ڈاکٹر دھرمیندر پرتاپ سنگھ
گزشتہ کچھ سالوں میں ہندوستان کی کچھ ریاستوں میں پیپر لیک ہونے کے واقعات میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح کے واقعات سے نہ صرف امتحانی نظام کی شفافیت، غیرجانبداری اور اعتماد میں کمی آئی ہے، بلکہ طلبا کے مستقبل پر بھی بحران کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ اس معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے سرکاری بھرتی کے امتحانات میں پیپر لیک اور جعلی ویب سائٹس جیسی دیگر بے ضابطگیوں کو روکنے کے لیے لوک سبھا میں ایک تاریخی بل ’عوامی امتحانات(غیر منصفانہ طریقوں کی روک تھام) بل2024‘ (Public Examinations (Prevention of Unfair Means) Bill)لوک سبھا میں پیش کیا ہے۔ مرکزی وزیر جتیندر سنگھ نے اسے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’فی الحال مرکزی حکومت اور اس کی ایجنسیوں کے پاس امتحانات میں پیپر لیک یا نقل جیسے جرائم سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس قانون نہیں ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ امتحانی نظام کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے والوں کی نشاندہی کی جائے اور ان سے سختی سے نمٹا جائے۔‘
پیپر لیک کے بڑھتے ہوئے واقعات برسوں سے معاشرے کے لیے تشویش کا اہم موضوع رہے ہیں۔ ایسے معاملات کسی بھی قوم کی تعلیم اور تعلیمی پالیسی کی ساکھ اور شفافیت پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ پیپر لیک ہونے سے نہ صرف تعلیمی نظام پر اعتماد کمزور ہوتا ہے بلکہ طلبا کی محنت اور انصاف کے تئیں ان کے اعتماد کو بھی کم کرتی ہے۔پیپر لیک ہونے کے مضر اثرات تعلیمی دنیا کے ساتھ ساتھ معاشرے کے لیے بھی تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ ایسے معاملات میں تعلیمی شعبے کے تئیں سماجی اور سیاسی حساسیت کم ہوتی ہے۔ اس سے تعلیمی شعبے کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے اور لوگوں کے ذہنوں میں تعلیمی نظام کے تئی اعتماد کو کم کرتا ہے۔ تعلیمی دنیا کا یہ بحران بنیادی طور پر طلبا کے مستقبل سے وابستہ ہے۔ اس طرح کے معاملات سے طلبا کے اعتماد میں کمی آتی ہے اور خاص طور پر ان طلبا کو نقصان ہوتا ہے جو محنت کرکے امتحانات کی تیاری کرتے ہیں۔ وہ اپنی محنت اور ایمانداری کے ساتھ دھوکہ محسوس کرتے ہیں۔ ان کے اندر انصاف کی امید کم ہوجاتی ہے۔ مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرنے والے طلبا میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ بل کے مقاصد اور وجوہات میں تحریر ہے کہ ’عوامی امتحانات میں بدعنوانی کی وجہ سے تاخیر ہوتی ہے اور امتحانات منسوخ ہوجاتے ہیں، جس سے لاکھوں نوجوانوں کے امکانات بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔‘ تعلیمی نظام کو داغدار کرنے والے ایسے مجرموں کے لیے سخت قوانین بنانے کا برسوں سے انتظار تھا۔اس نئے قانون کی پالیسیاں اور التزامات طلبا کے تحفظ اور پڑھائی میں ان کے اعتماد کو بڑھانے کے لیے کتنے کارآمد ثابت ہوتے ہیں، یہ تو وقت بتائے گا لیکن محفوظ اور غیرجانبدارانہ امتحانی عمل کی بحالی کے لیے ایسی قانونی کوششیں خوش آئند ہیں۔
گزشتہ کچھ سالوں میں کئی ریاستوں میں پیپر لیک ہونے کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے کئی امتحانات منسوخ کرنے پڑے۔ گزشتہ سال راجستھان میں ایک درجن سے زائد مسابقتی امتحانات کے پرچے لیک ہونے کے بعد اساتذہ کی بھرتی کا امتحان، ہریانہ میں گروپ ڈی کے عہدوں کے لیے عام اہلیت کا امتحان، گجرات میں جونیئر کلرکوں کی بھرتی کا امتحان اور بہار میں کانسٹیبل بھرتی کا امتحان سمیت کئی امتحانات منسوخ کرنے پڑے۔ اسی طرح راجستھان، تلنگانہ، مدھیہ پردیش، گجرات اور جھارکھنڈ میں پیپر لیک ہونے کی وجہ سے کئی امتحانات منسوخ کرکے دوبارہ منعقد کرنے پڑے۔ دوبارہ امتحان کرانے سے جہاں سرکاری املاک کا اضافی فنڈ خرچ ہوتا ہے تو وہیں حکومت اور مقامی انتظامیہ کو طلبا کی ناراضگی سے پیدا ہونے والے کئی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پیپر لیک ہونے کا واقعہ صرف ایک ریاست کا مسئلہ نہیں ہے۔ مختلف ریاستوں میں پیپر لیک اور نقل کے واقعات ہر روز رونما ہوتے ہیں اور ریاستیں پریشان نظر آتی ہیں۔ کئی ریاستوں نے پیپر لیک کے خلاف پابندیاں لگانے کے لیے اپنے قوانین بنائے ہوئے ہیں، لیکن قومی سطح پر اس کے خلاف ابھی تک کوئی ٹھوس التزامات نہیں تھے۔ راجستھان میں پیپر لیک مافیا پر لگام لگانے کے لیے پہلے سے ہی انسداد کاپی قانون موجود ہے، جس میں پہلے دس سال کی سزا کا التزام تھا۔ بعد ازاں بے روزگار نوجوانوں کے مطالبات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں ترمیم کرتے ہوئے عمر قید کی سزا کا التزام کیا گیا۔ گجرات جیسی کچھ دوسری ریاستوں نے بھی اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اپنے قوانین بنائے ہوئے ہیں۔ لیکن سخت اور مؤثر قانون کی عدم موجودگی کی وجہ سے پیپر لیک ہونے کے واقعات رکنے کے بجائے بڑھتے ہی گئے۔ ایسے میں زیادہ تر ریاستیں چاہتی تھیں کہ مرکزی حکومت ایک سخت قانون لائے۔ تمام ریاستیں اس کے دائرہ میں آئیں اور پیپر لیک کے واقعات میں ملوث مافیا پر قدغن لگایا جاسکے۔ امید ہے کہ یہ بل تمام ریاستوں کے لیے ایک ماڈل ڈرافٹ گائیڈ کے طور پر کام کرے گا۔
یہ قانون پیپر لیکس سے وابستہ منظم جرائم پیشہ افراد اور مافیا سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس بل میں منظم گروہوں اور بدعنوانی میں ملوث افراد کی شناخت کرکے ان سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے کئی سخت التزامات شامل ہیں۔ اصلی امتحان دہندگان کی جگہ پر جعلی امیدوار امتحان دینے کا مرتکب پایا گیا تو تین سے پانچ سال کی سزا کا التزام ہے۔غیرمنصفانہ طریقوں اور جرائم کا ارتکاب کرنے والے کسی بھی شخص یا افراد کو کم از کم تین سال قید کی سزا دی جائے گی، جسے پانچ سال تک بڑھایا جاسکتا ہے اور دس لاکھ روپے تک کا جرمانہ لگایا جاسکتا ہے۔ کسی بے ضابطگی میں امتحانی مرکز ملوث پایا جاتا ہے تو اس سینٹر کو اگلے چار سال تک کوئی بھی سرکاری امتحان کرانے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ امتحان میں بے ضابطگیوں میں ملوث پائے جانے پر مرکزی ایجنسی پر بھی ایک کروڑ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ پیپر لیک اور نقل کے معاملہ میں کوئی بھی ادارہ ملوث پایا گیا تو اس سے تمام امتحانی اخراجات وصول کیے جائیں گے اور اس کی املاک بھی ضبط کی جاسکتی ہے۔ اگر سرکاری افسر اس میں ملوث پائے جاتے ہیں تو انہیں بھی مجرم سمجھا جائے گا۔ کوئی باہری شخص امتحانی مرکز میں داخل نہیں ہوگا۔ پولیس کو بغیر کسی وارنٹ کے مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا حق ہے۔ ملزمان کو ضمانت نہیں ملے گی اور ان جرائم کو سمجھوتے سے حل نہیں کیا جاسکے گا۔ بل میں بیان کردہ کسی بھی جرم کی تفتیش ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس یا اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس کے عہدہ سے نیچے کا افسرنہیںکرے گا، وغیرہ۔
امتحان میں ہونے والی بددیانتی پر روشنی ڈالتے ہوئے بل میں کہا گیا ہے کہ پیپر یا آنسرکی لیک کرنا، امتحان میں براہ راست یا بالواسطہ امیدوار کی مدد کرنا اور کمپیوٹر نیٹ ورک، وسائل اور نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جرم سمجھا جائے گا۔اسی طرح کا سلوک کسی شخص، گروپ یا اداروں کی طرف سے کیے جانے کو بدانتظامی کے زمرہ میں رکھا گیا ہے۔ بل کے مطابق ،مجرموں سے امتحان کا سارا خرچ وصول کیا جائے گا۔ اس کی املاک بھی ضبط کی جا سکتی ہے۔ امتحان دہندگان کو اس قانون سے الگ رکھا گیا ہے۔ وہ اس کے دائرے میں نہیں آئیں گے اور نہ ہی کسی کو ہراساں کیا جائے گا۔ اس کے تحت ان لوگوں کے خلاف کارروائی ہوگی، جو امتحان کے شفاف نظام سے چھیڑ چھاڑ کریں گے۔
امید ہے کہ تعلیمی نظام میں وبا کی طرح پھیلے پیپر لیک کے مسئلے کو حل کرنے میں یہ بل کارآمد ثابت ہوگا اور اس کے وقار اور سالمیت کو بحال کیا جاسکے گا۔ بل کا مقصد ’عوامی امتحانی نظام میں زیادہ شفافیت، غیرجانبداری اور اعتماد میں اضافہ کرنا ہے اور نوجوانوں کو یقین دلانا ہے کہ ان کی دیانتدارانہ اور حقیقی کوششوں کا مناسب صلہ ملے گا اور ان کا مستقبل محفوظ رہے گا۔‘ یہ بل پیپرکی غیرقانونی تقسیم اور ان کے لیک ہونے کے خلاف سخت کارروائی کو یقینی بنائے گا، کیوں کہ اس میں پیپر کی حفاظت اور رازداری کو یقینی بنانے کے لیے بہت سے نئے التزامات ہیں۔ پیپر لیک کیس میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا ہے، اسے بحال کیا جاسکے گا۔ قابلیت، ہنر اور محنت کی بنیاد پر طلبا کو نئی تعلیمی پالیسی کے تحت ہر قسم کے مضامین پڑھنے اور روزگار کے متبادل کا انتخاب کرنے کا موقع ملے گا۔ حکومت نے قانون بنا کر اپنی طرف سے پہل کردی ہے۔ اب ہم شہریوں کو اس سمت میں آگے قدم بڑھانا ہوگا۔ قانونی اقدامات کے علاوہ اخلاقی طور پر ہمیں بیدارہوکر اسے اپنے اندر نافذ کرنا ہو گا۔ یہ اقدام زیادہ معنی خیز اور مستقل ہوگا۔rvr
پیپر لیک کا قانونی علاج: ڈاکٹر دھرمیندر پرتاپ سنگھ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS