عبدالسلام عاصم
اسرائیل حماس تازہ خونیں مقابلے میں حسبِ اندیشہ عام فلسطینی زندگیاں زیادہ خسارے میں ہیں۔ غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے مطابق7اکتوبر سے غزہ پٹی پر اسرائیلی فضائی حملوں میں مرنے والوں کی تعداد 11,500 سے متجاوز ہو گئی ہے، جن میں4,710بچے اور 3,160 خواتین شامل ہیں۔ ان حملوں میں طبی عملے کی اموات کی تعداد200تک پہنچ گئی ہے۔ سول ڈیفنس کے22اہلکار اور 51صحافی بھی مارے گئے ہیں جب کہ زخمیوں کی تعداد 29,800تک پہنچ گئی ہے، جن میں سے تقریباً70فیصد بچے اور خواتین ہیں۔ اس منظر نامے کو یکسر بدلنے کیلئے اسرائیل اور حماس دونوں پر لازم ہے کہ وہ اس ادراک کے ساتھ کہ زندگی اللہ کی نعمتوں میں سب سے زیادہ لائق تعظیم و تقدیس ہے، اس پر ان چیزوں اور کرداروں کو ترجیح دینے کا سلسلہ بند کریں جن کی وجہ سے دونوں کے ہاتھوں زندگی کی بدترین پامالی ہو رہی ہے۔
غزہ میں جاری(تقریباً یکطرفہ) لڑائی پر جانبدارانہ اور غیر جانبدارنہ اظہار خیال سے میڈیا کے اشاعتی اور برقی صفحات کے علاوہ سوشل میڈیا کی دیواریں آٹی پڑی ہیں۔ چند روز قبل ایک صاحب جو میری طرح مرگ انبوہ کا سامنا کرنے والے فلسطینیوں کے ہم مذہب ہی نہیں بلکہ مذہبی کتابوں پر اسنادی اور اداراہ جاتی دسترس بھی رکھتے ہیں، اس خیال کے ساتھ سامنے آئے کہ اسرائیل پر آتشیں حملے میں مارے جانے والے عام شہری نہیں تھے، سبھی تربیت یافتہ فوجی تھے۔
انہیں شاید یہ پتہ نہیں کہ ہر وہ شخص جو باقاعدہ فوجی نہیں، وہ بہر حال عام شہری ہوتا ہے، خواہ اس نے نیشنل کیڈٹ کور (این سی سی) میں گولی چلانا تک کیوں نہ سیکھی ہو۔ ہندوستان سمیت کئی ملکوں میں یہ این سی سی اسکولی تعلیم کا حصہ ہوتا ہے۔ فارغین بہرحال تمام تر تربیت کے باوجود عام شہری ہوتے ہیں۔ جہاں تک وحشیانہ جنگوں کا سوال ہے تو عام شہریوں کو آج تک ایسی کسی بھی جنگ میں نہ پہلے کبھی کوئی ضابطہ بچا سکا ہے نہ آئندہ بچا پائے گا۔7اکتوبر کے بعد غزہ اس کی تازہ نظیر ہے۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے یہ سمجھنے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ نفرت کی راست تربیت کا سلسلہ بلوغت کی دہلیز پار کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ابتدائی تعلیم کے زمانے میں معصوم بچوں کو صرف یہ بتا کر کہ ہم کس سے مختلف ہیں، نفرت رخی دوری کی بالواسطہ تربیت دی جاتی ہے۔ نتیجے میں کسی بنیادی فرق کے بغیر پیدا ہونے والے بچے ہوش سنبھالتے سنبھالتے ایک سے زیادہ خانوں میں بٹ چکے ہوتے ہیں۔ اس طرح عدم فکری میلان کی وجہ سے انہیں کہیں مکمل علیحدگی پسندی کی تحریک مل جاتی ہے تو کہیں وہ منافقانہ میل جول کا اسٹیج ڈرامہ کرنے پر مجبور رہتے ہیں۔
حقیقی اور سائنٹفک تعلیم حاصل کرنے والے بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہوجاتے ہیں کہ انسانوں کو خانوں میں بانٹنا در اصل ایک کاروبار ہے۔ یہ جان لینے کے بعد کچھ نہایت خاموشی سے اپنا کورس آف لائف بدل کر زندگی کا حق ادا کرنے لگتے ہیں، کچھ احتجاج کا راستہ اختیار کر کے دوسری انتہا پر پہنچ جاتے ہیں اور کچھ فکر و نظر کی بنیاد پر منظرنامہ بدلنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ ان تینوں حلقوں کا باقاعدہ سروے کر کے آبادی کی شرح نکالی جائے تو یہ تقریباً70فیصد ہوگی۔ گویا دنیا کا بڑا حلقہ آج بھی مہذب ہے اور عقائد اور نظریات کو زندگی سے زیادہ مقدس سمجھے والے کوئی30فیصد ہیں۔
تینوں الگ الگ حلقوں میں جو حلقہ فکر و نظر کی بنیاد پر منظر نامہ بدلنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے، موجودہ یوروپ اُسی کی کوششوں کا نتیجہ ہے جس میں دائیں بازو کی یمینی سوچ کا مقابلہ بائیں بازو کی یساری سوچ سے کرنے کے بجائے خالص علمی راستہ اختیار کیا گیا اور سب سے پہلے ابتدائی تعلیم کا رخ انسانوں کو مرحلہ وار خانوں میں بانٹنے کی طرف سے ہٹایا گیا۔ دوسری طرف ترقی پذیر ممالک اور ان میں آباد اقوام نے احتجاجی اور علمی دونوں تحریکوں سے استفادہ کیا۔ کچھ حلقوں میں سوشلزم کو غلبہ حاصل ہوا تو کچھ حلقے اعتدال کی حقیقی اور سائنسی راہ پر چل پڑے۔ اس طرح یمینی نظریات کی موجودگی میں دنیا تین خانوں میں بٹ گئی۔
کئی طرف سے الجھے مسئلے کو یکطرفہ حل کبھی راس نہیں آتا۔ اس کی شہادتیں واقعات کی دنیا میں روز اول سے موجود ہیں۔ یہ بات سمجھائی نہیں جا سکتی، متعلقین کو از خود سمجھنا پڑتا ہے اور سمجھنے والے تنازعات ختم کرنے کیلئے حربی محاذ آرائی ترک کر کے مذاکراتی سمجھوتے کی طرف بڑھ جاتے، ’’جرمن اتحاد‘‘اس کی نظیر ہے۔ نہ سمجھنے والے ’’تقسیم در تقسیم‘‘سے گزرتے ہیں، بنگلہ دیش کا وجود میں آنا اس کی نمایاں مثال ہے۔
بقائے باہم کا جہاں تک تعلق ہے تو ایک خدا کو ماننے والے آل ابراہیم کو ہندوستان اور چین سے سبق سیکھنا چاہیے جہاں ڈھائی ارب کی آبادی کوئی ڈیڑھ سو خداؤں کو پوجنے کے باوجود آپس میں بہ کثرت مل جل کر رہتی ہے۔ چھوٹے موٹے اختلافات تو زندگی کے ساتھ چلتے ہی رہتے ہیں۔ اصل میں مذاہب کی غلط تشریحات و توضیحات نے انسانوں کو خانوں میں بانٹنے کے ساتھ ان کے درمیان مرحلہ وار نفرت کا جو بیج بویا تھا، وہ اب ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ اس درخت کی شاخیں کاٹنے کی حد تک تو زائد از ایک حلقے فی زمانہ سرگرم رہے ہیں، لیکن اس درخت کی قلمی شاخیں لگانے والوں کو پنپنے سے نہیں روکا جا سکا۔اس طرح اصلاحات کے نام پر بھی کئی مذاہب سامنے آئے۔ ان میں سکھ دھرم، جین دھرم کے علاوہ مسلمانوں میں ایک فرقہ احمدیوں کا بھی ہے جو بظاہر تو ایک فرقہ ہے لیکن بباطن ایک الگ مذہب ہے۔
اس کے ساتھ ہی صنعتی انقلاب نے جب قوموں کی ترقی کے در وا کیے تو حقیقی اور سائنٹفک تعلیم حاصل کرنے والے حلقوں میں بھی بین معاشرہ نفرت کا استحصال کرنے والوں کی دراندازی شروع ہوگئی۔ نیوکلیائی ہتھیاروں سے بلیک میلنگ کرنے والوں کا وجود میں آنا اسی کا نتیجہ ہے۔شمالی کوریا، پاکستان اور اسرائیل نے اپنی اسی طاقت کے بل پر بہتر ہمسائیگی کے رموز کو سمجھنے کے بجائے اس رُخ پر اپنی سوچ منوانے کی ضد پال رکھی ہے۔
مذکورہ تغیر پذیر واقعات کا دوسرا پہلو بہرحال روشن ہے۔ اِس رخ پر دنیا کو رہنے کی بہتر جگہ بنانے کی کوشش کا دائرہ بھی مرحلہ وار وسیع ہوتا جا رہا ہے اور دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کی نئی نسل مذاہب کو ذات تک محدود کر کے کائنات کی تسخیر کے حقیقی آفاقی مقصد سے ہم آہنگ ہوتی جا رہی ہے۔ یہ انقلاب آفریں تبدیلی ان شاء اللہ ایک دن اندیشوں پر امکانات کو ترجیح دینے کا دائرہ اس حد تک وسیع کرنے میں کامیاب ہو جائے گی کہ پھر اس میں کسی کی توسیع پسندی کسی کو ناعاقبت اندیشانہ قدم اٹھانے کی غلطی کرنے پر مجبور نہیں کرے گی۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]