بھکمری کے شکار ملکوں کی فہرست اور ہندوستان

0

ایم اے کنول جعفری
دُنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہندوستان کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں شامل 121ممالک میں 107ویں مقام پر ہونے کے علاوہ پڑوسی ممالک سے بھی کہیں پیچھے رہنے کو کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس درجہ بندی کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہمارے بعد سب سے خراب صورت حال والے صرف14 ممالک ہیں۔عالمی بھوک فہرستGlobal hungris Index میں سری لنکاکا مقام 64واںہے،جو بھارت کے مقابلے بہتر ہے ۔ دیگر پڑوسی ممالک میں نیپال81ویں، بنگلہ دیش 84 ویں اورحریف ملک پاکستان 99ویں مقام پر ہے۔افغانستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے،جس کی حالت بھارت سے خراب ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں افغانستان 109ویں پائیدان پر ہے۔ 2021 میں 116ممالک میں ہندوستان 101 ویں مقام پر تھا،جو اب چھ پوائنٹ کھسک کر مزید نیچے آ گیا ہے ۔ 2020میں ہندوستان 107ممالک میں 94 ویں پائیدان پر تھا ۔2019میں117ممالک میں 102 ویں ، 2018 میں119ممالک میں 103 ویں،2017 میں 100ویں، 2016 میں 97ویں،2015میں 80ویں، 2014 میں 55 ویں، 2013میں 63ویں، 2012میں 65 ویں اور 2011 میں 67ویں مقام پر تھا۔حکومت ہند نے گزشتہ برس بھی گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کی درجہ بندی کو لے کر کافی نکتہ چینی کی تھی۔ اس برس بھی رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے غیر یقینی اور ہندوستان کو بدنام کرنے والا قرار دیا۔
دنیا بھر کی صورت حال اور تبدیل ہوتے حالات پر نزدیک سے نگاہ رکھنے والے مختلف ادارے ہیں جو سال بھر تک غربت، بھوک اور لوگوں کو دستیاب ہونے والی خوراک کی بنیاد پر کام کرتے ہوئے اپنی رپورٹ تیار کرتے ہیں۔گلوبل ہنگر انڈیکس آئرلینڈ کی غیر سرکاری ایجنسی ’کنسرن ورلڈ وائیڈ‘ اور جرمنی کی غیر سرکاری تنظیم’ویلٹ ہنگر ہلف‘ کے ذریعہ مشترکہ طور پر کام کرنے والا ایسا ہی ایک ادارہ ہے۔ اس کے ذریعہ بھوک کے خلاف جدوجہد کے بارے میں انسانی بیداری اور فہم و فراست کو فروغ دینے،دیگر ممالک کے درمیان بھوک کی سطح کا موازنہ کرنے اور وسیع پیمانے پر بھکمری سے متاثر کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کا کام کیا جاتا ہے۔اس میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ملک میں کتنی آبادی مناسب خوراک دستیاب نہیں ہونے کی وجہ سے غذائی قلت کا شکار ہے؟اس کی تفصیلات میں جہاں یہ بات شامل ہے کہ پانچ برس سے کم عمروالے بچوں کا قد اور وزن ان کی عمر کے حساب سے کتنا کم ہے؟وہیں بچوں کی اموات کی شرح کو بھی درج کیا جاتا ہے۔یہ ادارہ ہر سال اکتوبر کے مہینے میں اپنی رپورٹ جاری کرتا ہے۔ رپورٹ کی بنیاد پر یہ دیکھا اورپرکھا جاتا ہے کہ کن ممالک میں گزشتہ ایک برس میں لوگوں کے حالات پہلے کے مقابلے بہتر ہوئے ہیں اور کن ممالک میں حالات مزید ابتر ہوئے ہیں۔ اس سال کی جاری رپورٹ کے مطابق فہرست میں ہندوستان کا اسکور 29.1 ہے ،جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہندوستان میں بھوک کی سطح’تشویش ناک‘ کے زمرے میں ہے۔ انڈیکس کے پیمانے میںغذائی قلت،بچوں کی اموات کی شرح اور عمر کے حساب سے وزن و لمبائی میں کمی کو شامل کیا جاتا ہے۔2022 کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں یمن سب سے نچلے121ویں پائیدان پر ہے۔ عالمی بھوک فہرست میں سب سے اُوپر رہنے والے10ممالک میں بالترتیب بیلاروس، بوسنیا اینڈ ہرزے گوونا،چلی، چین، کروایشیاء، ایسٹونیا، ہنگری، کویت،لاتویا اور لتھو نیا شامل ہیں۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں مجموعی طور پر 100 پوائنٹ کا اسٹینڈرڈ اسکور ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر کسی ملک میں بھوک کی شدت کی کیفیت اور سنگینی کو درج کیا جاتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں اگر کسی ملک کا پوائنٹ صفر ہے تو اُس کی صورت حال سب سے اچھی ہے اور اگر کسی ملک کا اسکور 100 ہے تو وہ بہت بری پوزیشن میں ہے۔ اس میں9.9 سے کم پوائنٹ کو’کم‘تسلیم کیا جاتا ہے۔ 10سے 19.9پوائنٹ کو’اوسط‘، 20سے 34.9کو’ تشویش ناک‘ اور 35سے 49.9 تک کو’خطرناک‘ اور50سے اُوپر کی اسکورنگ کو’انتہائی خطرناک‘کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔
اس بنیاد پر پانچ سے کم پوائنٹ اسکور کرنے والے17سر فہرست ممالک میںبیلاروس، چین، ترکی، کویت، یوراگوئے اور چلی وغیرہ شامل ہیں۔ مسلم اکثریت والے ممالک میں متحدہ عرب امارات 18ویں ، ازبکستان21ویں، قزاقستان24ویں، تیونس26ویں، ایران29ویں،سعودی عرب 30 ویں پائیدان پر ہیں۔ ہندوستان کا اسکور پچھلے کئی برسوں سے نیچے جا رہا ہے۔2000میں38.8 پوائنٹ ہونے کے سبب بھارت ’خطرناک‘ زمرے میں شامل تھا۔ 2014 تک آتے آتے یہ اسکور کم ہوکر 28.2 رہ گیا،لیکن اس کے بعد سے اس میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔2022میں یہ اسکور 29.1ہے۔ پانچ برس سے کم عمر کے بچوں میں غذائیت کی کمی کے معاملے 19.3فیصد پائے گئے،جو 2014 میں 15.1فیصد تھے۔ غذائی قلت کے یہ معاملے قابل تشویش ہیں۔آبادی میں غذائی قلت کے شکار لوگوں کا تناسب 16.3ہے۔2014میں یہ تناسب14.8تھا، جو اب16.3 ہو گیا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں قریب82.8کروڑ افراد کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ان میں 22.4 کروڑ لوگ آبادی کے لحاظ سے دوسرے سب سے بڑے ملک بھارت میں ہیں۔ دوسری جانب بچوں کے نشو نما یا قد چھوٹا رہنے سے متعلق پیمانہ38.7 فیصدتھا، جواب35.5 فیصد پر آ گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بچوں کی اموات کی شرح میں بھی کمی درج کی گئی۔یہ شرح 4.6فیصد سے کم ہو کر3.3فیصد پر آگئی۔ گلوبل ہنگر انڈیکس کی رپورٹ سامنے آنے کے ساتھ ہی مرکزکی مودی حکومت حزب اختلاف جماعتوں کے نشانے پر آگئی۔سابق مرکزی وزیر خزانہ اور کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ،’وزیر اعظم نریندر مودی غذائی قلت، بھوک مری اور بونا پن جیسے حقیقی مسائل پر کب بات کریں گے؟ ہندوستان میں 22.4 کروڑ افراد کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔‘ سی پی ایم رہنما اور کیرالہ کے سابق وزیر خزانہ تھامس آئزک نے حکومت ہند کی سخت الفاظ میں نکتہ چینی کی۔سی پی ایم لیڈر سیتا رام یچوری نے مودی حکومت پرزبردست تنقید کرتے ہوئے اسے ہندوستان کے لیے تباہ کن قرار دیا۔ راشٹریہ جنتا دل کے رہنما اور بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو نے اپنے ٹویٹ میں کہا،’امرت کا بھوکال: گلوبل ہنگر انڈیکس 2022میں سوڈان، روانڈا، نیپال، بنگلہ دیش،سری لنکا ، پاکستان نے ہندوستان کو شکست دے کر بہتر مقام حاصل کیا۔121ممالک کی فہرست میں ہندوستان 107 واں مقام پرہے۔شرمناک!‘
غورطلب یہ ہے کہ اگر گلوبل ہنگر انڈیکس کی رپورٹ صحیح اورقابل اعتماد ہے،تویہ ہندوستان کے لیے بہت زیادہ تشویش کی بات ہے۔ بھارت سرکار نے گلوبل ہنگر انڈیکس کی رپورٹ کومسترد کرتے ہوئے کہا کہ گلوبل ہنگر انڈیکس کے چار میں سے تین پیمانوں کا تعلق بچوں کی صحت سے ہے ۔ ایسی صورت میں یہ فہرست پورے ملک کے لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتی۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس رپورٹ کو تیار کرنے میں خوراک اور زراعت تنظیم کے نقطۂ آغاز(Data) کا استعمال کیاجاتا ہے۔ چوں کہ سروے میں صرف3,000لوگوں کے نمونوں کے ساتھ آٹھ سوالات پر مبنی ان کی رائے کے اعدادوشمار جمع کئے جاتے ہیں،اس لیے اسے پورے ملک کے نتیجے کے طور پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ عالمی بھوک فہرست کی رپورٹ میں بچوں کو حاصل ہونے والی غذائی خوراک اور ان کی صحت کی بات کی جاتی ہے،جبکہ پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کی صحت کا سیدھا تعلق زچہ اور دودھ پلانے والی ماں کو ملنے والے غذائی خوراک اور اس کی صحت کے ساتھ منسلک ہوتا ہے۔چوں کہ غذائی عدم تحفظ تجرباتی پیمانہ(Food insecurity experience scale) پر پیمائش نقشہ کے ڈاٹاز زمینی تحقیقات کی بجائے اعدادوشمار کے تجزیہ سے نکالے جاتے ہیں،اس لیے یہ ڈاٹا پوری طرح قابل اعتبار نہیں مانے جا سکتے ۔ قابل غور یہ بھی ہے کہ فہرست تیار کرنے کے لیے غذائیت یاکم خوراک(Under nourishment) کا جو ڈاٹا خوراک اور زرعی تنظیم (Food and agricultural organization سے لیا گیا ہے، وہ اقوام متحدہ کا خصوصی ادارہ ہے۔یہ دنیا بھر سے بھوک کو ختم کرنے اور غذائی وخوراک کے تحفظ میں بہتری کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو فروغ دیتاہے۔ یہ ادارہ ہر برس عالمی تحفظ خوراک اور غذائی صورت حال(The state of food security and nutrition in the world) نام سے رپورٹ جاری کرتا ہے۔ 2019-2021کے اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں بھوک کی شرح16.3فیصد ہے ۔ انھیں اعدادوشمار کو عالمی بھوک فہرست کا حساب لگاتے وقت استعمال کیا گیا ۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں بھی غذائی قلت آبادی کی تعداد 15.3 فیصد بتائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ 2017-21 کے درمیان عمر کے حساب سے کم وزن والے بچوں کی تعداد پانچ برس سے کم عمر کے کل بچوں کا19.3فیصد ہے۔ان دونوں پیمانوں کی بنا پر ہندوستان کی کارکردگی خراب ہے،جبکہ عمر کے حساب سے لمبائی اور بچوں کی شرح اموات میں ہندوستان کی کارکردگی بہتر ہے۔
مرکزی حکومت کی یہ کوشش رہی ہے کہ غریب اور پسماندہ طبقے کے افراد کو خوراک ملتی رہے اور غذائی قلت سے کسی فرد کی موت واقع نہ ہو۔ کورونا وائرس سے پیدا حالات کے مدنظر 26 مارچ 2020 کو’ پردھان منتری غریب کلیان اَنّ یوجنا‘ کی شروعات کی گئی۔اس سے 80کروڑ افراد مستفید ہو رہے ہیں۔کووِڈ19- کے بعد سے چھ سال تک کے قریب 7.71کروڑ بچوں اور1.78کروڑ حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کو اضافی غذائیت فراہم کی گئی ہے۔اس کے باوجودگلوبل ہنگر انڈیکس میں بھارت کی صورت حال گزشتہ برس کے مقابلے زیادہ خراب درج کی گئی ہے؟سب سے زیادہ حیرت میں ڈالنے والی بات یہ ہے کہ جس بدحال سری لنکا کے اقتصادی حالات بہتربنانے میں بھارت نے اقتصادی تعاون کیا،اس کی کارکردگی ہندوستان سے 43 پوائنٹ بہتر دکھائی گئی ہے! یہ فرق کافی بڑا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اور نیپال کی اقتصادی صورت حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ملک کی حکمراں جماعت کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ ٹاپ30ممالک میں جگہ بنانے میں ناکام بنگلہ دیش، ٹاپ 40 ممالک میں مقام حاصل کرنے میں ناکام پاکستان اور ٹاپ 100 ممالک میں جگہ پانے میں ناکام نیپال دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہندوستان سے بہتر رینک پانے میں کس طرح کامیاب ہو گئے؟دوسری جانب اقوام متحدہ نے متنبہ کیا کہ عالمی تنازعات، موسمیاتی تبدیلی اور کورونا وائرس سے پیدا حالات کی بنا پربڑھے غذائی بحران سے عالمی سطح پر کئی مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ 45 ممالک میں تقریباً پانچ کروڑ افراد قحط کی دہلیز پر ہیں۔ 80 کروڑ سے زائد لوگ ہر رات بھوکے سوتے ہیں۔8.1 کروڑافراد خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہیں اور1.6کروڑ لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی نہیں ہے۔ان حالات سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کئے جانے کی ضرورت ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS