زنگی ایک فلسفہ ہے جسکو سمجھنے اور سمجھانے کےلئے لوگوں نے اپنی زندگیاں کھپا دی، کچھ تو وہ لوگ ہیں جنکے نزدیک زندگی کا فلسفہ قرآن کے الفاظ میں اس طرح ہے: دنیاوی زندگی بس اسی کا نام ہے، کہ زندہ رہیں اور مرجائیں، اور مرنا بھی حکم الٰہی سے نہیں بلکہ گردش زمانہ کی موت مرنا ہے۔(سورہ الجاثیہ 24)۔
ایسے لوگ ‘دہریہ’ کہلاتے ہیں، انکے نزدیک اللہ و رسول، دین و مذہب کا درجہ نہیں ہوتا، انکے نزدیک کائنات کا ہر عمل اور موت و زندگی کی ہر حرکت حالات و زمانہ کی مرہون منت ہے، جب تک یہ زمانہ ہے تب تک کائنات کی یہ رنگا رنگی اور بھاگ دوڑ باقی ہے، پھر جب یہ زمانہ ختم ہو جائے گا تو ہر چیز اپنے آپ فنا ہو جائے گی۔
اور بعض لوگ زندگی کا فلسفہ معدہ اور پیٹ بتلاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ زنگی کی یہ روانی اور بھاگ دوڑ صرف اس وجہ سے ہے کہ انسان اور اسکے اہل و عیال کو کھانے کے دو لقمے اور روٹی کے دو ٹکڑے مل جائیں۔
ایسے لوگ کمائی کے سلسلے میں خود کو آزاد اور خودمختار سمجھتے ہیں، حلال و حرام، جائز و ناجائز کو پس پشت رکھتے ہیں۔
قارئین: اسلام ایک دین حق ہے، قانون فطرت ہے، زندگی کا کامل و مکمل دستور ہے، زندگی سے متعلق اسلام کا نقطۂ نظر مذکورہ بالا دونوں فلسفوں سے بالکل مختلف ہے۔
اسلام کے فلسفۂ زندگی میں جمود و تعطل، سستی اور کاہلی کا سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے، کیونکہ اسلام کے نزدیک زندگی نام ہے بندگی کا، فرمانبرداری کا جیساکہ فرمان باری ہے:
میں نے تمام انسان اور جنات کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ (سورہ ذاریات 56)۔
اور بندگی و عبادت ، سستی و کاہلی کے مخالف ہے، کیونکہ جب تک انسان سستی اور کاہلی میں رہے گا تب تک عبادت و ریاضت نہیں کرپائے گا، عبادت و بندگی کرنے کے لئے جمود و تعطل کو ختم کرنا ہوگا، سستی اور کاہلی سے نکلنا ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ عبادت ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ کیونکہ بہت سے لوگوں نے عبادت کے دائرے کو محدود کردیا ہے، اور کہتے ہیں صرف نماز روزہ حج زکوٰۃ وغیرہ ہی عبادت ہی، دنیاوی معاملات میں اسکی کوئی گنجائش نہیں، یعنی کہ دنیاوی امور میں عبادت کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﮐﻮﻧﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﺷﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺑﻠﮑﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺩﮬﻨﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺲ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﻮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﮐﺮ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮨﮯ۔
اسکے علاوہ اللہ نے ہمیں اپنا خلیفہ بھی بنایا ہے جیسا کہ فرمان باری ہے:
اور جب تیرے رب نے فرشتوں کو کہا کہ میں زمین میں خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں۔ (سورہ بقرہ 30).
معلوم ہوا کہ ہمیں اللہ کی عبادت بھی کرنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ خلافت بھی کرنا ہے۔
یعنی کہ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﯽ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ بیٹھنا ہےلیکن ﻭﮨﺎﮞ ﯾﺎﺩ ﺭکھنا ہے ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﺎ ﺧﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﮦ ﮨﻮﮞ۔
ﺯﻣﯿﻦ ﮐﮯ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﺾ ﻭ ﻣﺘﺼﺮﻑ ﮨﻮنا ہے لیکن یہ بھی ﯾﺎﺩ رکھنا ہے ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻣﯿﻦ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﺋﯽ ﭘﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺻﻞ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﻮ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ۔
ﺳﯿﺎﺳﺖ ﻭ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﮐﭩﮭﻦ ﮐﺎﻡ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ لینا ہے ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺳﭽﺎﺋﯽ، ﺍﻧﺼﺎﻑ ﺍﻭﺭ ﺣﻖ ﭘﺴﻨﺪﯼ ﮐﮯ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﺍﺻﻮﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ بھی کرنا ہے۔ ﺗﺠﺎﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻟﯿﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺻﻨﻌﺖ ﮐﯽ ﺑﺎﮔﯿﮟ ﺳﻨﺒﮭﺎلنا بھی ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﺫﺭﺍﺋﻊ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﮎ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﭘﺎﮎ ﮐﺎ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯ بھی کرنا ہے۔
علاوہ ازیں زندگی میں سستی اور کاہلی کا بھی دخل ہے، لیکن سستی اور کاہلی وقت کی ناقدری اور صحیح نہ استعمال کرنے سے پیدا ہوتی ہے، کیونکہ وقت کی قدر و قیمت کا احساس و شعور جسکے اندر ہوتا ہے اسکی زندگی حرکت و عمل سے عبارت ہوتی ہے، اور وہ اپنے زمانے کا کامیاب انسان کہلاتا ہے، کیونکہ زندگی میں احساس بیداری پیدا کرنے کے لئے وقت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اور اسلام میں وقت کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام کا نظامِ عبادت اوقات کے ساتھ مربوط و منظم ہے، اور نمازوں کے اوقات متعین ہیں، کیونکہ فجر کی نماز ظہر کے وقت نہیں پڑھی جاسکتی، مغرب کی نماز عصر کی نماز کے وقت نہیں پڑھی جاسکتی، اسی طرح روزوں کے واسطے رمضان کا مہینہ خاص ہے، حج کے لیے چند مخصوص ایام ہیں۔
غرض یہ کوئی بھی عبادت اور فریضہ بندگی ایسی نہیں ہے کہ جسکے لئے وقت متعین نہ ہو ، علاوہ بریں قرآن مجید میں سورۃ العصر کے نام سے ایک مختصر سورت بھی موجود ہے جس میں رب العالمین نے وقت اور زمانے کی قسم کھائی ہے، اور کسی چیز کی قسم کھانا اسکی اہمیت و افادیت کو بتلانا مقصود ہوتا ہے۔
اور اگر غور کیا جائے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ روز محشر میں حساب و کتاب اور اعمال نامہ کا تعلق بھی وقت سے ہے، اس لئے کہ اعمال کا صدور بھی اوقات ہی میں ہوتا ہے۔
معلوم ہوا کہ اسلام میں وقت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
لیکن اگر وقت کو یوں ہی ضائع کردیا جائے تو اسکا شمار سستی اور کاہلی میں ہوتا ہے اور اگر وقت کو نیک اعمال میں صرف کیا جائے، بندگی خدا میں گذارا جائے، اور اللہ کے اس خلافت کو قائم کیا جائے جسے اللہ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے تو اسکا شمار احساس بیداری میں ہوتا ہے۔ اور زندگی نام ہی ہے احساس بیداری کا، نہ کہ سستی و کاہلی کا۔
اللہ ہمیں وقت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور سستی و کاہلی سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین۔
ازقلم: امام علی مقصود فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔