مکیش کے نغموں نے فلموں کو حیات جاودانی بخشی

    0

    ممبئی: درد بھرے نغموں کے بے تاج بادشاہ مکیش،انتہائی حساس شخصیت کے مالک تھے جس کی جھلک ان کے درد بھرے گیتوں میں بھی صاف نظر آتی ہے۔
    دوسروں کے دکھ درد کو اپنا درد سمجھنا، مانو ان کی فطرت کا ایک حصہ تھا۔مکیش چندر ماتھر گلوکاری کی دنیا میں مکیش کے نام سے مشہور ہوئے۔ان کی آواز میں جو درد تھا اسے ہر سننے والا اپنے دل کے درد کی آواز سمجھتا تھا۔
    تقریباً 3 دہائیوں تک اپنی آواز سے سامعین کو اپنا دیوانہ بنانے والے مکیش دراصل ہندی فلموں میں ایک اداکار کے طور پر اپنی شناخت بنانا چاہتے تھے۔لیکن ان کی یہ حسرت پوری نہ ہوسکی۔قسمت ان سے کچھ اور ہی کرانا چاہتی تھی۔
    کوشش تو بہت کی، ایسا نہیں تھا کہ انہوں نے اداکاری نہیں کی ، کئی فلموں میں انہوں نے اداکاری بھی کی لیکن ناظرین نے ان کی اداکاری کو قبول نہیں کیا۔
    ان کا خواب تھا کہ اداکاری کے ذریعہ فلم انڈسٹری میں اپنی منفرد شناخت بنائیں لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
    مکیش دہلی کے ایک متوسط پنجابی خاندان میں 22 جولائی 1923 پیدا ہوئے تھے اور ا ن کا نام مکیش چندر ماتھر تھا ۔
    ان کے والد لالہ زورآور چند ماتھر ایک انجینئر تھے اور وہ چاہتے کہ مکیش ان کے نقش قدم پر چلیں لیکن مکیش نے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسکول کو خیرباد کہہ دیا تھا اور دہلی پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ سرویئر کی نوکری کرلی ۔جہاں انہوں نے سات مہینوں تک کام کیا۔نوکری سے دلبرداشتہ ہوکر اپنے شوق کی طرف مائل ہوگئے اور نغموں کو اپنی سریلی ، درد بھری آواز دینا شروع کردیا۔مکیش کندن لال سہگل کے بہت بڑے مداح تھے ۔مکیش نے جس دور سے فلمی دنیا میں قدم رکھا، اس وقت وہاں کے ایل سہگل کی درد بھری آواز کا ڈنکا بج رہا تھا۔اسی دور میں مکیش نے دستک دی، جو تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح تھی۔ان کی درد بھری آواز نے لوگوں کو ا اتنا متاثرکیاکہ اکثر اپنے گیتوں کو سننے کے بعد رو دیتے تھے۔
    مکیش ، گلوکار و اداکار کندن لال سہگل کےبڑے پرستار تھے اور انہیں کی طرح گلوکاری کے ساتھ ساتھ اداکاری کرنے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ اپنی بہن کی شادی میں گیت گاتے وقت ان کے دور کے رشتے دار اور مشہور اداکار موتی لال نے ان کی آواز سنی اوروہ ان سے کافی متاثر ہوئے۔ موتی لال 1940 میں مکیش کو بمبئی لے آئے اور اپنے ساتھ رکھ کر پنڈت جگن ناتھ پرساد سے انہیں گلوکاری کی تعلیم دلانے کا انتظام کیا۔
    اسی دوران 1940 میں خوبرو مکیش کو ایک ہندی فلم ’نردوش‘ میں اداکاری کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم میں انہیں موسیقار اشوک گھوش کے ہدایت کاری میں      اداکاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری بھی کرنے کا موقع ملا اور انہوں نے ’دل ہی بجھا ہوا ہو تو‘ اپنا پہلا گیت گایا۔ یہ فلم باکس آفس پر بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔ اس کے بعد مکیش نے ’دکھ سکھ‘ اور ’آداب عرض ‘ جیسی دیگر فلموں میں بھی کام کیا لیکن وہ کوئی شناخت بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
    اسی دوران موتی لال مکیش کو اس وقت کے مشہور موسیقار انل بسواس کے پاس لیکر گئے اور ان سے گزارش کی کہ وہ اپنی فلم میں مکیش کو کوئی گیت گانے کو موقع دیں۔ سال 1945 میں ریلیز ہونے والی فلم ’پہلی نظر‘ میں انل وشواس کی موسیقی میں مکیش نے ’دل جلتا ہے تو جلنے دے‘ گایا۔ اس گیت کے بعد مکیش کچھ حد تک اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
    اداکار ڈائریکٹر راجکمار کو مکیش کی آواز اتنی پسند آئی کہ دو چار گیتوں کو چھوڑ دیں تو راج کپور پر فلمائے گئے تمام گانے مکیش نے ہی گائے ہیں۔حالانکہ خود بھی بہت سے فلموں میں کام کیا، لیکن اداکاری انہیں راس نہیں آئی۔
    انہوں نے جب گانا شروع کیا تو کے ایل سہگل کا ہی انداز اختیا رکیا ۔سہگل نے جب یہ گیت سنا تو انہوں نے کہا تھا ’’عجیب بات ہے، مجھے یاد نہیں کہ میں نے یہ گیت کب گایا‘‘۔ یہ گیت سننے کے بعد سہگل مکیش سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہیں اپنا جانشیں اعلان کردیا تھا۔
    اپنے شروعاتی دور کی فلموں میں سہگل کی گلوکاری کے انداز سے متاثر ہونے کے سبب مکیش ان کی ہی طرز پر گیت گایا کرتے تھے۔لیکن سال 1948 میں نوشاد کی موسیقی سے آراستہ فلم ’انداز‘ کے بعد مکیش نے اپنا یہ طرز بدل دیا اور اپنا خالص انداز اختیار کیا۔
    مکیش کے دل کے ارمان اداکار بننے کے تھے اور یہی وجہ ہے کہ گلوکاری میں کامیاب ہونے کے با وجود بھی وہ اداکاری کرنے کے خواہش مند تھے۔انہوں نے کیا بھی۔مگر ایک کے بعد ایک تین فلاپ فلموں نے ان کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا اور مکیش یہودی فلم کے گانے میں اپنی آواز دے کر پھر سے فلمی دنیا پر چھا گئے۔
    مکیش کی دلی خواہش تھی کہ وہ گلوکاری کے ساتھ ساتھ اداکاری میں بھی نام کمائیں۔سال 1953 میں ان کی اداکاری والی      فلم ’معشوق‘ اور 1956 کی فلم انوراگ کی ناکامی کے بعد مکیش نے اپنی ساری توجہ پلے بیک سنگنگ پر مرکوز کردی۔
    اس کے بعد سال 1958 میں ریلیز ہونے والی فلم ’یہودی‘ کے کامیاب گانے ’یہ میرا دیوانہ پن ہے‘ سے مکیش کو بطور گلوکار ایک شناخت ملی۔ اس کے بعد مکیش نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ایک سے ایک بہترین نغموں سے سامعین مسحور کیا۔
    مکیش نے تین دہائی پر محیط اپنے فلمی کیریئر میں 200 سے زیادہ فلموں کے لئے گیت گائے۔ مکیش کو چار بار فلم فیئر کے بہترین گلوکار کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ سال 1974 میں ریلیز ہوئی فلم ’رجنی گندھا‘ کے گیت ’کئی بار، یوں بھی دیکھا ہے ‘ کے لئے انہیں      نیشنل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
    ان کے گائے ہوئے گانوں نے فلموں کو حیات جاودانی بخش دی ۔ ان میں جس دیش میں گنگا بہتی ہے ، سنگم ، ملن ، پہچان ، شور ، روٹی کپڑا اور مکان اور کبھی کبھی جیسی فلمیں ہیں ۔ خاص طور سے فلم ”کبھی کبھی “ کے گانے ”میں پل دو پل کا شاعر ہوں“ کو کافی شہرت حاصل ہوئی ۔ فلم’ تیسری قسم ، کے گانوں’سجن رے جھوٹ مت بولو ۔ خدا کے پاس جانا ہے ‘ بھی بچے بچے کی زبان پر تھا ۔
    نغموں کے بے تاج بادشاہ مکیش نجی زندگی میں بےحد حساس شخصیت کے مالک تھے جس کی جھلک ان کے درد بھرے گیتوں میں بھی صاف نظر آتی ہے۔ وہ دوسروں کے دکھ درد کو اپنا درد سمجھتے تھے اور اسے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ایک واقعہ اس طرح ہے کہ ایک بار ایک لڑکی بیمار ہوگئی۔ اس نے اپنی ماں سے خواہش ظاہر کی کہ اگر مکیش انہیں کوئی گانا گاکر سنائیں گے تو وہ ٹھیک ہوسکتی ہے۔ ماں نے جواب دیا کہ مکیش بہت بڑے گلوکار ہیں، وہ کہاں تمہارے لئے وقت نکال سکیں گے۔اگر وہ یہاں آ بھی جائیں تو ان کو بلانے کے لئے کافی پیسوں کی ضرورت ہوگی۔ تب اس کے ڈاکٹر نے مکیش کو اس لڑکی کی بیماری کے بارے میں بتایا۔
    مکیش فوراً ہی لڑکی سے ملنے اسپتال پہنچ گئے اور اسے گانا گاکر سنایا اورا س کے لئے انہوں نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔ لڑکی کو خوش دیکھ کر مکیش نے کہا ’اس لڑکی جتنی خوشی میرے یہاں آنے سے ملی ہے۔۔۔ اس سے زیادہ خوشی مجھے یہاں آکر ملی ہے ‘۔
    سال 1976 میں مکیش ، راج کپور کی فلم ’ستیم شیوم سندرم‘ کے گیت ’چنچل، نرمل، شیتل‘ کی ریکارڈنگ پوری کرنے کے بعد امریکہ میں ایک کنسرٹ میں شامل ہونے کے لئے چلے گئے جہاں 27 اگست 1976 میں دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوگیا۔
    مکیش نے متعدد میوزیک ڈائریکٹروں کے ساتھ کام کیا ۔ لیکن انہوں نے فلموں میں سب سے زیادہ راج کپور کو آواز دی ۔ اسی لئے ان کی موت پر راج کپور نے جب خراج عقیدت پیش کیا تو یہی کہا کہ میری تو آواز ہی گم ہو گئی کیونکہ مکیش میری آواز تھے ۔
    مکیش نے گانے تو ہر قسم کے گائے مگر درد بھرے گیتوں کا چرچا مکیش کے گیتوں کے بغیر ادھورا ہے۔ان کی آواز نے درد بھرے گیتوں میں جو رنگ بھرا ہے اسے دنیا کبھی بھلانہیں سکے گی۔درد کا بادشاہ کہے جانے والے مکیش نے اگر زندہ ہوں میں اس طرح سے ،یہ میرا دیوانہ پن ہے(یہودی)او جانے والے ہو سکے تو لوٹ آنا(بندنی)،دوست دوست نہ رہا(سنگم)جیسے گانوں کو اپنی آواز کے ذریعہ درد میں ڈبو دیا تو وہیں کسی کی مسکراہٹ پے ہو نثار(انداز) جانے کہاں گئے وہ دن(میرا نام جوکر)،میں نے تیرے لئے ہی سات رنگ کے سپنے چنے(آنند)کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے(کبھی کبھی)چنچل شیتل نرمل کومل(ستیم شیوم سندرم)جیسے گانے گا کر پیار کے احساس کو اور گہرا کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔یہی نہیں مکیش نے اپنی آواز میں میرا جوتا ہے جاپانی (آوارہ) جیسا گانا گا کر لوگوں کو سارا غم بھول کر مست ہو جانے کا بھی موقع دیا۔ مکیش کے ذریعہ گائی گئی تلسی رامائن آج بھی لوگوں کوبھکتی کے جذبے سے جھومنے پر مجبور کر دیتی ہے۔قریب 200 سو سے زیادہ فلموں میں آواز دینے والے مکیش نے موسیقی کی دنیا میں اپنے آپ کو درد کا بادشاہ تو ثابت کیا ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ عالمی سطح کے گلوکار کے طور پر اپنی پہچان بھی بنائی۔فلم فیئر ایوارڈ پانے والے وہ پہلے مرد گلو کار تھے۔

     

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS