عبدالسلام عاصم
جمہوری طرز سیاست و معاشرت میں الگ الگ محاذوں پر حکومتوں سے اتفاق اور اختلاف کا ماحول ہمیشہ گرم رہتا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف رائے نہیں کہ بعض حکومتی عزائم واقعی انقلاب لا سکتے ہیں اگر وہ بہترین طریقے سے منصوبہ بند ہوں اور اپوزیشن کو اُس میں ذاتی نفع / نقصان سے کہیں زیادہ اجتماعی فائدہ نظر آتا ہو، یعنی تمام عاملین اور ناقدین مخلص ہوں۔ اسی طرح حکومتوں کے بعض اقدامات ایسے بھی ہوتے ہیں جو مقصدی اعتبار سے خوش سمت ہونے کے باوجود پوری طرح شفاف نہ ہونے کی وجہ سے مثبت کم اور منفی نتائج زیادہ مرتب کرتے ہیں اور اپوزیشن کا احتجاج کبھی کبھی بے ہنگم محاذ آرائی کی راہ ہموار کر دیتا ہے۔ اس سے فائدہ کسی کا نہیں ہوتا البتہ نقصان اجتماعی ہوتا ہے۔ ماضی قریب کی کسان تحریک کے نتیجے میں تین زرعی قوانین ساقط کرنے کا واقعہ ابھی ہمارے ذہنوں سے پوری طرح محو نہیں ہوا ہے۔
ماضی میں جہاں زمین داری ختم کرنے کی انقلابی کوشش میں حکومت کے ساتھ اپوزیشن کے اشتراک سے سماج میں انتہائی اذیت ناک اور تکلیف دہ طبقاتی فرق کا دائرہ مکمل نہیں تو بڑی حد تک محدود کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ حکمرانوں اور اقتدار ہتھیانے کیلئے بے چین اپوزیشن نے اس کامیابی سے عوامی بہبود کا دائرہ بڑھاتے رہنے میں بے غرض اشتراک نہیں کیا۔ البتہ آگے چل کر سبھی اِسے اپنے سیاسی مفاد کیلئے بھنانے لگے۔اسی طرح بینکوں کو قومیا کر بے لگام ساہوکارانہ استبداد کا وہ نظام ختم کیا گیا تھا جس میں قرض لے کرادا کرنے میں ناکام ہو جانے والوں کو انجام کار خودکشی تک پر مجبور ہونا پڑتا تھا۔ آج قومیائے بینکوں کے قرضے معاف بھی ہوتے ہیں اور ادائیگی میں دشواری کے ساتھ حکومت اشتراک بھی کرتی ہے۔ اِس بڑی کامیابی کے سفر کو بھی آگے چل کر مفادات کی سیاست کی نظر لگ گئی۔ سماجی، سیاسی اور اقتصادی ہم آہنگی کو متوازن رکھنے میں بعض عملی ناکامیوں نے سرکاری بینکوں کے قرضوں کی راہ کو دشوار بنا دیا۔ اِس کا فائدہ اٹھانے والے پرائیویٹ بینکوں اور آسان اور فوری قرض فراہم کرنے کا بظاہر یکطرفہ کاروبار ایک بار پھر شروع کر رکھا ہے۔ یہ الگ بات ہے اب وہ پہلے کی طرح بے خوف نہیں ہیں ۔ ماضی قریب میںکچھ پرائیویٹ بینکوں نے اصل اور سود کی وصولی کا مبینہ طور پر سخت راستہ اپنایا تھا جو بہر حال زیادہ دنوں نہیں چلا۔ باوجودیکہ اُن بینکوں اور قرض دینے والے اداروں کا شرح سود اتنا زیادہ ہے کہ گارنٹی کے ساتھ منافع بخش کاروبار کرنے والے ہی ان سے رجوع کر پاتے ہیں۔
ماضی کی ان دو مثالی کوششوں کی طرح عصری منظر نامے پر بھی وقفے وقفے سے بعض کوششوں کی جھلک سامنے آتی رہتی ہے۔ ان میں سے کچھ اطمینان بخش حد تک نتائج مرتب کرتی ہیں،کچھ چند قدم چل کر تھک جاتی ہیں تو کچھ عملی صبح کا نظارہ کرنے سے پہلے ہی فائلوں میں دفن ہو جاتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں بھی موجودہ حکومت نے کچھ ایسے قدم اٹھائے ہیں جو بیشتر معاملات پر ان دنوںحاوی سیاسی منفیات کی وجہ سے اگر سرے سے ناکام نہیں ہوئے تو جزوی خلل کے باوجود بہت حد تک کایا پلٹ نتائج کے حامل ہو سکتے ہیں۔ ایسے ہی تازہ اقدامات میں سے ایک کا تعلق سڑکوں، ریڈ لائٹ والے چوراہوں اور تفریحی مقامات پر بھیک مانگنے والوں کی بے تحاشا موجودگی کو کم نہیں بلکہ قطعی طور سے ختم کرنے سے ہے۔ میرے خیال میں تمام تر سیاسی، سماجی اور اقتصادی اختلافات کو اپنی جگہ برقرار رکھتے ہوئے اپوزیشن اور ادارہ جاتی ذمہ داروں کو بلا تفریقِ من و تو اِس محاذ پر حکومت کے ساتھ کامل اشتراک کرنا چاہئے تاکہ اِس پروجیکٹ کو عمل میں لانے کی میدانی ذمہ داری حکومت تک محدود نہ رہ جائے۔ حکومت کے ساتھ عملی اور نظری طور پر اشتراک نہ کرنے سے بھی اکثر عاملوں کو جوابدہی کا خطرہ کم نظر آنے لگتا ہے اور وہ عامل کم اور ذمہ داریوں سے غافل زیادہ ہونے لگتے ہیں۔
لوک سبھا کے سابقہ اجلاس میںسماجی انصاف اور تفویض اختیارات کے وزیر مملکت رتن لال کٹاریہ نے مژدہ سنایا تھا کہ اُن کی وزارت بھکاریوں کی بازآبادکاری اور بھیک مانگنے والوںکے لئے ایک اسکیم کے امکان کا پتہ لگا رہی ہے۔ اس میں ریاستی حکومتوں، مرکز کے زیر انتظام خطوں، مقامی بلدیاتی اداروں کے علاوہ رضاکار تنظیموں اور اداروں کے تعاون سے بھکاریوں کی شناخت کی جائے گی اور ان کی بازآبادکاری عمل میں لانے کے ساتھ ساتھ اُنہیں طبی سہولتیں فراہم کی جائیں گی اورکاؤنسلنگ، تعلیم اور ہنرمندی کے فروغ کے ذریعہ منظر نامے کو بدلنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ وہ لوگ ملازمت یا کاروبار کے ذریعہ اپنی مدد آپ کرنے کے متحمل ہو سکیں۔ اجلاس باراں میںآزادی کے امرت مہوتسو کے جذبے کے تحت حکومتِ ہند نے75 میونسپل کارپوریشنوں کی نشاندہی کی ہے جو ’اسمائل 75 اینیشی ایٹیو‘ کے نام سے روزی روٹی اور کام کاج کے رُخ پر بھیک مانگنے والوں کی جامع باز آبادکاری عمل میں لائیں گے۔ نئی دہلی میں نظام الدین میٹرو اسٹیشن کے قریب ایک پناہ گاہ (رین بسیرا) میں پچھلے دنوںِ اس مہم کا آغاز کیا گیا۔ سر کاری بیان کے مطابق شناخت شدہ 75 میونسپل کارپوریشن، بھکاریوں کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور نامور این جی اوز آن لائن اور آف لائن دونوں طریقوں سے اس ملک گیر مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ بھیک مانگ کر گزارہ کرنے والے اور اُن سے مبینہ طور پر دھندہ کر ا کے عیش کرنے والے خاص نشانے پر ہیں۔ حکومت سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔سرکاری عزم اور عوامی تائید سے یہ مہم میعاد بند طور پر کامیاب بنائی جا سکتی ہے۔ سماجی انصاف اور تفویضِ اختیارات کی وزارت کے مطابق آنے والے برسوں کے لئے 26-2025 تک اس پروجیکٹ کے لئے 100 کروڑ روپے کا کل بجٹ مختص کیا ہے۔ اس کا مقصد ایک ایساہندوستان بنانا ہے جہاں کوئی بھی شخص زندہ رہنے اور اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہو۔
شہروں/قصبوں اور میونسپل علاقوں کو بھیک سے پاک بنانے کی سوچ یوں تو ہر ذہن کا حصہ ہے لیکن جس سماج میں صفائی کی بات کرنے والا ہی صبح اِدھر اُدھر دیکھ کر اور کسی کو موجود یا چوکنّا نہ پاکر گھر کا کوڑا تھوڑے فاصلے پر پڑے کوڑے دان کے بجائے وہیں سڑک کے کنارے پھینک دیتا ہو، اُس سماج میں اِس محاذ پر کام سرحدی جنگ سے زیادہ جوش، ولولہ اور جنون کا متقاضی ہے۔ اس مہم میں مقامی بلدیاتی اداروں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اورغیر سرکاری تنظیموں کا اہم اور انتہائی فعال کر دار ہونا چاہئے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بشمول اچھے ، بُرے ہم سب جس سماج کا حصہ ہیں ، اُس کی تشکیل میں بھکاریوں اور بے سروسامانی کی زندگی گزارنے والوں کا کوئی عمل دخل نہیں، وہ ہماری ہی سماجی تشکیلات کے وہ ذیلی نتائج ہیں جو ہر تعمیری کام میں ضمنی طور پر سامنے آتے ہیں۔ آج اگر وہ ناسور بن رہے ہیں تو اس کے ذمہ وہ خود بہت کم اور ہم سب بہت زیادہ ہیں۔
ملک میں بھکاریوں کا مبینہ دھندہ بھی چلتا ہے جس پر ماضی میں فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے نیو فرینڈس کالونی کے کمیونٹی سنٹر علاقے میں اپنے ہاتھوں میں پانچ / دس روپے والے قلم اٹھائے ایک 7سال کی بچی نے مجھ سے کہا کہ ’بابو خرید لو ، تمہارے لئے یہ کبھی کام آجائے گا اور تمہارے پیسے میری بھوک مٹانے کے لئے ابھی کام آجائیں گے‘۔ ایک چھوٹی بچی کے منھ سے اِس قدر بالغ جملے سن کر میں حیران بھی ہوا، ساتھ ہی کچھ جستجو بھی پیدا ہوئی۔ میں نے اُس سے پوچھا یہ بتاؤ تم نے جو کچھ کہا ، وہ تمہیں کس نے رٹوایا ہے۔ میں نے اپنے چہرے پر سوالیہ تجسس کم اور مصنوعی معصومیت زیادہ رکھی تھی۔ لڑکی نے فوراً جواب دیا ’’ دیدی نے۔۔۔‘‘۔میں نے پوچھا کیا وہ بھی بھیک مانگتی ہیں! جواب ملا ’’ہاں‘‘۔ اس کے بعد میں سنبھل سنبھل کر اسے کریدتا گیا اور وہ اوب کر بھاگنے سے پہلے ایسا بہت کچھ اپنے انداز میں بتا گئی جس سے اندازہ ہوا کہ دھندے کی جڑیں انتہائی گہری ہیں۔ حکومتِ ہندہمہ جہت اشتراک سے اگر اِس محاذ پر کامیاب ہو جاتی ہے تو ایک تیر سے سماجی برائیوں پر کئی نشانے لگائے جا سکتے ہیں۔ ہم سے یہ بات قطعی پوشیدہ نہیں کہ بیشتر سماجی برائیاں غریبی کی کوکھ سے ہی پیدا ہوتی ہیں۔ اُنہی میں سے ایک نفرت بھی ہے جو خالی ذہنوں میں فوراً جگہ بنا لیتی ہے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]