عبیداللّٰہ ناصر
ایک منظم سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ہندوستان کو آئینی جمہوریت سے بدل کر ہندو راشٹر بنانے کی طرف تیزی سے قدم بڑھایا جا رہا ہے اور ڈاکٹر امبیڈکر کے تیار کردہ آئین جس کی تیاری میں اس وقت کے بہترین دماغوں نے قریب دو سال سر کھپایا تھا لیکن جس کا خاکہ جنگ آزادی کے دوران ہی ہمارے روشن ضمیر، وسیع القلب، دوراندیش لیڈروں نے تیار کر لیا تھا، اسے ہٹا کر گرو گولوالکر کے پیش کردہ ہندو راشٹر کے نظریہ کو نافذ کیا جا رہا ہے جس کا پہلا شکار تو مسلمان ہیں جنہیں ہر ممکن طریقے سے دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی مہم چل رہی ہے لیکن جس کا حتمی شکار اس ملک کے دلت، آدی باسی اور نچلی ذات کے لو گ ہوں گے کیونکہ آج کے آئینی جمہوری نظام میں بھی صدر جمہوریہ سے لے کر تمام چھوٹے بڑے عہدوں پر ہندو ہی تو فائز ہیں، لیکن وہ آئین ہند سے بندھے ہوئے ہیں جو سب کو برابر کے حقوق دیتا ہے اور کمزوروں کو کچھ خاص حقوق دیے ہیں تاکہ وہ بھی ترقی، خوش حالی کی دوڑ میں برابر کے شریک ہوں اور عزت کی زندگی جی سکیں ۔اس کے لیے انہیں ریزرویشن کی شکل میں کچھ خصوصی مراعات آئین نے دی ہیں جنھیں یہ حکومت دھیرے دھیرے مذہب کا میٹھا زہر پلا کر ختم کر رہی ہے اور اس طبقہ کو اسٹاک ہوم سنڈروم نامی بیماری میں مبتلا کر دیا ہے جس کا مریض اپنا استحصال کرنے والے کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھ لیتا ہے۔بڑی ہوشیاری سے لٹرل انٹری کے ذریعہ دلتوں، پسماندہ طبقوں اور آدی باسیوں کو آئی اے ایس افسر بننے سے روکا جا رہا ہے اور حکومت اپنے من پسند لوگوں کو اس عہدہ پر اپنی مرضی سے پوسٹنگ دے رہی ہے۔ اسی طرح تعلیم کا معیار بھی خوب گرا دیا گیا ہے اور بنا پی ایچ ڈی، ایم فل وغیرہ کے پروفیسر مقرر کیا جا رہا ہے۔ لیکن فی الحال اصل مسئلہ مسلمانوں کے سامنے ہے جن کے وجود کو ہی مٹانے کی مہم چل رہی ہے۔ ظاہر ہے تیس کروڑ مسلمانو ں کو بحر ہند میں تو نہیں دھکیلا جا سکتا لیکن انہیں ذہنی طور سے اتنا شکست خوردہ، مایوس اور تباہ حال بنا دیا جا رہا ہے۔ ان میں ہر ممکن طریقے سے احساس بیگانگی پیدا کیا جا رہا ہے۔ تاریخ میں ہو چکے واقعات کو آج کے مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ پورے ملک کے مسلمانوں کو ذہنی انتشار، ذہنی کرب میں مبتلا کر کے ا نہیں ذہنی طور سے اکثریتی فرقہ کا غلام بنانے کی کوشش کی جا ر ہی ہے۔ہر غریب، کمزور، پریشان حال، ظلم کے شکار شہری کی آخری امید عدالتیں ہوتی ہیں لیکن مسلمانوں کے لیے امید کا یہ آخری مرکز بھی سراب ثابت ہو رہا ہے۔ہر آئینی ادارہ مسلمانوں کے تعلق سے اپنا فرض منصبی ادا کرنے میں ناکام ہو رہا ہے کیونکہ وہاں پر اس مخصوص ذہنیت کے لوگوں کو پہلے ہی بٹھا دیا گیا جو مسلمانوں کے لیے سنگھی ذہن ہی رکھتے ہیں۔آج حالات یہ ہیں کہ سیاسی پارٹیاں بھی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور نا انصافی کے خلاف بولتے ہوئے ڈرتی ہیں کیونکہ انہیں اپنا ہندو ووٹر بکھر جانے کا خطرہ دکھائی دیتا ہے۔
آج ملک کے جو حالات ہیں اور جن حالات سے ہندوستانی مسلمان گزر رہے ہیں، اس کے دو پہلو ہیں اول کانگریس کا اپنے اصولوں اور آدرشوں سے انحراف، دوم بھیڑوں(مسلمانوں) کا گڑریے سے ناراض ہو کر بھیڑیے کی پناہ میں جانے کی کہاوت پر عمل کرنا۔1990 میں بابری مسجد کے تعلق سے کانگریس کی تاریخی غلطی ا ور اس کے بعد ہوئے فسادات میں کانگریس کی ریاستی حکومتوں خاص کر اتر پردیش اور بہار کی حکومتوں کی مجرمانہ بے عملی کے بعد مسلمانوں کا اس سے ناراض ہونا فطری عمل تھا جس کا فائدہ اٹھایا کر ککر متوں کی طرح ہندوستان کے سیاسی فلک پر ابھر آئی علاقائی سیاسی پارٹیوں نے جو در اصل آرایس ایس کی ہی پروردہ ہیں کیونکہ آر ایس ایس جانتا ہے کہ اس کی راہ کا سب سے بڑا روڑہ اپنی تمام تر خرابیوں اور برائیوں کے باوجود کانگریس ہی ہے۔مسلمانان ہند آر ایس ایس کی اس سازش کو آج تک نہیں بھانپ سکے اور کانگریس کوکمزور بلکہ ختم کرنے کی آر ایس ایس کی سازش میں انجانے ہی پھنستے گئے۔ان علاقائی پارٹیوں کی بھی اولین ترجیح کانگریس کو ختم کرنے کی ہی ہے کیونکہ اسی کے ووٹ بینک خاص کر مسلم اور دلت ووٹ بینک کے سہارے ہی وہ زندہ ہیں، وہ جانتی ہیں کہ کانگریس مضبوط ہوئی تو ان کا وجود خطرہ میں پڑ جائے گا، اس لیے وہ ہر ممکن طریقے سے مسلمانوں کو کانگریس کے خلاف بھڑکاتی رہتی ہیں اور مسلمان آج بھی ماضی میں الجھ کر اپنا حال اور مستقبل دونوں برباد کر رہا ہے۔مسلمانوں کے ساتھ ہی ساتھ ملک بھی تباہی اور بربادی کے دہا نہ پر پہنچ گیا ہے۔
ملک کے مسلمانوں کے تعلق سے موجودہ حالات پر غور کرنے کے لیے گزشتہ دنوں دو اہم اجلاس ہوئے، ایک جلسہ دیوبند میں جمعیۃ علماء ہند کے مولانا محمود مدنی نے منعقد کیا، دوسرا مسلم دانشوروں کا جلسہ سبق ممبر پارلیمنٹ محمد ادیب نے دہلی میں منعقد کیا۔ دونوں جلسوں میں مسلمانوں کے مسائل پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اور مسائل کا حل تلاش کیا گیا۔ ان دونوں جلسوں کے داعیوں کے کرب اور جذبات کو سمجھا جا سکتا ہے، ان کی نیک نیتی پر بھی شک نہیں کیا جا سکتا لیکن سیاست اور اقتدار کے لیے سنگھ پریوار نے جو ڈور الجھا دی ہے اور ملک کو تباہی کے جس دہانہ پر کھڑا کر دیا ہے، وہ ڈور بھی سیاست اور اقتدار تبدیل کرکے ہی سلجھائی جا سکتی ہے۔ یہ تبدیلی ملک کے بیس فیصد مسلمان کیسے لا سکتے ہیں، اس پر پوری ایمانداری سے غور کر کے دو ٹوک راستہ سجھانا وقت کی ضرورت ہے لیکن دونوں اجلاسوں میں شاید اس اہم موضوع پر غور ہی نہیں کیا گیا۔ جمعیۃ علماء ہند آج بھی مسلمانان ہند کی سب سے مضبوط، بڑی اور کشمیر سے کنیا کماری نیز کچھ سے کوہیما تک پہنچ اور اثر رکھنے والی جماعت ہے، اس کے اکابرین نے نہ صرف جنگ آزادی بلکہ آزادی کے بعد مشترکہ ہندوستانی قومیت کے نظریہ کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مولانا اسعد مدنی مرحوم جانتے تھے کہ کانگریس کے علاوہ اور کوئی پارٹی مسلمانوں اور ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس لیے وہ کانگریس سے ناراض بھی ہوتے تھے، اس کے خلاف آواز بھی اٹھاتے تھے، ملک و ملت بچاؤ تحریک بھی شروع کرتے تھے لیکن کبھی کانگریس سے الگ نہیں ہوتے تھے۔ کانگریس بھی جمعیۃ سے تاریخی تعلق نبھاتی رہتی تھی، نہ صرف اسعد صاحب کو راجیہ سبھا بھیجتی رہتی تھی بلکہ مسلمانوں کے آئینی حقوق کا بھی کم و بیش تحفظ کرتی رہتی تھی اور ان میں احساس بیگانگی نہیں پیدا ہونے دیتی تھی۔اب نہ اسعد صاحب رہے نہ پرانی کانگریسی قیادت جو جمعیۃ اور کانگریس کے پرانے تاریخی تعلق کا خیال رکھتی، اس کا خمیازہ مسلمانوں کو بھگتنا پڑا ہے۔ جمعیۃ اور کانگریس دونوں پر واجب ہے کہ اپنا دیرینہ تعلق پھر بحال کریں، مسلمانوں کے مسائل پر دونوں کھل کر گفتگو کریں اور مستقبل کا خاکہ پیش کریں، یہ ملک کے بھی مفاد میں ہے اور مسلمانان ہند کے بھی مفاد میں کیونکہ دونوں کے مفاد ایک دوسرے سے وابستہ ہیں جو ملک کے مفاد میں ہے، وہی مسلمانوں کے مفاد میں بھی ہے۔
ما بعد مودی ہوئی سیاسی تبدیلی نے ملک کو دو تحفہ دیے ہیں معاشی بربادی اور سماجی انتشار۔ معاشی بربادی کا عالم یہ ہے کہ2013تک دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہونے والا ملک آج مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی) کے تعلق سے منفی شرح نمو میں ہے۔ عالمی بینک نے اسے ترقی پذیر معیشت کے زمرہ سے بھی نکال دیا ہے۔ کبھی ہمارے گوداموں میں لاکھوں ٹن غلہ بھرا رہتا تھا، ابھی چند ماہ قبل ہی وزیراعظم نریندر مودی نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ اگر عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) اجازت دے تو ہندوستان دنیا کا پیٹ بھر سکتا ہے۔ تکبر سے بھر پور یہ جملہ شاید قدرت کو پسند نہیں آیا اور چند دنوں بعد جب نئی فصل کٹ کر آئی تو پتہ چلا کہ انتخابی فائدوں کے لیے جس بے دردی کے ساتھ مفت غلہ تقسیم کیا گیا تھا، اس کے بعد خراب فصل نے ہمارے گودام خالی کر دیے، مجبور ہو کر گیہوں کا ایکسپورٹ روکنا پڑا۔ عالمی بھکمری انڈکس میں 115 ملکوں کی فہرست میں ہمارا ملک101نمبر پر ہے۔ غیر ملکی قرض ہماری مجموعی گھریلو پیداوار کا تقریباً80فیصد تک پہنچ گیا۔ سری لنکا میں یہ قرض جب اس کی مجموعی گھریلو پیداوار کا90فیصد ہوگیا تھا تو وہاں سماجی اُبال آیا اور نہ صرف حکمراں طبقہ خس و خاشاک کی طرح بہہ گیا بلکہ جو سماجی انتشار اور نفرت اس نے بوئی تھی وہ بھی جل کر راکھ ہو گئی۔ڈالر کے مقابلہ میں ہندوستانی روپیہ کی کتنی کم قدری ہو چکی ہے جس کاکسی کو احساس نہیں ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ اتنی کم قدرکے بعد زر مبادلہ کا بڑا حصہ غیر ملکی قرض کا سود ا کرنے اور خام تیل خریدنے میں ہی خرچ ہوجاتا ہے۔قومی خاندانی صحت جائزہ کی رپورٹ کے مطابق خواتین اور بچوں میں نقص تغذیہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔
بیروزگاری پچاس سال میں سب سے بلند سطح پر ہے۔ یہاں تک کہ حکومت نے حقیقت چھپانے کی غرض سے اس کے اعداد و شمار دینا بھی بند کر دیا ہے لیکن جس ملک میں 65کروڑ یعنی آبادی کے قریب نصف لوگوں نے روزگار ملنے کی امید ہی ترک کر دی ہو اور جاب مارکیٹ سے خود کو نکال لیا ہو، وہاں نہ صرف بیروزگاری بلکہ اس کی وجہ سے سماج میں پھیلی مایوسی اور ناامیدی کو بھی سمجھا جا سکتا ہے اور مایوس نا امید معاشرہ کیا کسی ملک کی تعمیر کر سکتا ہے؟ لاکھ ٹکے کے اس سوال کا جواب صرف حکمرانوں کے پاس ہی نہیں بلکہ ان اندھ بھکتوں کے پاس بھی نہیں ہے جو مذہب کی افیم پی کر سب کچھ بھول کر تاریخ کے جھوٹے اور من گڑ ھت قصہ سن کر بدلے کی آگ میں جل رہے ہیں۔بدلے کا یہ جذبہ ان میں اس حد تک پوسٹ ہو چکا ہے کہ وہ پورے ملک کو گڑھے میں تبدیل کر دینا چاہتے ہیں تاکہ مسلم عبادت گاہوں کے نیچے مبینہ مندر کی تعمیر نو کر سکیں۔ یہ عناصر یہ بھول جاتے ہیں اور حکومت بڑی عیاری سے انہیں یہ بھولنے کا گھونٹ پلاتی آرہی ہے کہ ایودھیا کے تنازع میں بھلے ہی سپریم کورٹ نے متنازع زمین مندر کی تعمیر کے لیے دے دی ہو لیکن اپنے فیصلے میں چار نکات پوری وضاحت سے لکھ کر سنگھ پریوار کے پھیلائے جھوٹ کا پردہ فاش کر دیا تھا کہ بابری مسجد کے نیچے کسی عمارت کے نشان نہیں ملے ہیں، بابری مسجد کسی ہندو عبادت گاہ کو توڑ کر نہیں تعمیر کی گئی تھی۔ دسمبر1949میں مسجد میں غیر قانونی طریقے سے مورتی رکھ دی گئی تھی اور مسجد کو منہدم کرنا غیر قانونی تھا۔ اسی فیصلے میں سپریم کورٹ نے دو اور اہم باتیں کہی تھیں اول یہ فیصلہ ایسے دوسرے مقدموں کے لیے نظیر نہیں ہوگا، دوم عبادت گاہ تحفظ قانون1991نا قابل تنسیخ ہے کیونکہ یہ ہمارے سیکولر قومی کردار کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔
لیکن خود سپریم کورٹ ہی اپنے ہی ان فیصلوں کو نظرانداز کر کے کہہ رہا ہے کہ1991کا قانون کسی تاریخی عبادت گاہ کی سابقہ پوزیشن کا پتہ لگانے میں مانع نہیں ہے۔ یہ عجیب و غریب منطق ہے کیونکہ اگر یہ سلسلہ چل پڑا تو اس کا کہیں اختتام نہیں ہوگا۔ ابھی بنارس کی گیان واپی اور متھرا کی عید گاہ تک ہی بات نہیں پہنچی ہے، ان کے حوصلہ تو اتنے بلند ہوگئے ہیں کہ ہندوستان کی ہزاروں مساجد اور مزاروں میں ہی نہیں، مکہ اور مدینہ میں واقع حرمین شریفین میں بھی شیولنگ ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ملک کو اس پاگل پن اور ممکنہ تبا ہی سے بچانے کا واحد راستہ اقتدار کی تبدیلی ہے کیونکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آئینی ادارے اقتدار کے اشارہ پر ہی ناچ رہے ہیں، یہ اقتدار کیسے تبدیل ہوگا، اس ایک نکتہ پر ہی غور کرکے راستہ نکالنا ہی مسلمانوں کے مسائل کا حل ہے اور اسی سے ملک بھی بچے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]