کرناٹک کے عوام کی امیدوں پر اترنا بڑا چیلنج

0

کرناٹک میں وزیراعلیٰ کے عہدے کو لے کر کانگریس پارٹی میں تادم تحریر تجسس برقرار ہے اور سابق وزیراعلیٰ سدھا رمیا اور ریاستی کانگریس کے صدر ڈی کے شیو کمار نے ابھی تک کوئی مفاہمت نہیں ہوپائی ہے۔ مختلف تجزیہ نگار کرناٹک کے نتائج پر اپنی اپنی رائے پیش کررہے ہیں اور بڑے طبقہ کی رائے ہے کہ بی جے پی نے مقامی قیادت کو نظرانداز کرکے غلطی کی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو مقامی قیادت کو ہی آگے رکھ کر الیکشن لڑنا چاہیے تھا۔ مگر کرناٹک میں بی جے پی کی مختلف لیڈروں نے شدید اختلاف تھے اورانہیں اختلاف کی وجہ سے یدورپا کو ہٹا کر بسو راج بومئی کو وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا۔ بی جے پی چاہتی تھی کہ کانگریس اور جنتا دل اتحاد کو اقتدار سے باہر کرنے کے بعد یدورپا کے دور اقتدار میں جو بدنظمیاں یا یدورپا پر جو کرپشن کے الزامات لگے ہیں ان سے دامن چھڑانے کا راستہ یہی تھا کہ الیکشن سے کچھ ماہ قبل اقتدار میں تبدیل کردی جائے۔
بی جے پی یہ فارمولہ کئی ریاستوں جیسا کہ منی پور، گجرات وغیرہ میں استعمال کرچکی تھی۔ منی پور، گجرات وغیرہ۔ ان ریاستوں میں اینٹی کمبنسی کو ختم کرنے کے لیے یہ حربہ استعمال کیا گیا تھا۔ مگر کرناٹک میں یہ فارمولہ کام نہیں آسکا۔ کیونکہ بومئی سرکار میں کرپشن ، بدنظمی اس قدر عروج پر پہنچ گئی کہ اس سے دامن چھٹانا مشکل ہوگیا۔ اس کے علاوہ مختلف طبقات اور سیاسی طاقت رکھنے والی ذاتیں بھی بی جے پی کے رویے سے ناراض ہوگئیں اور اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اگرچہ بی جے پی چاہتی تھی کہ فرقہ وارانہ جذبات کو ہوا دے کر حجاب، حلال، یکساں سول کوڈ جیسے ایشوز کو اچھال کر وہ اینٹی کمبنسی اور کرپشن کے خلاف الزامات کو دبا دے مگر ایسا نہیں ہوا اور وزیراعظم کی بھر پور کوشش اور طاقت کے باوجود بی جے پی کو زبردست اور شرمناک شکست سے دوچار ہونا مگر گزشتہ 4سال کی اتھل پتھل کرپشن اور سماجی بدامنی کے بعد جب آج کانگریس ایک شاندار جیت کے ساتھ برسراقتدار آئی ہے تو یہ ذمہ داری اب کانگریس پر عائد ہوتی ہے کہ وہ کس طرح اس ریاست کو اقتصادی طور پر مضبوط بنائے جو مذکورہ بالا وجوہات سے اقتصادی طور پر کمزور ہوگئی ہے۔ کرناٹک ہندوستان کی ان ریاستوں میں شامل ہے جہاں کی ٹیکنالوجیکل ترقی ، بہت زیادہ ہوئی اور کرناٹک آئی آئی ٹی کی راجدھانی ہے۔ مختلف سیکٹرس میں کرناٹک کی حصولیابی غیرمعمولی رہی ہے۔ سماجی طور پر کرناٹک ایک خوشحال صوبہ رہا ہے مگر آج کے حالات بالکل دوسرے ہیں۔ ریاستی عوام نے جس شاندار کامیابی کے ساتھ کانگریس میں بھروسہ ظاہر کیا ہے اس سے پارٹی کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ کئی طبقات کا کہناہے کہ اس جیت نے مقامی قیادت کے ساتھ ساتھ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کا بہت اہم رول ہے۔ اس یاترا نے سماج کو زمینی سطح پر جوڑنے کی کوشش کی ہے اور فرقہ پرستوں کے سماج کو تقسیم کرنے کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ راہل گاندھی نے اپنی شخصیت اور لیڈر شپ کو تھوپے بغیر عوامی مسائل اور ان کے جذبات اور احساسات کو زیادہ اہمیت دی۔ جبکہ بی جے پی کی حکمت عملی اس سے بالکل مختلف تھی۔ بی جے پی نے مرکزی قیادت کو اہمیت دی اور مقامی قیادت کو نظرانداز کیا۔ جبکہ ریاست کا الیکشن کرناٹک کی موجودہ اقتصادی پسماندگی اور سماجی ایشوز پر لڑا گیا۔ یہی فارمولہ تھا جو کانگریس نے اپنا کر بی جے پی کو چاروں شانے چت کردیا۔ دراصل بی جے پی ایک طویل عرصے سے ریاست میں فرقہ وارانہ تقرقہ کو ہوا دے کر ریاست کے سیاسی منظر نامہ پر قبضہ کرنا چاہتی تھی۔ سب سے پہلے ہگلی کی عیدگاہ میں جھنڈا لہرانے کے معاملے کو اچھال کر ماحول پراگندہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر کرناٹک کی دور اندیش مسلم قیادت نے اس مسائلہ کو زیادہ پھیلنے نہیں دیا۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں کئی لیڈروں نے اس مرتبہ بھی مختلف مقامات پر جھنڈا لہرانے کے ایشوز کو اچھال کر اہم اور بنیادی ایشوز کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی تھی جس میں وہ ناکام ہوگئے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کرناٹک میں ہر اسمبلی انتخابات میں نئی سرکار برسراقتدار آتی ہے اور اس مرتبہ بھی یہی ہوا ہے مگر اس مرتبہ کے انتخابات میں اپوزیشن نے جو شاندار کامیابی حاصل کی ہے وہ غیر معمولی ہے اور اس کو اس نظریہ دیکھنا مناسب نہیں ہے۔ کانگریس کی کوشش یہ رہنی چاہیے وہ اپنے عمل سے عوام کی خواہشات کو پورا کرے اور ان وعدوں کو پورا کرے جو اس نے انتخابی مہم میں کیے تھے۔ ظاہر ہے کہ کانگریس پارٹی نے بی جے پی کے اس نظریے کی مخالفت کی تھی جس کے تحت یہ کہا جا رہا تھا کہ عوام کو مفت کی ریوڑیاں بانٹی جارہی ہیں اور ان کی عادت کو خراب کیا جا رہا ہے ۔ کانگریس نے یہ بیانیہ دیا وہ یہ تھا کہ جب سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کو اس قدر اختیارات اور مراعات دی جاسکتی ہیں تو عام آدمی کو ان کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں آنا کانا کیوں ظاہر کی جا رہی ہے۔ پرینکا گاندھی نے انتخابی مہم کے شروع سے ہی مفت مراعات کے معاملے کو اہمیت دی ہے۔ انہوںنے ہر خاندان کو بجلی کی مفت سپلائی ، خواتین کے لیے مفت بس کی سفر اور خاندان کی سربراہ خاتون کو نقدی دینے کا اعلان کرکے سماج کے بدحال اور غریب عوام کے مسائل کو حل کرنے کی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اس سال کئی ریاستو ںمیں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں اور کانگریس کرناٹک میں ایک ماڈل حکومت کو چلا کر دوسرے صوبوں کے عوام کو یہ باور کرا سکتی ہے کہ وہ کتنی جلدی اور کس حد تک عوام کی فلاح وبہبود کی کاموں کی ابتدا کرتی اور ان کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے اور یہی سب سے بڑا چیلنج ہے جس کو کامیابی کے ساتھ پورا کرکے کانگریس بی جے پی کا مقابلہ کرسکتی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS