کرے گی۔پہلے مرحلہ میں راجیہ سبھاکے انتخابات میں اپنی طاقت سے زیادہ سیٹیں جیت کربی جے پی نے پہلا جھٹکا اپوزیشن کو دے دیا اورصدارتی انتخاب کیلئے اپنی پوزیشن مضبوط کرلی، لیکن اعدادوشمار کے کھیل میں جو کسر رہ گئی ہے ،اس سے اپوزیشن پارٹیوں کو امید ہے کہ وہ بھی کچھ کرسکتی ہیں ۔ صدارتی انتخاب کا اعلان 9جو ن کو ہوگیاجس کے مطابق 18جولائی کو ووٹنگ اور 21جولائی کو گنتی ہوگی۔ اعلان سے پہلے نہ تو حکمراں اتحاد میں اورنہ اپوزیشن میں اس کیلئے ہلچل یا سرگرمیاں نظر آرہی تھیں۔ حالانکہ اندرون خانہ ملاقاتوں اوربات چیت کی خبریں آرہی تھیں ،لیکن جیسے ہی راجیہ سبھا کے انتخابات مکمل ہوئے ، سب سے پہلے کھل کر سرگرمیوں کا اعلان مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کی طرف سے کیا گیا۔ انہوں نے لابنگ کیلئے 22 اپوزیشن لیڈروں کو مکتوب بھیج کر 15جو ن کو ایک میٹنگ نئی دہلی میں بلائی، تاکہ مستقبل کے لائحہ عمل پر غوروخوض کے بعدمشترکہ حکمت عملی تیار کی جاسکے، لیکن ممتا کی کوششوں کو پہلاجھٹکا کمیونسٹ پارٹیوں کی طرف سے لگا جو ماضی میں ترنمول کانگریس کی سب سے بڑی حریف ہواکرتی تھیں اورمغربی بنگال میں پارٹی نے بایاں محاذ کا قلعہ منہدم کرکے اقتدارپر قبضہ کیا ہے ۔
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ کی کوششوں کاکیا نتیجہ برآمد ہوگا ، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال سی پی آئی (ایم) کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے اسے یکطرفہ بتاکر یہاں تک کہہ دیا کہ ایسی یکطرفہ کارروائی کاالٹااثرپڑے گا اوراپوزیشن اتحاد کو نقصان پہنچے گا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عام طور پر ایسی میٹنگیں صلاح ومشورہ کے بعد کی جاتی ہیں۔ سی پی آئی کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ نے بھی کہاہے کہ صلاح ومشورے کے بغیر ایسی میٹنگ بلانا ٹھیک نہیں ہے۔حالات سیکولر قوتوں کے اتحاد کا تقاضاکرتے ہیں۔ اس لئے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہئے جس سے غلط فہمی پیدا ہو۔ادھر شیوسیناکے لیڈرسنجے رائوت نے کہا ہے کہ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ادھوٹھاکرے میٹنگ میں حصہ نہیں لیں گے ۔حالانکہ انہوں نے ممتابنرجی کی کوششوں پرسوال نہیں اٹھایابلکہ کہا ہے کہ اس دن مسٹرٹھاکرے اجودھیا میں ہوں گے ، اوران کی جگہ پارٹی کے دوسرے لیڈرمیٹنگ میں شریک ہوں گے ۔البتہ کانگریس کی طرف سے حوصلہ افزاردعمل سامنے آیا ، پارٹی کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا کا کہنا ہے کہ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے صدارتی الیکشن پر این سی پی کے لیڈر شردپوار،مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی اوردیگر اپوزیشن لیڈران سے بات چیت کی ہے ، اب کورونا پازیٹو ہونے کے بعد آگے کی بات چیت کی ذمہ داری ملکا ارجن کھڑگے کو سونپ دی ہے۔ کل ملاکر دیکھا جائے تو بھلے ہی اپنے طور پر ممتابنرجی صدارتی انتخاب کیلئے اپوزیشن اتحاد کیلئے کوشاں ہیں لیکن ان کی کوششوں میں نہ تو اپوزیشن پارٹیوں کی زیادہ دلچسپی نظرآرہی ہے اورنہ وہ زیادہ اہمیت دے رہی ہیں ۔ تبھی تو 22میں سے صرف 4پارٹیوں کی طرف سے مثبت یا منفی ردعمل سامنے آیا ہے ، باقی خاموش ہیں ۔
دوسری طرف بی جے پی کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ الیکٹورل کالج کے زیادہ سے زیادہ ووٹ اپنے امیدوارکے حق میں کرسکے۔اس نے پارٹی صدر جے پی نڈا اور وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کو امیدوار کے تعلق سے سبھی سے بات چیت کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔2017کے صدارتی انتخابات میںبھی بی جے پی نے ایسا گیم کھیلا تھا کہ اس کے امیدوار رام ناتھ کووند کو تقریبا 65فیصدووٹ مل گئے تھے۔اس بار بھی وہ اعدادوشمار کی کسر پوری کرنے کیلئے اپوزیشن کو جوڑنے اورایسا امیدوار کھڑاکرنے کی کوشش کرے گی ، جس کی مخالفت کرنا سبھی اپوزیشن پارٹیوں کیلئے آسان نہیں ہوگا ۔ راجیہ سبھا انتخابات میں بی جے پی جس طرح زیادہ تراپنے امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کرانے اور راجستھان کو چھوڑ کر ہریانہ، کرناٹک اورمہاراشٹر میں کراس ووٹنگ کے ذریعہ انہیں کامیاب بنانے میں کامیاب رہی، صدارتی انتخاب میںبھی وہ بہت کچھ کرسکتی ہے ۔یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپوزیشن کے لئے راہ مشکل ہے تو بی جے پی کیلئے بھی آسان نہیں ہے۔ امیدوارکے نام سامنے آنے پر تصویر واضح ہوسکتی ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS