محمد فاروق اعظمی
جمہوریت کا اصل حسن عوام کے منتخب نمائندوں کے شفاف اور ایماندار کردار میں چھپاہوتا ہے اور جب وہ خود اس ایمانداری سے دور ہوجائیںتو اس سے پورے نظام کی ساکھ متاثرہوتی ہے۔ ایک قیادت جو عوام کے اعتماد کی امین ہو،اگر وہ خود اس اعتماد کو غلط بیانی،چالاکیوں اور فریب سے پامال کرے تو اس سے پوری قوم کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف اُن کی قیادت کا کینوس متنازع بن جاتا ہے،بلکہ اس سے جمہوریت کی روح میں بھی زہرسرایت کرجاتا ہے جو وقت کے ساتھ پورے معاشرتی اور سیاسی نظام کو متاثر کرتا ہے۔یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جب ایک قوم کا رہنما جھوٹ بولتا ہے تو وہ صرف اپنی ساکھ کو نہیں داغدار کرتا،بلکہ پورے ملک کی جمہوریت کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا دھچکا ہوتا ہے جو نہ صرف اقتدار کی کرسی کو ہلا دیتا ہے،بلکہ قوم کے آئینی اور اخلاقی تشخص کو بھی مجروح کرتا ہے۔
ہندوستان جیسے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں،جہاں عوامی آزادیوں اور حقوق کی حفاظت آئین کی ضمانت کے تحت کی جاتی ہے،وزیراعظم نریندر مودی پر جھوٹ بولنے کا الزام محض ان کی ذاتی ساکھ کیلئے نہیں،بلکہ پورے ملک کی جمہوری اقدار کیلئے ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے وزارت عظمیٰ کے عہدۂ جلیلہ پر فائزنریندر مودی اپنی تقریروں اور بیانات میں اکثر مبالغہ آرائی،تضاد اور جھوٹے دعوؤں کے مرتکب نظر آتے ہیں۔ ان کی زبان سے نکلی ہر بات،چاہے وہ پارلیمنٹ کی نشست ہو،انتخابی جلسہ ہو یا عوام سے براہِ راست خطاب ہو،عموماً حقیقت سے منحرف اور بدلے ہوئے تاثر سے بھری ہوتی ہے۔ حالیہ دنوں میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا،جب وزیراعظم مودی نے کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے کی تقریر کو مسخ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ کانگریس کی حکومتیں ہمیشہ جھوٹے وعدے کرتی ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر کانگریس کی زیر حکومت ریاستوں کو ہدف بناتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ان ریاستوں کی حالت بدتر ہو چکی ہے۔
لیکن جیسے ہی کانگریس کے رہنمائوں نے مودی کے جھوٹ کو بے نقاب کیا اور ان کی غلط بیانی کی حقیقت سامنے لائی، وزیراعظم کو اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کانگریس کے سینئر رہنما پون کھیڑا نے مودی کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ محض انتخابی سیاست کی چالاکی تھی،جس میں جھوٹ،فریب اور حقائق کی مسخ شدہ تشہیر کا سہارا لیا جا رہا تھا۔ کھیڑا نے یہ بھی کہا کہ کانگریس کی حکومتوں نے اپنے وعدوں کو بخوبی نبھایا ہے اور انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کرناٹک میں پانچ میں سے پانچ ضمانتوں کو عملی جامہ پہنایا، اسی طرح تلنگانہ اور ہماچل پردیش میں بھی کانگریس نے اپنے وعدے پورے کیے۔ کھیڑا نے طنز کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مودی کو اپنے بیانات یاد رکھنے کیلئے مشروم کے بجائے بادام کھانے چاہئیں۔
یہ واقعہ وزیر اعظم مودی کی سیاست میں جھوٹ اور فریب کے استعمال کی محض ایک اور مثال ہے۔ مودی نے ہمیشہ اپنے سیاسی حریفوں،خاص طور پر کانگریس کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں اور ہندوستان کے عظیم رہنمائوں کی شخصیت کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہ طرزعمل نہ صرف سیاست کو گندہ کرتا ہے بلکہ یہ عوام میں نفرت اور تقسیم کی فضا پیدا کرتا ہے،جو کسی جمہوری ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے مودی کی حکومت کو جھوٹ،فریب،دھوکہ دہی اور پروپیگنڈے کا نمونہ قرار دیا ہے اور کہا کہ وزیراعظم نے ہمیشہ عوام کو گمراہ کرنے کیلئے جھوٹ بولے ہیں۔ کھرگے نے ایک اور موقع پر مودی کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 16 مئی کو مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ ’وکست بھارت2047‘کے روڈ میپ کیلئے 20 لاکھ لوگوں سے مشاورت کی گئی تھی،لیکن جب اس کے بارے میں پی ایم او سے معلومات طلب کی گئیں تو یہ بیان جھوٹا ثابت ہوا۔
نریندر مودی کا سیاسی سفر ہمیشہ متنازع رہا ہے اور ان کے بیانات اکثر سچائی سے دور ہوتے ہیں۔ اقتدار میں آنے سے قبل،انہوں نے خود کو ایک غریب چائے بیچنے والے کی شکل میں پیش کیا تھا،حالانکہ اس دعوے کی کوئی ٹھوس گواہی نہیں ملتی۔ اسی طرح،انہوں نے خود کو ایک بہادر رہنما کے طور پر پیش کیا اور ایک مبینہ مگرمچھوں سے بھرے تالاب میں تیرنے کا دعویٰ کیا، حالانکہ اس کے بارے میں بھی کوئی ٹھوس شواہد نہیں ہیں۔ ان دعوؤں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مودی اپنی شخصیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کیلئے جھوٹ بولنے میں کسی قسم کی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔
اسی طرح،مودی کی حکومت میں جمہوریت کے بارے میں اٹھنے والے سوالات بھی اہم ہیں۔ وزیراعظم نے بار بار دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت کے تحت جمہوریت کی مضبوطی اور ہندوستان کی خوشحالی میں اضافہ ہوا ہے،لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان کے جھوٹے بیانات نے عوام کو گمراہ کیا اور ہندوستان کی جمہوریت کے بنیادی ستونوں کو کمزور کر دیا ہے۔ مودی نے اپنے سیاسی مفادات کیلئے اپنے کاروباری دوستوں اور اتحادیوں کو فائدہ پہنچایا،جس سے عوام کا اعتماد مزید ٹوٹا ہے۔
آج کی سیاسی صورتحال میں یہ انتہائی ضروری ہے کہ سیاست میں جھوٹ، فریب اور بے حیائی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ جمہوریت اور آئین کی اصل روح کو برقرار رکھا جا سکے۔ اگر مودی اور ان کی جماعت اپنے بیانات اور وعدوں کو سچائی کی بنیاد پر ثابت نہیں کر سکتے تو انہیں اپنی سیاست کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے اور عوام کے سامنے حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اس کے بغیرہندوستان کے جمہوری نظام اور آئین کو سنگین بحران کا سامنا رہے گا اور ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔