لکش دیپ: لوگ سراپا احتجاج

0

مرکز کے زیرانتظام علاقہ لکش دیپ 36 جزائر پر مشتمل ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یہ 32.62 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی مجموعی آبادی 64,473 ہے۔96.58فیصدمسلمان، 2.77 فیصد ہندو، 0.49 فیصد عیسائی، 0.02 فیصد بدھسٹ، 0.02 فیصد جین، 0.01 سکھ، 0.11 فیصد دیگر مذاہب کے لوگ ہیں۔ یعنی لکش دیپ ’کثرت میں وحدت‘کی ایک بہترین مثال ہے۔ لکش دیپ ہندوستان کی ملی جلی تہذیب کا نظارہ پیش کرتا ہے مگر اس کے حالات اب بدل رہے ہیں۔ حالات بدلنے کے لیے ایڈمنسٹریٹر پرفل کھوڑا پٹیل ایسے فیصلے بھی لے رہے ہیں جس کی بظاہر کوئی منطق نظر نہیں آتی۔ مثلاً: لکش دیپ کا شمار اب تک ہندوستان کے پرامن علاقوں میں ہوتا رہا ہے۔ بسا اوقات کئی شہروں میں ایک دن میں جتنی وارداتیں ہو جاتی ہیں، لکش دیپ میں پورے سال نہیں ہوتیں۔ 2017 میں 8، 2018 میں 6 اور 2019میں 16 وارداتیں ہوئیں۔ 2019 میں قتل، اغوا، عصمت دری یا ڈکیتی کا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا۔ اس کے باوجود پرفل کھوڑا پٹیل کے انتظامیہ نے اِنٹی غنڈا ریگولیشن یعنی لکش دیپ پری وِنشن آف اِنٹی سوشل ایکٹیویٹیزریگولیشن کا مسودہ تیار کیا جس کے تحت غیر سماجی سرگرمیوں کے شبہ میں کسی کو بھی بغیر مقدمہ چلائے چھ مہینے سے ایک سال تک جیل میں رکھنے کی اجازت ہوگی تو پہلا سوال یہی اٹھتا ہے کہ اس مذموم قانون کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟ کیا لکش دیپ انتظامیہ کاکچھ خفیہ پروگرام ہے یا لکش دیپ میں وہ کچھ بڑی تبدیلی کرنا چاہتا ہے اور اسی لیے وہ پہلے ہی ایسا قانون بنا لینا چاہتا ہے تاکہ وقت آنے پر لوگوں کو طاقت کے بل پر کنٹرول کرنا آسان ہو؟ بات اگر یہ نہیں ہے تو پھر ایڈمنسٹریٹر پرفل کھوڑا پٹیل کو یہ بتانا چاہیے کہ وہ کیسا لکش دیپ بنانا چاہتے ہیں؟ کیا ان کی پالیسیاں مرکز کی مودی حکومت کی پالیسیوں سے الگ ہیں؟ الگ اگر نہیں ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک طرف مرکز نے بیف کے ایکسپورٹ پر کوئی پابندی نہیں لگا رکھی، 2016 میں برازیل کی طرح وطن ہندوستان بھی 19.60 فیصد بیف ایکسپورٹ کرکے بیف کے عالمی ایکسپورٹ میں سرفہرست تھا اور 2020 میں بیف کا چوتھا بڑا ایکسپورٹر تھا جبکہ دوسری طرف پرفل کھوڑا پٹیل کے انتظامیہ کی تجویز ہے کہ گائے، بھینس، بیل اور بچھڑے کے ذبیحے اور بیف یا بیف کے پروڈکٹ بیچنے، لانے لے جانے، جمع کرنے پر پابندی عائد ہو۔
اب تک غیرآباد بنگارام آئی لینڈ کو چھوڑ کر لکش دیپ کے کسی بھی حصے میں شراب بیچنے کی اجازت نہیں تھی مگر نئی تجویز کے مطابق، مقامی لوگوں کے لیے نہیں مگر ریسٹورنٹوں میں سیاحوں کے لیے شراب بیچنے کی اجازت ہوگی۔ پرفل کھوڑا پٹیل کے انتظامیہ نے یہ فیصلہ اس حقیقت کے باوجود کیا ہے کہ لکش دیپ لوگ شراب کی لت چھڑانے کے لیے بھی آتے ہیں۔ لکش دیپ انتظامیہ کا ایک اور متنازع فیصلہ پنچایت ریگولیشن 2021 ہے۔ اس کے تحت دو بچوں سے زیادہ والوں پر گرام پنچایت کا ممبر بننے پر پابندی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ اس ضابطے کی ضرورت کیوں محسوس کی جا رہی ہے جبکہ 96 بی جے پی ارکان پارلیمان کو 3 یا اس سے زیادہ بچے ہیں۔ کیا ایک ملک میں دو ضابطہ ہونا چاہیے؟ پرفل کھوڑا پٹیل کی ایک اور تجویز لکش دیپ ڈیولپمنٹ اتھارٹی ریگولیشن ہے۔ مقامی لوگوں کو تشویش ہے کہ بڑے سیاحتی پروجیکٹوں پر کام ہونے سے لکش دیپ کی ماحولیات متاثر ہوگی تو تشویش کی وجہ یہ بھی ہے کہ انتظامیہ کی تجویز اتھارٹی کو چھوٹی زمین والوں سے زمین لینے کا اختیار دینے والی ہے، چنانچہ ایسا لگتا ہے کہ پورا لکش دیپ پرفل کھوڑا پٹیل کے فیصلوں کے خلاف سراپا احتجاج بن گیا ہے۔ انتظامیہ کے متنازع فیصلوں کے خلاف آج لوگوں نے 12گھنٹوں کی بھوک ہڑتال کی۔ رپورٹ کے مطابق، ’پرفل پٹیل کی نئی تجاویز کے خلاف لکش دیپ کے گھر گھر میں مظاہرہ ہو رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں، لوگ سمندر کے اندر جاکر بھی تختیاں لے کر احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ لوگوں کے زبردست احتجاج کی وجہ سے مرکز کی تشویش میں اضافہ ہونے لگا ہے۔‘ یعنی حالت یہ ہے کہ جو جہاں ہے وہیں سے احتجاج کر رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’ساحل پر پوسٹر لگاکر، دکانوں کے باہر تختیاں لگاکر، گھر کے باہر چارپائی پر ہی بیٹھ کر اور دیگر دوسرے طریقے سے بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔‘ اس سلسلے میں مرکزی حکومت کو جلد فیصلہ لینا چاہیے۔ کورونا کے اس دور میں یوں ہی کئی مسئلے ہیں، کسانوں کا مسئلہ سلجھا نہیں ہے، اقتصادی محاذ پر بڑی چنوتیاں ہیں۔ ایسی صورت میں مرکزی حکومت کے فیصلے سے یہ اندازہ ہوگا کہ پرفل کھوڑا پٹیل کے فیصلے اس کے لیے اہم ہیں یا لکش دیپ کا امن!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS