محمد فاروق اعظمی
26جنوری1950کو آئین کی منظوری کے ذریعہ قائم ہونے والی ہندوستان کی سیاسی جمہوریت کو پروان چڑھانے اور مستحکم بنانے کی کوششیں ہوئی ہیں تو دوسری جانب ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی سازش بھی رچی جاتی رہی ہے۔ تعمیر اور تخریب کی ان دو متوازی کوششوں کے درمیان ہندوستان 72 سال کا طویل عرصہ گزارچکا ہے اوراگلے دودنوں میں ہندوستان کی جمہوریت 73 ویں برس میں داخل ہوجائے گی۔ جمہوریت کا یہ طویل دورانیہ تضادات اور عدم مساوات سے بھرا ہوا ہے۔ملک کی سماجی، معاشرتی اور معاشی زندگی میں عدم مساوات کی خلیج ان 72برسوں میں بھی پاٹی نہیں جاسکی ہے اور گمان یہ بھی ہے کہ اگلی کئی دہائیوں تک اس کے ختم ہونے کاامکان نہیں ہے۔عدم مساوات کی اس خلیج کو آئین کا معمار کہے جانے والے ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر نے بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا اور متنبہ کیا تھا کہ عدم مساوات کو اگر دور نہیں کیاگیا تو یہ انتہائی محنت اور عرق ریزی سے تعمیر کی جانے والی ہندوستان کی سیاسی جمہوریت کیلئے شکست و ریخت کے حالات پیدا کرسکتا ہے۔ آئین کے نفاذ سے قبل 25 نومبر 1949کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر نے یہ تلقین کی تھی کہ اگر عدم مساوات اسی طرح جاری رہا تو جن کو اس عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ سیاسی جمہوریت کے اس ڈھانچے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ جمہوریت کی72ویں سالگرہ پر ڈاکٹر امبیڈکر کے اس انتباہ کو یاد کرنے کی ضرورت یوں پڑی ہے کہ آج ملک کو انتہائی بھیانک قسم کے عدم مساوات کا سامنا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ طویل عرصہ ہر طرح کے عدم مساوات کو ختم کرنے کیلئے کافی ہوتا اور اسے ماضی کا بھولا بسرا قصہ بن جاناچاہیے تھا لیکن اس کے برخلاف عدم مساوات کی کھائی گزرتے ہوئے عرصہ میں بڑھتی ہی گئی ہے اور آج صورتحال یہ ہے کہ معاشی عدم مساوات کی طرح ہی معاشرتی اور سماجی عدم مساوات ہندوستان میں بھیانک شکل اختیار کرگیا ہے۔ خاص کر گزشتہ 8-10 برسوں میں جس تیزی کے ساتھ یہ خلیج گہری ہوئی ہے اس کاپہلے تصور بھی نہیں کیاجاسکتا تھا۔ان ناہمواریوں اور عدم مساوات کو بے لگام کرنے میں موجودہ حکومت کا بھی بڑا حصہ ہے۔ جھوٹ کو سچ اور خواب کو حقیقت بناکر پیش کرنے میں مہارت رکھنے والی حکومت نے اس کے اضافہ میں دل کھول کرحصہ لیا ہے اور ہر وہ کام کیا ہے یا اس کی سرپرستی کی ہے جس سے سماجی اور معاشرتی ناہمواریوں کو ہوا ملتی ہو۔پس ما ندہ اور دلت طبقات کے ساتھ ساتھ اقلیتوں خاص کر مسلمانوں سے برتی جانے والی ناانصافی اور امتیاز کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ دلتوں کو مارنے، کاٹنے انہیں زندہ جلادیے جانے، ان کے حقوق نہ دینے، تعلیمی اداروں میں ان کے داخلہ پر روک، این ای ای ٹی سے ریزوریشن ختم کیے جانے جیسے ہزاروں واقعات اس عدم مساوات کو بڑھاوادے رہے ہیں تو دوسری جانب اقلیتوں اور مسلمانوں کیلئے بھی ہندوستان کو غیرمحفوظ بنایا جارہا ہے۔ نام نہاد ’دھرم سنسد‘ میں مسلمانوں کی نسل کشی کا اعلان کیا جاتا ہے اور حکومت خاموش رہتی ہے۔ مذہبی بنیادوں پر امتیاز اور عدم مساوات کی اس سے بڑی مثال اور کیاہوگی کہ روایتی حجاب اور پردہ کو ملک دشمنی سمجھاجارہاہے اور جنگل کے زمانے کی ثقافت کو زندہ کرنے کیلئے تہذیب کو ہی رونداجارہاہے۔حجاب لگانے والی طالبات کو اسکول کالج میں پڑھنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
دستور کے معمار اور کمزور طبقات کے مسیحا ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر نے جو آئین دیا تھا، اس میں سبھی کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اوراسی آئین سے وفا کا حلف اٹھاکر حکومتیںآتی ہیں لیکن پھریہ آئین فراموش کرکے حکمرانوں کااپنا قانون چلنے لگتا ہے۔ نفرت اور شر انگیزی کی بنیاد پرطاقت حاصل کرنے والے حکمرانوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس آئین کو ہی بدل ڈالیں جو ان کے عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ ہے۔ ملک میں تیزی سے بڑھتے اس نفرت انگیز رویہ اور حکمرانوں کی چشم پوشی کی وجہ سے اس میں ہورہے اضافہ کو عالمی سطح پربھی تنقید کا سامنا ہے۔کئی ایسی عالمی رپورٹیں آچکی ہیں جن میں ہندوستان کو اقلیتوں اور مسلمانوں کیلئے غیر محفوظ قرار دیاگیا ہے۔جنو ب ایشیائی ملکوں میں شہری حقوق، جمہوریت، اظہار رائے کی آزادی اور سیکولرزم کے تحفظ کے حوالے سے گزشتہ آنے والی ساؤتھ ایشیا اسٹیٹ آف مائنارٹیز رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد اقلیتوں اور کمزور طبقات پربراہ راست حملے ہورہے ہیں۔اقلیتوں اور حکومت کے نظریات سے اختلاف رکھنے والوں کیلئے ہندوستان ایک خطرناک ملک بن گیا ہے۔ اسی رپورٹ میں کھلے الفاظ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ موجودہ حکومت اور ہندوتو کی طاقتوں نے جو خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے، اس سے تمام ہی اقلیتی فرقے خوف زدہ ہیں لیکن مسلمانوں کی صورت حال کچھ زیادہ خراب ہے۔مسلمانوں کوعملاً دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
دوسری طرف معاشی سطح پر بھی عدم مساوات اور ناہمواریوں کی صورتحال بڑھ کر انتہائی خوف ناک ہوگئی ہے۔گزشتہ دنوں جب ہمارے وزیراعظم ڈائوس میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے ہندوستان میں اصلاحات اور سب کچھ اچھا ہے کا دعویٰ کررہے تھے،اس وقت دو ایسے واقعات پیش آئے جس نے کئی سحر اتار دیے۔ٹیلی پرامپٹر کی خرابی نے وزیراعظم نریندر مودی کے غیرمعمولی خطیب ہونے کا تاثر ختم کردیاتووہیںانسداد غربت کیلئے کام کرنے والے عالمی ادارہ ’آکسفیم‘ نے بھی ایک رپورٹ جاری کی جس میں وزیراعظم کے دعوئوں کو حقیقت کے برخلا ف بتایا گیا۔ آکسفیم کی رپورٹ میں بتایاگیا کہ سال 2021، جسے کووڈ کا سال کہا جا سکتا ہے، میں ہندوستان کے 84 فیصد گھرانوں کی آمدنی میں کمی آئی ہے، جب کہ اسی عرصے کے دوران ملک میں ارب پتیوں کی تعداد 102 سے بڑھ کر 142 ہو گئی ہے۔ اسی رپورٹ میںیہ بھی بتایاگیا ہے کہ وبائی امراض کے دوران (مارچ 2020 سے 30 نومبر 2021 کے دوران) ہندوستانی ارب پتیوں کی دولت 23.14 لاکھ کروڑ روپے سے بڑھ کر 53.16 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گئی، جب کہ دوسری طرف یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ سال 2020 میں4.6کروڑ سے زیادہ ہندوستانی انتہائی غربت کی کھائی میں پہنچ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ تعداد وبائی امراض کے دوران عالمی سطح پر غریبوں کی تعداد میں اضافے کا نصف ہے۔ آکسفیم کی اسی رپورٹ میں یہ مکروہ حقیقت بھی درج ہے کہ ہندوستان کے 100 امیر ترین لوگوں کی اجتماعی دولت 2021 میں 57.3 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن اسی سال2021 میں نچلی 50 فیصد آبادی کے پاس صرف چھ فیصد اثاثے تھے۔ آکسفیم کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک کے 100 امیر ترین خاندانوں کی دولت میں اضافہ کا پانچواں حصہ اکیلے اڈانی بزنس ہاؤس سے آیا ہے۔ گوتم اڈانی امیروں کی فہرست میں عالمی سطح پر 24 ویں نمبر پر ہیں۔ ان کی مجموعی مالیت 2020 میں 8.9 بلین ڈالر سے بڑھ کر 2021 میں 50.5 بلین ڈالرہوگئی ہے۔ ایک سال میں ان کی دولت میں آٹھ گنا اضافہ ہوا۔ 2021 میں ہی مکیش امبانی کی مجموعی دولت.8 36بلین ڈالر سے دوگنی ہو کر 85.5 بلین ڈالر ہو گئی۔
جمہوریت کی72ویں سالگرہ پر عدم مساوات کا یہ بھیانک منظر نامہ معمار آئین بابابھیم رائو امبیڈکر کے عین خدشات کے مطابق ہے۔ اوراگر انہیںیوں ہی بڑھاوا ملتا رہا تو ہوسکتا ہے کہ باباصاحب کے یہ خدشات حقیقی شکل اختیار کرجائیں اور سیاسی جمہوریت کا یہ نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو جائے۔
[email protected]