مرکزی بجٹ: اقلیتوں کیلئے ترقیاتی اسکیمیں پوری طرح سے نظر انداز : ڈاکٹر جاوید عالم خان

0

ڈاکٹر جاوید عالم خان
مرکزی حکومت کے مشہور تھنک ٹینک نیتی آیوگ نے اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کے ترقیاتی پچھڑے پن کو اپنی کئی پالیسی دستاویز میں تسلیم کیا ہے اور ان کی معاشی اور تعلیمی بد حالی کو دور کرنے کیلئے کئی سفارشات بھی کی ہیں، اس کے برعکس مرکزی حکومت اقلیتوں کیلئے بجٹ گھٹا رہی ہے اور ان کے لیے نافذ کی جارہی ترقیاتی اسکیموں کو بند کررہی ہے۔ آنے والے مالی سال کیلئے عبوری بجٹ میں مرکزی وزیر خزانہ نے ملک کے عوام کو ’وکست بھارت‘ کا خواب ضرور دکھایا مگر ملک کی کل آبادی میں20فیصد اقلیتی طبقہ کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ اقلیتوں کی فلاح وبہبود کیلئے چلائی جارہی مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور کے بجٹ میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا گیا ہے اور مجموعی بجٹ میں اس کا تناسب مزید گھٹ کر06.فیصد ہوگیا ہے۔ تجزیہ سے پتا چلتا ہے کہ موجودہ مختص بجٹ گزشتہ دس سال پہلے کے مختص بجٹ کے برابر ہو گیا ہے۔2022-23میں وزارت برائے اقلیتی امور کے مختص بجٹ کے اخراجات کے تجزیہ سے پتا چلتا ہے کہ کل مختص بجٹ5020کروڑ روپے کی جگہ حقیقی خرچ803کروڑ روپے ہی کیا گیا جوکہ مختص بجٹ کا 16فیصد ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزارت کی اہم اسکیموں میں پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم، پوسٹ میٹرک اسکالرشپ، پری میٹرک اسکالرشپ، فری کوچنگ اسکیم اور میرٹ کم مینس اسکیم کے مختص کل بجٹ میں بجٹ اخراجات کا فیصد بالترتیب 13فیصد،6 فیصد،3 فیصد،32 فیصد اور10 فیصد کے آس پاس ہے، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کو اقلیتوں کیلئے ترقیاتی اسکیموں کے نفاذ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔حالانکہ اقلیتوں کیلئے ہمہ جہتی ترقی کیلئے2006سے مرکزی حکومت کے ذریعہ دو طرح کی پالیسی حکمت عملی کا آغاز کیا گیا تھا جن کو ہم اقلیتوں کی ترقی کیلئے وزیراعظم کا 15نکاتی پروگرام اور ملٹی سیکٹورل ڈیولپمنٹ پروگرام کے نام سے جانتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں ممبران پارلیمنٹ کے ذریعے اقلیتوں کی ترقی اور فلاح وبہبود کی اسکیموں کے نفاذ پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور کے ذریعہ پیش کیے گئے بجٹ اخراجات سے متعلق اعدادوشمار کے تجزیہ سے پتا چلتا ہے کہ اقلیتوں کیلئے نافذ کی جارہی اسکیموں کی صورتحال بہتر نہیں ہے۔ مرکزی حکومت کے ذریعہ دسمبر میں جاری کی گئی جائزہ رپورٹ میں یہ بتایا گیا تھا کہ آئین کے ذریعہ تسلیم شدہ اقلیتوں(مسلمان، عیسائی، جین، پارسی، بدھ، سکھ) کیلئے ہمہ جہتی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے 15نکاتی پروگرام کو نافذ کیا جارہاہے اور اس کے تحت اقلیتی طبقہ کیلئے مختلف وزارتوں کے ذریعہ چلائی جارہی کئی اسکیموں میں15فیصد بجٹ بھی مختص کیا جارہاہے اور ساتھ ہی اس پروگرام کے تحت 15فیصد مستفیدین کا ہدف بھی رکھاگیا ہے۔ ان تمام دعوؤں کے باوجود مرکزی وزیر خزانہ نے اس سے متعلق کوئی اعداد و شمار اس بجٹ میں پیش نہیں کیے ہیں۔ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اقلیتیں مرکزی برائے اقلیتی امور کے ذریعہ نافذ کی جارہی اسکیموں پر پوری طرح سے منحصر ہیں۔ اس وقت جن اسکیموں سے اقلیتیں 100 فیصد فائدہ اٹھا سکتی ہیں، ان میں سے کچھ اہم اسکیمیں جیسے کہ پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم، پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اسکیم، میرٹ کم مینس اسکیم، پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم، نیشنل مائنارٹیز ڈیولپمنٹ فائنانس کے ذریعہ لون اسکیم اور پردھان منتری وراثت کا سموردھن شامل ہیں۔
اس کے علاوہ15نکاتی پروگرام کے ذریعہ عمومی اسکیموں میں 15فیصد بجٹ مختص کرنے کا وعدہ2004میں کیاگیا تھا جیسے کہ تعلیم کیلئے سمگر شکشا ابھیان(وزارت برائے تعلیم)، روزگار کیلئے دین دیال انتودیا یوجنا یا، نیشنل رورل لائولی ہوڈ مشن، اسکل ڈیولپمنٹ کیلئے دین دیال اپادھیائے گرامین کوشل یوجنا، گھروں کی فراہمی کیلئے پردھان منتری آواس یوجنا(وزارت برائے دیہی ترقی)، نیشنل اربن لائولی ہوڈ مشن(وزارت برائے شہری امور اور ہاؤسنگ)، بینکوں کے ذریعہ ترجیحی سیکٹر کیلئے قرضہ جات، پردھان منتری مدرا یوجنا(مالی خدمات کا شعبہ)، پوشن ابھیان(وزارت برائے خواتین اور بچوں کی ترقی)، نیشنل ہیلتھ مشن اور آیوشمان بھارت(وزارت برائے صحت اور خاندانی بہبود) اور پینے کے پانی کی فراہمی کی قومی اسکیم(پانی اور صفائی ستھرائی کا شعبہ) شامل ہیں۔
اگر 15نکاتی پروگرام کے تحت اسکیموں میں اقلیتوں کیلئے مختص بجٹ کا استعمال صحیح طریقہ سے کیا جاتا تو اقلیتوں کی ترقی کی صورتحال کافی بہتر کی جاسکتی تھی۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اس کے ذریعہ فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد کے بارے میں مکمل طور سے اعداد و شمار مہیا نہیں کرائے جارہے ہیں۔ جن اسکیموں سے100فیصد اقلیتی طبقہ فائدہ اٹھا رہا ہے، ان میں سے ایک اہم اسکیم نیشنل مائنارٹیز ڈیولپمنٹ فائنانس کارپوریشن ہے لیکن اس سال کے بجٹ میں اس ادارے کے مختص فنڈ میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ جبکہ حکومت کے ذریعہ پیش کی گئی حالیہ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق این ایم ڈی ایف سی کے تحت 8300کروڑ روپے کا لون 22.5لاکھ مستفیدین کو فراہم کرایا گیا ہے۔ اس کے تحت فائدہ اٹھانے والے لوگوں میں85فیصد عورتیں ہیں۔ یہ ادارہ اقلیتوں کے پسماندہ طبقے کی سماجی اور اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے قائم کیاگیا تھا، اس اسکیم کے تحت پیشہ ورانہ گروپ اور عورتوں کو ترجیح دی جاتی ہے، اس اسکیم کو نافذ کرنے کیلئے صوبائی حکومتوں کے ذریعہ قائم کی گئی ایجنسیز(State Channelising Agencies) اور کینرا بینک کے ذریعہ نافذ کیاجارہاہے۔
2023-24 کے بجٹ میں مرکزی حکومت نے پردھان منتری وکاس سموردھن اسکیم کا آغاز کیا جس کے تحت 540کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے حالانکہ 2024-25 کے بجٹ میں اس اسکیم کے تحت بجٹ تخمینہ اور نظرثانی بجٹ شدہ بجٹ میں تخفیف کردی گئی ہے۔ اس اسکیم میں ہنرمندی، انٹرپرینیورشپ اور صنعت کاروں کو مالی و تکنیکی سہولتیں مہیا کرائی جائیں گی، یہ اسکیم اسکل انڈیا مشن کے اشتراک میں کام کرے گی۔ اسکیم کے تحت2025-26 تک 9لاکھ لوگوں کو فائدہ حاصل ہوگا۔ چونکہ اس اسکیم کو 2023-24میں شروع کیاگیا تھا، اس لیے اس کے نفاذ کی صورتحال کا بہتر جائزہ لینا مشکل ہے، اس لیے اس اسکیم کے تحت اعدادوشمار سرکاری سطح پر مکمل طور پر مہیا نہیں کرائے گئے ہیں۔
اقلیتی اکثریتی بلاک، ٹاؤن اور ضلع ہیڈکوارٹر میں سماجی اور اقتصادی انفرااسٹرکچر کو مضبوط بنانے کیلئے پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم کا نفاذ کیاجارہاہے، 2022-23میں اس اسکیم کی گائیڈلائن میں تبدیلی کی گئی ہے اور اس اسکیم کے نفاذ کی میعاد کو مالی سال2022-23سے لے کر 2025-26 تک رکھا گیا ہے۔ اس کے تحت پروجیکٹ کی منظوری اقلیتوں کی ضرورتوں کی بنیاد پر دی جائے گی جہاں پر(15کلومیٹر کے دائرے میں) 25 فیصد اقلیتوں کی آبادی رہائش پذیر ہے۔2023-24 میں اس اسکیم کے تحت مختلف طرح کے پروجیکٹس کی منظوری دی گئی ہے جس میں اسکول کی عمارت، رہائشی اسکول، ہاسٹل، آئی ٹی آئی، اسکل سینٹر، ہاسپٹل، صحت کے مراکز، سدبھاؤنا منڈپ، کمیونٹی ہال، اسپورٹس کمپلیکس اور کام کرنے والی عورتوں کیلئے ہاسٹل۔ اس اسکیم کے تحت مختص بجٹ کا استعمال پوری طرح سے نہیں کیا جارہا ہے۔2022-23 میں اس اسکیم کے تحت 1650کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے لیکن حکومت کے ذریعے پیش کیے گئے نظرثانی شدہ تخمینہ کے مطابق صرف 500کروڑ روپے مختلف منصوبوں کے لیے جاری کیے گئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بجٹ 2023-24میں جن وکاس کاریہ کرم کیلئے صرف600کروڑ روپے ہی مختص کیے گئے۔ اگرچہ2024-25کے بجٹ میں اس اسکیم میں اضافہ تو ضرور ہوا ہے مگر2023-24کے نظرثانی شدہ بجٹ میں اخراجات مزید کم ہوگئے ہیں۔
وزارت برائے اقلیتی امور کے مالی سال 2022-23 میں وزارت کیلئے مختص بجٹ5020کروڑ روپے تھا جو 2023-24میں گھٹ کر3097کروڑ روپے ہوگیا ہے۔ بجٹ تخفیف سے متعلق سوالات کے بارے میں وزارت کا یہ کہنا ہے کہ صوبوں اور ضلعی سطح پر اقلیتوں کیلئے نافذ کی جارہی اسکیمیں بہتر ڈھنگ سے کام نہیں کررہی ہیں۔ پری میٹرک اسکالرشپ جو پہلے درجہ ایک سے10تک دی جارہی تھی، وہ اب9ویں اور10ویں جماعت کے طلبا کو ہی فراہم کی جارہی ہے۔ مدرسہ جدید کاری اسکیم، مولانا آزاد فیلوشپ اور مولانا آزاد فاؤنڈیشن کو مکمل طور سے بند کردیا گیا ہے۔ ان ساری وجوہات کی بنا پر اقلیتی امور کی وزارت کا بجٹ 2022-23 کے مقابلے تقریباً40فیصد گھٹ گیا ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دلتوں، آدی واسیوں اور معذوروں سے متعلق وزارتوں اور شعبوں کے موجودہ بجٹ میں بہت زیادہ اضافہ تو نہیں کیاگیا ہے لیکن ان کے بجٹ کو گھٹایا بھی نہیں گیا ہے۔ دلتوں اور آدی واسیوں کی وزارت کے بجٹ میں بالترتیب13000.20اور13000 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ حالانکہ ان وزارتوں اور شعبوں کی اسکیموں کے نفاذ کی صورتحال بہت بہتر نہیں ہے، اس کے باوجود بھی ان وزارتوں کی کوئی تخفیف نہیں کی گئی ہے۔ اس لیے مرکزی حکومت کے پاس وزارت برائے اقلیتی امور کے بجٹ کو گھٹانے کیلئے کوئی مناسب دلیل نہیں ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ حکومت اقلیتوں کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی معاملات میں تعصبانہ رویہ برت رہی ہے۔ اس لیے حکومت سے یہ درخواست ہے کہ اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے وزارت برائے اقلیتی امور کے بجٹ کو دلتوں اور آدی واسیوں کے مختص بجٹ کے برابر رکھنا چاہیے، ساتھ ہی جن اسکیموں کو بند کیا ہے، انہیں بحال کیا جانا چاہیے۔ اسکالرشپ اسکیموں میں اہلیت، مالی تعاون اور کوٹا میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔15نکاتی پروگرام کو دلتوں اور آدی واسیوں کیلئے چلائے جارہے سب پلان کی طرز پر نافذ کیا جانا چاہیے۔
(مضمون نگار پالیسی تھنک ٹینک سی بی جی اے سے وابستہ ہیں۔ )
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS