مولانا عبدالحفیظ اسلامی
انسان جب اپنے خالق و مالک سے غافل ہوجاتا ہے اور اس غفلت کو دور کرنے کیلئے تشریف لانے والے انبیاء و مرسلین کی تعلیمات کو پس پشت ڈالدیتا ہے،جو اصل میں اسی مالک و آقا کی طرف سے مبعو ث کئے جاتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ لوگو تم ایک ’’مالک اور پروردگار عالم کے غلام ہولہٰذ اپنے آقا کی مرضیات کے عین مطابق اپنی زندگی کے شب و روزگزارو تو تمہارا آقا تم سے خوش ہوگا اور تمہیں انعام و اکرام سے نوازے گا، الغرض اس کے جواب میں دو طرح کے گروہ ہوجاتے ہیں۔ جن میں ایک ’’منکر‘‘ اور دوسرا ’’مسلم‘‘ اس طرح انبیاء و مرسلین کا ایک عظیم سلسلہ چلتا رہا اور اس کا خاتمہ حضرت محمد ؐ کی ذات گرامی بابرکت پر ہوا اور آپؐ نے بھی وہی چیز دنیا والوں کے سامنے پیش فرمائی جو بنیادی طور پر ایک ہی ہے یعنی اے لوگو تم اپنے مالک حقیقی کو پہنچانو اور اپنے خود ساختہ طرز حیات کو چھوڑ کر میرے بتائے جانے والے راستہ پر گامزن ہو جائو جس میں فائدہ ہی فائدہ ہے، اور فلاح و کامیابی کی اس سے بہتر اور دوسری چیز تمہارے لئے ہو ہی نہیں سکتی، میں یہ بات اپنی طرف سے تمہیں نہیں بتارہا ہوں بلکہ میرا رب جو تمہارا بھی رب ہے اور سارے جہاں کا رب ہے اس نے مجھے اپنا رسول بناکر تمہاری رہنمائی و رہبری کیلئے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے جس کا نام ’’دین اسلام ہے۔ اب اس دین اسلام پر انسان کو قائم رکھنے والی اولین جو چیز ہے وہ یہ کہ ’’اللہ تبارک و تعالیٰ کی یکتائی‘‘یعنی توحید باری تعالیٰ کا عقیدہ دوسری چیز رسالت اور تیسری چیز آخرت اس طرح توحید رسالت آخرت پر ایمان و یقین کے ساتھ انسان دائرے اسلام میں داخل و شامل ہوجاتاہے۔لیکن اس کے کچھ لازمی شرائط ہیں جو عملی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں جسے قرآن حکیم اعمال صالحات کے نام سے پیش کرتا ہے جس کے بغیر انسان کامیابی کی منزل کو پہنچ نہیں سکتا اس طرح ایمان و عمل صالح لازم و ملزوم ہے۔ اللہ پر ایمان لاکر اس کے عین مطابق عمل اختیار کرنے والوں کو قرآن حکیم اس طرح خوشخبری دیتا ہے۔(ترجمہ) اور اے پیغمبر جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور (اس کے مطابق ) اپنے عمل درست کرلیں انہیں خوشخبری دیجئے کہ ان کیلئے ایسے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوںگی۔
مذکورہ بالا آیت کریمہ سے اس بات کی نشاندہی ہورہی ہے کہ انسان اس وقت تک کامیاب و کامران نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ لائے اور اعمال صالحات اختیار نہ کرے۔ اس سلسلہ میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’عمل صالح وہ ہے جس میں چار چیزیں ہوں۔ علم، نیت، صبر اور اخلاص (مظہری ) اس طرح اب ہمارے سامنے یہ بات صاف طور پر روز روشن کی طرح آرہی ہے کہ جنت و درجات جنت کا حقیقی امیدوار و مستحق وہی انسان ہوسکتا ہے جو ایمان و عمل صالح سے متصف ہو۔
انسان کیلئے جتنی ضروری ہوا، پانی اور غذا ہے جس پر انسان کی زندگی کی عمارت قائم ہے اس سے کہیں زیادہ اس کے لئے ضروری چیز اسلامی زندگی اور اسلام پر قائم رہنا ہے اس لئے کہ اسلام خدائی دین رحمت ہے اور سارے انبیاء کا دین ہے لہٰذ اسے قبول کرتے ہوئے اس پر قائم ہوجانے میں ہی بھلائی رکھد ی گئی ہے اور اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور طریقہ اختیار کرنا اپنے آپ کو ہلاکت و بربادی میں ڈالدینا ہے۔ اس سلسہ میں ارشاد ربانی یوں ہوا، ترجمہ: (آل عمران 85) اب جو شخص بھی گھاٹے سے بچنا چاہتا ہو اور اللہ تعالیٰ کا تابع بن جانا چاہتا ہو اس کے لئے سوائے اسلام اور اسلامی طرز حیات کے کوئی اور راستہ ہی نہیں ہے آیت مذکورہ بالا میں یہی بات بتلائی گئی کہ ’’اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میںوہ ناکام و نامراد رہے گا‘‘۔ نبی مکرم آنحضور ؐنے ایک جنازہ کی نماز پڑھائی اور اس میں آپ ؐ نے یہ دعا فرمائی جو اسلام کی زندگی اور ایمان کی موت کی اہمیت کو واضح کرتی ہے جس کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ اس دعا کے آخر حصہ کو یہاں نقل کیا جاتا ہے جو کہ مضمون کا اصل عنوان ہے۔
ترجمہ ’’اے اللہ! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھے،اسے اسلام پر زندہ رکھ اور جس کو موت دے اسے ایمان پر موت دے۔
نبی کریم ؐکی مذکورہ بالا دعا پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک جامع دعا ہے جو آپؐ نے فرمائی ہے حقیقت بھی یہی ہے کہ بندہ مومن ومسلم کی یہی شان ہے کہ وہ مرتے دم تک اللہ کی فرماں برداری اور وفاداری پر قائم رہے قرآن حکیم بھی اسی بات کی طرف متوجہ کرتا ہے، فرمان حق تعالیٰ یوں ہوا: (ترجمہ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ اب ایک سوال ابھر کر سامنے آتا ہے کہ ایک ایمان والا ہے اور اس کا خاتمہ خیر نہ ہو ؟کیا یہ ممکن ہے؟
ہاں یہ بات ممکن ہے جب ہی تو قرآن میں اس بات کی تاکید آئی ہے کہ اللہ سے ڈر کر زندگی بسر کرو پورے اخلاص کے ساتھ اور اس بات پر خبردار کیا جارہا ہے کہ مرتے دم تک مسلمانیت کا حق ادا کرتے رہنا اور نبی محترم و مکرم ؐ بھی ہمارے لئے یہی دعائیہ کلمات کو چھوڑا ہے جس میں اللہ سے یہ التجا کی جاتی ہے کہ اے اللہ ہماری پوری زندگی اسلام کے تقاضوں کے عین مطابق گزر جائے اور ہمارا خاتمہ ایمان کی حالت میں ہو۔ اصل میںہوتا یہ ہے کہ ایک آدمی اپنی زندگی خدا و رسول کی اتباع و پیروی میں گزارتا ہے لیکن شیطان جو انسان کا کھلا دشمن ہے اس بات کی کوشیش کرتا ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کو راہ حق سے بھٹکا کر ایمان اور عمل صالح کے منافی کام کرواکر کفر میں مبتلا کردے۔ مثلاً،مال کی محبت میں گرفتار ہوکر حلال و حرام میں تمیز نہ کرنا، اولاد کی محبت میں مبتلا ہوکر حق و انصاف سے پھر جانا، رشتہ داری و برادری کا لحاظ کرتے ہوئے عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دینا، تکبر و کبر نفس میں مبتلا ہوکر اپنی زبان سے ایسے کلمات ادا کرناجس سے فرعونیت ٹپکتی ہو، مرنے سے پہلے یا مرتے مرتے غلط قسم کی وصیت یا تاکید کرجانا جس سے حق داروں کا حق ضائع ہوکر رہ جائے۔موروثی جائیداد یا دیگر مال و متاع میں بہنوں بھائیوں کو محروم کردینایہ اور اس طرح کے دیگر چیزیں دراصل آدمی کیلئے ایمان کی ہلاکت و خسران آخر ت کا باعث بن جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں کسی شخص کو کسی معاملہ کی یکسوئی کیلئے دیندار بزرگ سمجھ کر بڑا بنالیا جاتا ہے یا کسی رقمی لین دین کے سلسلہ میں نزاع پیدا ہونے پر یا پھر کسی قضیہ کے موقع پر ’’حکم‘‘ (ثالث،پنچ،منصف) بنایا جاتا ہے تو ایسے موقع پر حق و ایمان کے ساتھ فیصلہ صادر کرنا اہل ایمان کی شان ہے ورنہ آدمی اگر اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے اور اپنی اولاد یا رشتہ دار کو فائدہ پہنچانے کیلئے ناحق فیصلہ کردے جبکہ وہ سبب قضیہ اور معاملہ کی گہرائی سے بخوبی واقف بھی ہوں،ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ نے فاسق کا نام دیا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے اس کی اطاعت کی حد سے نکل جاتا ہے، غرور نفس اور اپنی بزرگی کی دھاگ جماتے ہوئے حدود اللہ سے آگے نکل کر طبع ذات فیصلہ کردینا گویا کہ شیطان کے ہاتھ پر بیعت کرلینا ہے۔
جھوٹے مقدمات کذب بیانی اور ظالموں کی وکالت اور اس قبیل کی جتنی بھی برائیاں ہیں یہ سب کے سب آدمی کے اسلام اور ایمان کو بگاڑ دیتی ہیں جو لوگ اپنے مقدمات جو کہ جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں اپنے حق میں کروانے کیلئے قاضی، حکم، یا منصف کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح مقدمہ جیت جائیں اور جیت بھی جاتے ہیں خواہ جھوٹے دستاویز بناکر اور جھوٹی شہادت پیش کرتے ہوئے یا رشوت کے بل بوتے پر یا پھر اقتدار کا سہارا لے کر، ایسے لوگوں کو جان لینا چاہئے کہ دنیا کی چند روز کی زندگی کیلئے آخرت کی ابدی زندگی کو عذاب میں مبتلا کردینا بڑے گھاٹے کا سودا ہے اور یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ دنیا کی عدالتوں کے ختم ہونے کے بعد ایک عظیم عدالت قائم ہونے والی ہے جس میں شروع دنیاسے لے کر ختم دنیا تک جتنے بھی غلط فیصلہ دنیا میں ہوچکے ہوں گے اس میں مظلوموں کی دادرسی ہوگی اور ظالموں کو سزاء دی جائے گی وہاں پر نہ کوئی وکالت کرنے والے وکیل ہونگے اور نہ ہی کوئی جھوٹی شہادت چلے گی اور نہ ہی وہاں پر کوئی رشوت لینے والا ہوگا اور نہ ہی کسی کا اقتدار و دبدبہ چلے گا وہاں تو صرف اللہ کی عدالت ہوگی اور اس عدل کی کرسی پر مالک یوم الدین جلوہ افروز ہوگا اور حق کے ساتھ فیصلے صادر ہوتے چلے جائیں گے اور اس وقت دنیا کے سارے ظالم و جابر اور اللہ کے حقوق کی ادائیگی سے جی چرانے والے اور اس کے بندوں کے حقوق کو دبانے والے شرمندہ حالت میں ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اس لئے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے یہاں جو کچھ بویا جائے گا آخرت میں اسی مناسبت سے فصل کاٹنی پڑے گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کی آخرت کو تباہی میں ڈالنے والی چیز دنیا و لذات دنیا ہے جو نا جائز طور پر حاصل کی گئی ہے اس سے اجتناب کرنا دانشمندی ہے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دانا اور ہوشیار شخص اس آدمی کے بارے میں فرمایا جو اپنے نفس کو قابو میں رکھتے ہوئے موت کے بعد کام آنے والے اعمال اختیار کیا ہو۔ جو شخص آگ سے بچالیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہوگیا۔
الغرض اب جو شخص بھی توحید، رسالت، آخرت پر ایمان رکھے گا اور اس کے مطابق اعمال اختیار کرے گا اور خیرامت ہونے کے احساس کے ساتھ زندگی بسر کرے گا اور کلمہ حق کو بلند کرنے اور کلمہ کفر کو پست کرنے کیلئے جان و مال اس راہ میں لگائے گا وہ یقیناً اپنے آپ کو اس بات کا مستحق کرلیتا ہے کہ وہ جب تک دنیا میں رہے مسلمان بن کر رہے اور جب موت آئے ایمان کے ساتھ آئے گی۔ اس بڑی کامیابی کیلئے دنیا کے سامنے دو بڑی اہم چیزیں موجود ہیں وہ ہے اللہ کی کتاب (قرآن مجید) دوسرا سنت نبویؐ اس کے بغیر انسان راہ ہدایت پا نہیں سکتا اور اسے یہ معلوم ہی نہ ہوگا کہ وہ کون ہے کہاں سے آیا ہے وہ کس کا غلام ہے اور اس کا آقا کون ہے اسے کیاکچھ کرنا چاہئے اور کن چیزوں سے بچنا چاہئے، من چاہی زندگی گزارنے سے کیا نقصانات ہوں گے اور اپنے مالک حقیقی رب تعالیٰ کی مرضیات پر چلنے سے کیا فائدہ ہوگا اور کن انعام و اکرام سے نوازے جائیں گے۔ اسی کے پیش نظر حضرت سید عالم ؐ نے حج وداع کے موقع پر جو خطبات ارشاد فرمائے ہیں اس میں خاص طور پر یہ بات تاکید کے ساتھ ارشاد فرمائی کہ لوگو! میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم اسے مضبوطی کے ساتھ تھامیں رکھو گے کبھی گمراہ نہ ہو گے ایک اللہ کی کتاب دوسرا میری سنت۔ آپؐ کی اس تقریر پر عمل کرنے والے دنیا و آخرت میں کامیاب ہوکر رہتے ہیں اور قرون اولی میں اللہ تعالیٰ نے ایک کثیر جماعت صحابہ کو اس بات کی بشارت دے چکا کہ (رضی اللہ عنہ ورضو عنہ) کیونکہ یہ سعید روحوں جب تک دنیا میں رہیں مسلمانیت کا حق ادا کیا اور اللہ پر ایمان لانے کا حق ادا کرتے ہوئے رسول ؐ کی اطاعت کی اور اللہ و رسول سے والہانہ محبت رکھی اور ان کے حکم پر لبیک کہا اور اپنی جان و مال سب ان پر نچھاور کردی۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان نیک لوگوں کے راستے پر چلا جس پر تو نے انعام فرمایا ہے اور ان لوگوں کے راستے پر چلنے سے ہمیں بچالے جس پر تیرا غضب ہوا اور جو ناکام ہوکر رہے۔ آمین۔