شمیکا روی
کورونا کے بڑھتے معاملات کے دوران پورے ملک میں بیڈ، آکسیجن، ڈاکٹروں وغیرہ کی کمی کی خبریں آرہی ہیں کیوں کہ پورا انفرااسٹرکچر خرچ ہوگیا ہے۔ ایسے میں کئی ریاستوں میں مقامی لاک ڈاؤن لگ رہے ہیں کیوں کہ حالات کو لوگوں پر نہیں چھوڑ سکتے۔ گزشتہ 6-7ماہ ایسا کیا گیا تھا، جس کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ صرف ہمارے یہاں نہیں، سبھی جگہ ہوا ہے۔ جیسے جاپان میں چوتھی لہر آچکی ہے۔ یعنی ایسا ہوتا رہے گا، لیکن ملک میں ابھی کورونا کے روزانہ 1.70لاکھ تک معاملے آرہے ہیں، یہ اعدادوشمار اتنے نہیں ہونے چاہیے تھے۔ دوسری لہر کا اتنا بڑا ہونا ضروری نہیں تھا۔ اسے ماسک، سوشل ڈسٹینسنگ اور بڑے انعقادوں سے بچ کر روکا جاسکتا تھا۔
ملک میں نئے ویریئنٹ کے معاملہ میں برازیل، جنوبی افریقہ، یوکے کی بات کی جارہی ہے۔ ہندوستان میں یوکے والا ویریئنٹ پنجاب میں ملا، لیکن باقی مقامات کا جینوم میپنگ ڈیٹا کہاں ہے؟ ہمارے پاس آئی سی ایم آر، این ایچ ایس آر سی، این سی ڈی سی جیسے ادارے ہیں، پھر بھی اتنی کم معلومات! ہندوستان میں ہم جینوم میپنگ رئیل ٹائم میں کیوں نہیں کرپارہے؟ کر بھی رہے ہیں تو ڈیٹا کہاں ہے؟ شروعات میں جیسے اینٹی باڈی والے سروے ہوتے تھے، وہ اب کیوں نہیں ہورہے ہیں؟ ہورہے ہیں تو ڈیٹا کہاں ہے؟ ان سے ہی سمجھ آئے گا کہ اب کی مرتبہ نیا ویریئنٹ ہے یا احتیاط میں لاپروائی برتنے سے انفیکشن پھیلا ہے۔ بغیر ڈیٹا کے ہم بس اندازہ ہی لگاسکتے ہیں۔
ہمیں35-37لاکھ لوگوں کے روزانہ ٹیکہ کاری کے موجودہ اوسط کو بڑھانے کی کوشش کرنی ہوگی۔ جب 30-40 فیصد آبادی یعنی آبادی کے بڑے حصوں کو ٹیکہ لگ جاتا ہے اور اینٹی باڈی بن جاتی ہیں، پھر وہ ویکسین کے سبب ہو یا انفیکشن کے سبب قدرتی طور پر بنی ہوں، تو انفیکشن میں اضافہ اپنے آپ کم ہوجاتا ہے۔ حالاں کہ مختلف اسباب سے سپلائی میں آرہی کمی سے اس اعدادوشمار کو پانے میں ابھی وقت لگے گا۔ 40لاکھ ٹیکوں کی سپلائی کے لیے ہمیں بہت پروڈکشن کرنا پڑے گا۔
لوگ ڈرے ہوئے ہیں۔ ملک میں آج تک کل 1.36کروڑ لوگ متاثر ہوچکے ہیں۔ یہاں صرف ان معاملات کی بات کرہے ہیں، جن کا انفیکشن ٹسٹ میں پہچانا گیا۔ ان میں 13ماہ میں تقریباً 1.22کروڑ ٹھیک ہورہے ہیں؟ کیوں کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ اینٹی باڈی صرف6-7 ماہ تک رہتی ہیں اور ری انفیکشن عام طور پر کم ہوتے ہیں۔ تبھی تو یہ بھی بات ہورہی ہے کہ ویکسین کے ذریعہ دی گئی اینٹی باڈی جب کم ہوگی تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا پھر سے ٹیکہ کاری کی ضرورت پڑے گی۔ نہیں، کیوں کہ تب تک اگر بہت لوگوں کو ٹیکہ لگ جاتا ہے تو مقامی وبا بن جاتی ہے اور انفیکشن کم مہلک ہوجاتا ہے۔ لیکن ہمیں ابھی یہ نہیں معلوم کہ جو لوگ ٹھیک ہوچکے ہیں، ان میں اینٹی باڈی کی کیا حالت ہے۔ اسی لیے سروے بہت ضروری ہیں۔
ممبئی، پونے، چنڈی گڑھ جیسے تمام زیادہ معاملات والے شہروں میں مسلسل سروے ہونے چاہیے۔ تب ہم یہ معلوم کرپائیں گے کہ یہ نیا ویریئنٹ ہے یا پرانا ویریئنٹ ہے لیکن اینٹی باڈی ختم ہوگئی ہیں اس لیے انفیکشن بڑھ رہا ہے۔ یہ ساری چیزیں تجرباتی جانچ سے سمجھ آتی ہیں۔ ابھی تو ہم ہوا میں، تھیوری کی بنیاد پر بات کررہے ہیں۔ ہمارے پاس اتنی تو صلاحیت ہونی چاہیے کہ ہم ہندوستان کے اندر ویریئنٹ اور اینٹی باڈی کی حالت جان سکیں۔
ہمارے ملک میں کومابڈیٹی(ہم آہنگی کی اصطلاح) بہت کم عمر میں شروع ہوجاتی ہے۔ جیسے آج کل 30سے 45سال کے لوگوں میں بھی مرض قلب، ہائپرٹینشن، ذیابیطس وغیرہ بیماریاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ دیکھا جائے تو نوجوان بھی انتہائی حساس ہیں کیوں کہ انہیں ہم نے ٹیکہ دینا شروع نہیں کیا۔ تو جو بھی پالیسیاں بنیں، وہ اعدادوشمار پر مبنی ہونی چاہئیں۔
ابھی انفیکشن کا فیصد بہت زیادہ ہے۔ سرگرم معاملے 12لاکھ سے زیادہ ہیں، جو ہمارے انفرااسٹرکچر کے حساب سے بہت زیادہ ہیں۔ اگر12-13لاکھ میں سے ایک فیصد کو بھی آکسیجن کی ضرورت پڑی تو سپلائی کیسے ہوگی؟ یہ دیکھنا ہوگا کہ آگے پالیسی کیا رہے گی؟ کنٹینمنٹ کی حکمت عملی کیا ہے؟ کیا لاک ڈاؤن ہی راستہ ہے؟ ریاستوں کو اپنے اسپتالوں کی صلاحیت کے حساب سے فیصلہ لینا ہوگا۔ میں ملک گیر لاک ڈاؤن کا مشورہ نہیں دوں گی کیوں کہ یہ مہنگا پڑا ہے۔ غیرمنتظم کارکن (Unorganized worker) بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ مقامی سطح پر ہی لاک ڈاؤن کرنے پڑیں گے۔ صحت ریاستوں کا ہی معاملہ ہے۔ آپ کون سی پالیسی لائیں گے یہ ریاستی انتظامیہ کے ہی اوپر ہے۔ ایسے وقت میں مرکز کا کردار رہنما کا ہووتا ہے۔ جیسے مرکز معیار(criteria) طے کرے کہ اتنی ٹیسٹنگ ہونی چاہیے، ایسے کانٹیکٹ ٹریسنگ ہونی چاہیے وغیرہ۔ جنوری میں جب ٹیکہ کاری شروع ہوئی تھی، تب جتنے لوگوں کی ٹیکہ کاری ہورہی تھی اور جتنے نئے متاثرین آرہے تھے، وہ ایک ٹکاؤشرح تھی۔گزشتہ 1.5ماہ سے ٹیکہ کاری کی شرح میں مزید اضافہ ہوا ہے، لیکن کورونا کے معاملات بھی تیزی سے بڑھنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایکٹو کیس کا گروتھ ریٹ تقریباً 6.9فیصد ہوگیا۔ ٹیکہ کاری کا اثر ابھی کم نظر آرہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے ناکام کوشش سمجھیں۔ ہمیں35-37لاکھ لوگوں کے روزانہ ٹیکہ کاری کے موجودہ اوسط کو بڑھانے کی کوشش کرنی ہوگی۔ جب 30-40 فیصد آبادی یعنی آبادی کے بڑے حصوں کو ٹیکہ لگ جاتا ہے اور اینٹی باڈی بن جاتی ہیں، پھر وہ ویکسین کے سبب ہو یا انفیکشن کے سبب قدرتی طور پر بنی ہوں، تو انفیکشن میں اضافہ اپنے آپ کم ہوجاتا ہے۔ حالاں کہ مختلف اسباب سے سپلائی میں آرہی کمی سے اس اعدادوشمار کو پانے میں ابھی وقت لگے گا۔ 40لاکھ ٹیکوں کی سپلائی کے لیے ہمیں بہت پروڈکشن کرنا پڑے گا۔
(مضمون نگار وزیراعظم کی اکنامک ایڈوائزری کونسل کی سابق ممبر ہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)