قربان علی
پچاس سال قبل 16 دسمبر 1971 کو پاکستان کے 93000 سپاہیوں کے ہتھیار ڈالنے کے بعد نئے ملک بنگلہ دیش کے قیام کا راستہ ہموار ہو گیا، اس کے ساتھ ہی مذہبی منافرت اور2قومی نظریہ کی بنیاد پر بنے پاکستان کے قیام کی دلیل بھی بے وزن ہوگئی اور یہ بات بھی غلط ثابت ہوئی کہ مذہب کی بنیاد پر بنائے گئے ملک ایک رہ سکتے ہیں۔ مسلم لیگ کے ذریعہ23مارچ 1940کواپنے سمینار میں لاہور میں راوی کے ساحل پر پاکستان بنانے کے لیے جو تجویز منظور کی گئی تھی، اسے برطانوی حکومت کی مدد سے حقیقت بننے میں ساڑھے7 سال سے بھی کم وقت لگا۔ اس وقت مسلم لیگ کی طرف سے نعرے لگائے جاتے تھے ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ‘‘ ’’مسلمان ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ ’’جو مسلمان مسلم لیگ میں نہیں وہ مسلمان نہیں۔‘‘ ریلوے اسٹیشنوں پر ہندو پانی-مسلم پانی اور ہندو چائے-مسلم چائے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔
کانگریس پارٹی کے اس وقت کے صدر مولانا ابوالکلام آزاد نے اس وقت لاہور کی معروف میگزین ’چٹان ‘کے مدیر شورش کشمیری کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اگر پاکستان کا قیام برصغیرکے مسلمانوں کے حق میں ہوتا تو میں پہلا شخص ہوتا جو تحریک پاکستان کی حمایت کرتا، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ جو مذہبی جنون اس وقت پاکستان کے حامی مسلمانوں کے سرچڑھ کربول رہا ہے، جب یہ اترے گا تو یہ ایک دوسرے کا گلا کاٹیں گے اور پنجابی، بنگالی، سندھی، بلوچی اور پٹھان ایک ساتھ نہیں رہ پائیں گے۔‘‘
مولانا آزاد نے اس وقت جو پیشین گوئی کی تھی، وہ 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام سے صحیح ثابت ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ 1947 میں تقسیم ہند کے وقت تقریباً 5 سے 10 لاکھ بے قصور لوگ مارے گئے اور کروڑوں بے گھر اور یتیم ہوئے تھے۔ لیکن بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے ہوئی خانہ جنگی میں تو 30 لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ مرنے والوں میں زیادہ تر بنگالی مسلمان تھے اور مارنے والے زیادہ تر پنجابی مسلمان تھے۔
بنگلہ دیش کے قیام نے یہ بھی ثابت کیا کہ مذہب کے مقابلہ زبان، ثقافت اور تہذیب کی جڑیں زیادہ مضبوط ہواکرتی ہیں اور جن ممالک کی اپنی تاریخ یا جغرافیہ نہیں ہوا کرتا، وہ مصنوعی طور پر اور مذہبی منافرت کی بنیاد پر ایک نہیں رہ سکتے۔ بیسویں صدی میں مذہبی منافرت کی بنیاد پر صرف سیاسی اسباب سے2 ہی ایسے ناجائز ملک بنائے گئے، ایک اسرائیل اور دوسرا پاکستان۔
پاکستان کے توابھی اور کئی ٹکڑے ہونے کا امکان ہے کیونکہ وہاں جوبلوچ، سندھی اور پختون ذیلی قوم پرستی ہے، پنجابی ’بالادستی‘ سے متاثر ہے اور اس سے نجات پانا چاہتی ہے، اس لیے پاکستان کے پاور اسٹیبلشمنٹ اور فوج کشمیر کا راگ الاپ کراسے کسی طرح ایک رکھے ہوئے ہیں۔اس لیے جس دن کشمیر کا مسئلہ حل ہوا، پاکستان کے کتنے ٹکڑے ہوں گے، نہیں کہا جاسکتا۔
بنگلہ دیش کا قیام ہندوستان میں ان لوگوں کے لیے بھی ایک انتباہ ہے جو اس عظیم ملک کو ایک مذہب، ایک ذات، ایک زبان، ایک ثقافت کی بالادستی سے جوڑکردیکھنا چاہتے ہیں اور اس ملک کوایک ’ہندو راشٹر‘ بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
ہندوستان یوں تو 5 ہزار سال پرانی تہذیب و تمدن کا ملک ہے لیکن تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے یہاں بدھ مت اور جین مت کا جنم ہوا تھا، 2021 برس پہلے جب مغربی ایشیامیں عیسائی مذہب اور1442سال قبل اسلام آیا تو اسے بھی ہندوستان پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ پارسی تو اس کے بہت پہلے سے یہاں آنے لگے تھے اور 500 سال پہلے گرو نانک نے یہاں سکھ مذہب قائم کیا۔اس طرح گزشتہ ڈھائی ہزار سالوں میں جو ہندوستان بنا وہی ’آئیڈیا آف انڈیا‘ ہے اور اسی کو بچانا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
دراصل 1857 میں ملک کی آزادی کے لیے جولڑائی لڑی گئی، اسے ساورکر نے بھی ہندوستان کا پہلا ’سواتنتر سمر‘ کہا ہے اور 90 سال کی قومی تحریک کے بعد جب ملک آزاد ہوا، تواسی وقت یہ طے ہوگیا تھاکہ یہ ملک کس راستہ پرچلے گا۔ پاکستان بن جانے کے باوجود ہمارے آباواجداد نے مہاتما گاندھی کی قیادت میں یہ عہد کیا تھا کہ ہم اس ملک کو ایک اور ’پاکستان‘ نہیں بننے دیں گے۔ آئین ساز اسمبلی میں 3سالوں سے زیادہ وقت تک چلی بحثوں کے بعد 26جنوری 1950کو آئین نافذ ہوا تو اس میں واضح طور پر کہا گیا کہ تمام شہریوں کے حقوق برابر ہوں گے۔ کسی کے ساتھ مذہب، ذات پات، جنس اور زبان کے نام پر امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔آئین کا دیباچہ اس بات کا ثبوت ہے۔
اس لیے1971 میں پاکستان کا ٹوٹنا اور بنگلہ دیش کا قیام ہندوستان کے لیے ایک انتباہ بھی ہے اور سبق بھی کہ ملک کی یکجہتی اور سالمیت محض نعروں سے برقرار نہیں رکھی جاسکتی۔1984میں ’آپریشن بلیواسٹار‘کے وقت سابق وزیراعظم چندرشیکھر نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’جب لوگوںکے دل ٹوٹ جاتے ہیںتوملک ٹوٹ جایاکرتے ہیں۔‘
بنگلہ دیش کاقیام بھی وہاں کے لوگوں کے دل ٹوٹ جانے کی وجہ سے ہواتھاکیونکہ مغربی پاکستان کے حکمرانوں اور پنجابی فوجیوں نے بنگالی مسلمانوں کو آدمی نہیں سمجھا، ان کا قتل عام کیا گیا، ان کی خواتین کی عصمت دری کی گئی اور انہیں بندوق اٹھانے پر مجبور کیا گیا۔ 1971کے بعد پاکستان کے حکمرانوں نے یہ جاننے کے لیے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے کیا اسباب تھے، ایک کمیشن قائم کیا جسے حمودالرحمن کمیشن کے نام سے جاتا ہے۔ اس کمیشن کی رپورٹ رونگٹے کھڑے کردینے والی ہے کہ کس طرح پاکستانی فوجیوں نے بنگلہ دیش کے لوگوں پر مظالم ڈھائے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)