ناگالینڈ سے ساری دنیا سیکھے

0

ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک

ناگالینڈ تریپورہ اور میگھالیہ میں بی جے پی کا ڈنکا بج گیا،یہ ملک نے بغور دیکھا لیکن وہاں جو اصل غیرمعمولی واقعہ رونما ہوا ہے، اس کی طرف لوگوں کی توجہ بہت کم مبذول ہوئی ہے۔ وہ غیرمعمولی واقعہ یہ ہے کہ جن پارٹیوں نے الیکشن میں ایک دوسرے کی سخت مخالفت کی، انہوں نے بھی مل جل کر اب نئی حکومت بنائی ہے۔ اتنا ہی نہیں، وہ چھوٹی پارٹیاں، جو قومی سطح پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخالفت کرتی رہی ہیں، انہوں نے بھی ناگالینڈ میں ایسی حکومت بنائی ہے، جیسی دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں بھی نہیں ہے۔ ناگالینڈ کی نئی حکومت ’نیشنلسٹ ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی‘کی قیادت میں بنی ہے۔ اس کے لیڈر نیفیو ریو وزیراعلیٰ ہیں۔ ان کی60رکنی اسمبلی میں ایک بھی رکن ایسا نہیں جو کہے کہ میں اپوزیشن میں ہوں یا میں اپوزیشن پارٹی ہوں۔ تو کیا ہم یہ مان لیں کہ ریو نے ساٹھ میں سے ساٹھ سیٹیں جیت لیں؟ نہیں، ایسا نہیں ہوا ہے۔ ان کی پارٹی اور بی جے پی کو سب سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں لیکن ان کی کل تعداد 37 ہے۔60میں سے 37 یعنی آدھی سے صرف 7زیادہ! پھر بھی کیا بات ہے کہ ناگالینڈ میں کوئی اپوزیشن پارٹی نہیں ہے۔ جن آٹھ پارٹیوں نے اپوزیشن کے طور پر الیکشن لڑا تھا، ان میں 4پارٹیاں ناگالینڈ کے باہر کی تھیں۔ تمام آٹھوں پارٹیوں کے جیتے ہوئے ایم ایل اے نے کہا ہے کہ ہم حکمراں اتحاد کے ساتھ ہیں۔ ابھی تک یہ یقینی نہیں ہے کہ ان حریف پارٹیوں کے ایم ایل اے میں سے کچھ کو وزیر بنایا جائے گا یا نہیں۔ شرد پوار کی نیشنل کانگریس پارٹی کو7سیٹیں ملی ہیں۔وہ تیسری سب سے بڑی پارٹی ہے۔ وہ کشمکش میں ہے، بی جے پی سے ہاتھ ملانے میں! اسی لیے وہ حکومت کو باہر سے سپورٹ کرے گی۔ جو بھی ہو، ناگالینڈ میں جو حکومت بنی ہے، میری رائے میں وہ دنیا کی تمام جمہوریتوں کے لیے ایک مثال ہے۔ دنیا کی پارلیمنٹ میں حکمراں اور اپوزیشن کی پارٹیاں جو فضول کا دنگل کرتی ہیں اور اپنا اور ملک کا وقت برباد کرتی رہتی ہیں، اس سے ہندوستان، ایشیا، افریقہ، امریکہ اور یوروپ کے جمہوری ممالک کو چھٹکارا ملے گا۔ جو بھی حکومت اتفاق رائے سے بنے، اس میں پارٹی کی تعداد کے تناسب سے وزیر بنائے جا سکتے ہیں۔ کابینہ کے تمام فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوں گے۔ ناگالینڈ سے ہندوستان اور دنیا کی تمام سیاسی جماعتیں تحریک لے کر اپنے اپنے ممالک میں ویسی ہی حکومتیں بنا سکتی ہیں، جیسی آزادی کے بعد 1947میں ہندوستان میں جواہر لعل نہرو کی قیادت میںتشکیل دی گئی تھی۔اس نہرو حکومت میں گاندھی کے سخت مخالف بھیم راؤ امبیڈکر اور جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی بھی وزیر تھے۔ اس کے14وزراء میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، پارسی، جنوبی ہندوستانی، دلت، خواتین وغیرہ تمام طبقات کی نمائندگی تھی۔ وہ واقعی ایک قومی حکومت تھی۔ آج کی پارٹیوں پر مبنی حکومتوں میں بھی ان طبقوں کی نمائندگی ہوتی ہے لیکن ان سب پر حملہ کرنے کے لیے ہم غیر ضروری طور پر ایک اپوزیشن بنا لیتے ہیں۔
(مضمون نگار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS