عبد العزیز
’ایسے ملا کرو کہ لوگ آرزو کریں، ایسے رہا کرو کہ زمانہ مثال دے‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ہر طرح کی تعلیمات سے نوازا ہے جس میں آداب گفتگو بھی شامل ہے۔ حسن گفتگو اور نرم گفتگو کرنے پر اس وقت کچھ زیادہ زور دیا گیا ہے جب معاملہ اپنے والدین، رشتہ داروں، یتامیٰ، مساکین، مسافر اور معاشرہ کے کمزور ترین افراد سے ہو۔ طاقتوروں اور ظالموں سے بھی اکڑ کے بات کرنے سے منع کیا گیاہے بلکہ ان سے بھی نرم لب و لہجہ میں گفتگو کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’ماں باپ کے ساتھ، رشتے داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی بات کہنا ، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا۔ (آیت:83)
سورہ بنی اسرائیل میں اخلاق کی تعلیم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’اگر ان سے (یعنی حاجت مند رشتہ داروں ، مسکینوں اور مسافروں سے) تمہیں کترانا ہے، اس بنا پر کہ ابھی تم اللہ کی اس رحمت کے جس کے تم امیدوار ہو تلاش کررہے ہو، تو انہیں نرم جواب دو‘‘۔
سورہ بنی اسرائیل ہی میں والدین سے خاص طور سے نرم لب و لہجہ میں گفتگو کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس سے پہلے فضول خرچی سے سخت ممانعت کرتے ہوئے ’’فضول خرچ کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے‘‘۔
سورۃ نساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے ، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں ، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں۔ ایسے کافر نعمت لوگوں کیلئے ہم نے رسوا کن عذاب مہیا کررکھا ہے۔ اور وہ لوگ بھی اللہ کو ناپسند ہیں جو اپنے مال محض لوگوں کو دکھانے کیلئے خرچ کرتے ہیں اور در حقیقت نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ روز آخر پر۔ سچ یہ ہے کہ شیطان جس کا رفیق ہے اور اسے بہت ہی بری رفاقت میسر آئی۔
ان ہدایات کا منشا یہ ہے کہ آدمی اپنی کمائی اور اپنی دولت کو صرف اپنے لئے مخصوص نہ رکھے بلکہ اپنی ضروریات اعتدال کے ساتھ پوری کرنے کے بعد اپنے رشتہ داروں، اپنے ہمسایوں اور دوسرے حاجت مند لوگوں کے حقوق بھی ادا کرے۔ اجتماعی زندگی میں تعاون، ہمدردی اور حق شناسی و حق رسانی کی روح جاری و ساری ہو۔ ہر رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کا معاون، اور ہر مستطیع انسان اپنے پاس کے محتاج انسان کا مددگار ہو۔ ایک مسافر جس بستی میں بھی جائے، اپنے آپ کو مہمان نواز لوگوں کے درمیان پائے۔ معاشرے میں حق کا تصور اتنا وسیع ہو کہ ہر شخص ان سب انسانوں کے حقوق اپنی ذات پر اور اپنے مال پر محسوس کرے جن کے درمیان وہ رہتا ہو۔ ان کی خدمت کرے تو یہ سمجھتے ہوئے کرے کہ ان کا حق ادا کررہا ہے، نہ یہ کہ احسان کا بوجھ ان پر لاد رہا ہے۔ اگر کسی کی خدمت سے معذور ہو تو اس سے معافی مانگے اور خدا سے فضل طلب کرے تاکہ وہ بندگانِ خدا کی خدمت کرنے کے قابل ہو۔
منشورِ اسلامی کی یہ دفعات بھی صرف انفرادی اخلاق کی تعلیم ہی نہ تھیں بلکہ آگے چل کر مدینہ طیبہ کے معاشرے اور ریاست میں انہیں کی بنیاد پر صدقاتِ واجبہ اور صدقاتِ نافلہ کے احکام دیے گئے، وصیت اور وراثت اور وقف کے طریقے مقرر کئے گئے، یتیموں کے حقوق کی حفاظت کا انتظام کیا گیا، ہر بستی پر مسافر کا یہ حق قائم کیا گیا کہ کم از کم تین دن تک اس کی ضیافت کی جائے اور پھر اس کیساتھ ساتھ معاشرے کا اخلاقی نظام عملاً ایسا بنایا گیا کہ پورے اجتماعی ماحول میں فیاضی، ہمدردی اور تعاون کی روح جاری و ساری ہوگئی، حتیٰ کہ لوگ آپ ہی آپ قانونی حقوق کے ماسوا ان اخلاقی حقوق کو بھی سمجھنے اور ادا کرنے لگے جنہیں نہ قانون کے زور سے مانگا جاسکتا ہے نہ دلوایا جاسکتا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج:2 ، حاشیہ :28)
لوگوں سے بھلے طریقے سے بات کرو: اللہ تعالیٰ نے جو دین اپنے نبیوں کے ذریعے اور آخر میں حضرت محمد ؐ کے ذریعہ دنیا کے انسانوں کیلئے بھیجا ہے اصل کے لحاظ سے وہ بندگیٔ رب کا نام ہے اور نتیجے کے لحاظ سے سب کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور کمزوروں کے ساتھ ہمدردی کرنے کا نام ہے۔ جو لوگ دین کی اس روح کو اچھی طرح سمجھتے ہیں وہ ہر ایک کے ساتھ خواہ و کمزور ہو یا طاقت ور حسن سلوک کا معاملہ رکھتے ہیں سچے اور اچھے مسلمان ہیں۔ ایسے لوگ جو امیروں اور طاقتوروں سے تو اچھی طرح سے پیش آتے ہیں لیکن کمزوروں اور غریبوں کیساتھ ان کا سلوک اچھا نہیں ہوتا حقیقت میں وہ ایمان سے خالی ہوتے ہیں اور جس بندگیٔ رب کا وہ مظاہرہ کرتے ہیں اس کا کوئی نتیجہ ان کی زندگی اور کردار سے ظاہر نہیں ہوتا۔ دین کے ماننے اور اس پر چلنے کا اگر کوئی نتیجہ اچھا نہ ہو تو وہ دین اسلام نہیں ہوسکتا ہے وہ کوئی اور دین ہوسکتا ہے جسے اللہ نے نہیں بھیجا ہے۔ وہ یا تو انسانوں کا بنایا ہوا دین ہوگا یا شیطانوں کا طریقۂ زندگی۔ (اور لوگوں سے اچھی بات کہو)اس کا ایک عام مفہوم ہے جو اس کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ اس اعتبار سے نیکی اور شرافت اور پند و نصیحت کی ہر وہ بات اس کے تحت داخل ہوگی جس کی تعلیم و تبلیغ کی ہر موقع پر مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے۔ بعینہ یہ بات اسی سیاق و سباق میں تھوڑے سے الفاظ کے ردوبدل کے ساتھ ، قرآن مجید میں دوسرے مقامات میں بھی کہی گئی ہے۔ ان تمام آیتوں کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس سیاق و سباق میں یہاں یہ الفاظ وارد ہیں ان کا ایک خاص مفہوم بھی ہے جس سے قرآن کے ایک طالب علم کو بے خبر نہیں رہنا چاہئے۔
سورہ نساء میں یتیموں سے متعلق ان کی اولیاء کی بعض ذمہ داریوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے:’’اور تم نادان یتیموں کے حوالہ اپنے وہ مال نہ کرو جس کو اللہ نے تمہارے معاشی قیام و بقا کا وسیلہ بنایا ہے، البتہ تم اس مال سے ان کو فراغت کے ساتھ کھلاؤ اور پہناؤ اور معروف طریقہ پر ان کی دلداری کرتے رہو۔ ‘‘
اسی سورۃ نساء میں دوسری جگہ فرمایا :’’اور جب تقسیم کے موقع پر کنبہ کے لوگ اور یتیم اور مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی کچھ دو اور ان کے ساتھ بھلے مانسوں کی سی بات کرو۔ ‘‘
’’لوگوں کو اس بات کا خیال کرکے ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انہیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے۔ پس چاہئے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں۔ ‘‘
آگے اسی سورہ بقرہ میں ہے:’’جولوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں، اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے ، افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرکے پھر احسان نہیں جتاتے، نہ دکھ دیتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں۔ ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے، جس کے پیچھے دکھ ہو، اللہ بے نیاز اور برد باری اس کی صفت ہے۔‘‘قرآن مجید نے والدین، اقرباء، یتامیٰ، اور مساکین سے متعلق ایک طرف حسن سلوک اور ادائے حقوق کی تاکید کی ہے، دوسری طرف اس امر کی ہدایت کی ہے کہ ان کے ساتھ بات شریفانہ انداز میں کی جائے۔ ان کے خلاف دل میں برہمی ہو تو اس کو ضبط کیا جائے اور ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے در گزر کی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس اخلاق کے بغیر کوئی شخص ان کے حقوق و فرائض سے کما حقہ عہدہ بر آ نہیں ہوسکتا۔ بسا اوقات آدمی ان کی حالت کی کمزوری کی بنا پر ان کی عزت نفس ملحوظ رکھنے میں کوتاہی کرجاتا ہے جس سے ان کے مجروح دل اور زیادہ زخمی ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات آدمی کے دل میں ان کے خلاف کوئی رنجش ہوتی ہے جو ان کو مجبوراً اور بے بس پاکر زیادہ کرخت انداز میں ظاہر ہوتی ہے۔ بعض حالات میں خود ان ضرورت مندوں کا رویہ بھی کچھ ناگوار سی صورت اختیار کرلیتا ہے اور یہ چیز بھی آدمی کیلئے ترش کلامی کا باعث بن جاتی ہے۔ قرآن نے ان تمام چیزوں سے روک کر ان سے اچھے انداز میں بات کرنے کی ہدایت کی ہے اور تسلی و تسکین کے ایک کلمہ کو اس خیرات سے بھی بہتر قرار دیا ہے جس کے ساتھ تلخ کلامی، توہین اور دل آزاری شامل ہو۔
حضور کی سیرت ان آیتوں کی ترجمانی پورے طور پر کرتی ہے۔ آپؐ لوگوں سے مسکراتے ہوئے ملتے تھے یہاں تک کہ اپنے دشمنوں سے نرم گفتگو اور اچھا سلوک کرتے تھے۔ آپ نے مسکرانے کو جو کسی کی دل نوازی کیلئے ہو صدقہ قرار دیا ہے۔ ان تمام باتوں اور ہدایتوں کے باوجود مسلم معاشرہ حسن گفتگو ، سلیقہ مندی سے آخر کیوں محروم ہے ؟ اس کے برعکس اغیار جنہوں نے قرآن کا مطالعہ نہیں کیا ہے اور رسول اکرم ؐ کی سیرت سے بخوبی واقف نہیں ہیں ان کے معاشرے میں حسن گفتگو اور حسن اخلاق کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اغیار مسلمانوں کے بارے میں عام طور پر یہ احساس رکھتے ہیں کہ مسلمان غیر مہذب (Uncultured) ، غیر شائستہ (Uncivilised) ہوتے ہیں۔ قرآن و حدیث سے ظاہر ہے کہ ان انسانوں کو بھی انسان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جو ان کے کچھ کام آتے ہیں، یا تحفہ و تحائف دیتے ہیں۔ شکریہ یا آپ کا شکریہ ( Thank You ) کا چلن غیروں میں زیادہ ہے اور غیروں کے معاشرے میں یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بزرگوں اور بڑوں کو چچا (Uncle) یا چچی (Aunt) جیسے الفاظ سے خطاب کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔
یہ اگرچہ بہت معمولی سی چیز نظر آتی ہے لیکن یہ کسی گھر یا کسی معاشرے کیلئے آئینہ ہے اور گھر کے بچے مہذب ہوں اور معاشرے میں بچے تہذیب یافتہ نظر آئیں تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس گھر کی یا اس معاشرے کی تہذیب اور شائستگی قابل قدر ہے۔
بہت دن نہیں ہوئے چند دنوں پہلے کی بات ہے کہ راقم ایک سیلون (Saloon) میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہاں ایک شخص اور اس کی بیوی اپنے بچے کے ساتھ موجود ہیں۔ بچے اور بچے کے باپ جب اپنی حجامت سے فارغ ہوئے تو پیسہ دیتے ہوئے حجام (Barber) کا شکریہ ادا کیا اور دکان کے کاریگروں کو بخشش سے بھی نوازا۔ مجھے ایسا احساس ہوا کہ یہ شخص عیسائی (Christian) ہوگا لیکن جب میں نے دکاندار سے پوچھا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ دکاندار نے بتایا کہ نہیں یہ پنجابی فیملی ہے۔ آج جب پنجابیوں میں اس طرح کی تہذیب دیکھتا ہوں اور اپنے بھائیوں پر نظر پڑتی ہے تو سمجھ میں یہ آتا ہے کہ دوسری قومیں اچھی چیزوں کی نقل (Copy) کررہی ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ نہ تو ہم اچھی چیزوں کی نقل کررہے ہیں اور نہ ہی جو ہمارے یہاں سب سے اچھی چیزیں اور سب سے اچھی ہدایتیں دی گئی ہیں اس پر چلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا ؟
اللہ کی راہیں اب تک ہیں کھلیں، آثار و نشاں سب قائم ہیں
اللہ کے بندوں نے لیکن اس راہ پر چلنا چھوڑ دیا