علم اور اسلام کی تعلیمات

0

ڈاکٹرمحمد اقتدار حسین فاروقی
علم کا لفظ اپنے تمام تر معنی ومفہوم کے ساتھ قرآن پاک میں متعدد بار استعمال ہوا ہے۔ اللہ کے وجود پر یقین رکھنے اور اس کی ربوبیت کے اقرار کو علم کہا گیا ہے، کائنات کے مطالعہ کو علم کا نام دیا گیا ہے، قدرت کے رموز سے پردہ اٹھانے کی کوشش کو بھی علم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ غرضیکہ دین و دنیا کی ہر تلاش وجستجو کو علم کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس ضمن کی چند آیات اس طرح ہیں :
(۱) جسے حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دے دیاگیا۔ (سورہ بقر -۲۶۹)
(۲) تم میں سے وہ لوگ ایمان رکھنے والے ہیں جن کو علم بخشا گیا ہے اللہ ان کوبلند درجے عطا فرمائے گا۔ (مجادلہ۔۱۱)
(۳)ان سے پوچھوکیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوںکبھی یکساں ہوسکتے ہیں، نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں۔ (سورہ زمر۔۹)
(۴) اسی طرح ٹھپا لگا دیتاہے اللہ ان لوگوںکے دلوں پر جو بے علم ہیں۔ (سورہ روم۔۵۹)
(۵) اور ایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحب علم سے بالا تر ہے۔ (سورہ یوسف ۷۶)
(۶)اوردعا کرو اے رب مجھے مزید علم عطا کر۔(سورہ طٰہ۔۱۱۴)
(۷) جو بات غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے اوریہی دانش مند ہیں۔ (سورہ زمر۔۱۸)
(۸) ان میں ان لوگوںکے لئے نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔(سورہ رعد۔۴)
(۹) ہم نے نشانیاں واضح کردی ہیں ان لوگوںکے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ (سورہ عنکبوت۔۳۵)
(۱۰)کیاتم عقل سے کام نہیں لیتے۔ (سورہ انعام۔ ۱۳۲)۔
(۱۱) کیا تم سوچتے نہیں۔(انعام۔۵۰)
(۱۲) اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیںجاسکتی۔ (سورہ روم۔ ۳۰)
(۱۳) ان سے کہو کہ زمین میں چلو پھرو اوردیکھو کہ اس نے کس طرح خلق کی ابتداء کی ہے۔(عنکبوت۔۲۰)
(۱۴) ان کے پاس دل ہے مگر وہ سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ (سورہ اعراف : ۱۷۹)
(۱۶) بیشک ہم نے اس کتاب قرآن کریم میں تمہارے لئے اتارا ہے ذکر ونصیحت پس تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے۔(سورہ انبیاء۔۱۰)
(۱۷) بیشک جو لوگ عقل سے کام نہیںلیتے وہ اللہ کے نزدیک کسی بد ترین حیوان کی طرح ہیں جو نہ سن پاتے ہیں نہ بول پاتے ہیں۔(سورہ انفال۔۳)
(۱۸) جو لوگ عقل سے کام نہیںلیتے خدا ان پر گندگی ڈال دیتا ہے۔ (سورہ یونس۔۱۱)
(۱۹)خدا کے نزدیک بد ترین قسم کے جانور وہ بہرہ گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔( سورہ انفال آیت۔۲۲)
مندرجہ بالا آیات کے علاوہ قرآن میں علم کو زہد (28 : 80 ) پارسائی(35 : 28) فتح یابی (28 : 78) ثابت قدمی (18 : 68) ایمان (34 : 6) اور تزکیہ (2 : 129) کا سر چشمہ بتایا گیا ہے۔ علم کو فخر اور روشنی کا ذریعہ بھی کہا گیا ہے27 : 15 , 13 : 16))۔
جہاں ایک جانب زندگی کے ہر شعبہ میں علم کی برتری اور حکمرانی پر زور دیا گیا ہے وہیں بے خبری، لا علمی اور جہالت سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ صاف الفاظ میں فرمایا گیا ہے کہ ’’لا علم (جاہل) لوگوں کی جگہ دوزخ ہے (7 : 179 )اس کے علاوہ جہل سے پیدا ہونے والی برائیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ مثلاً اعلان ہوا ہے کہ لا علمی کے سبب کفر (7 : 138) تصادم (59 : 14) گستاخی (49 : 4)سرکشی (48 : 26 ) اور بد چلنی (27 : 55) جیسی برائیاں جنم لیتی ہیں۔
قرآنی احکامات کی روشنی میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تسخیر دنیا کی خاطر مختلف علوم کے حصول کے لئے ہدایات صادر فرمائیں جس کا اصل مدعا عام مسلمانوں میں عقلیت پسندی کے رواج کو عام کرنا تھااور علم کو ایک لازمی سرگرمی جتانا تھا۔ اس ضمن کے کچھ ارشادات اس طرح ہیں :
(۱)علم کا حصول ہر مسلمان (مرداورعورت) کے لئے فریضہ ہے۔(۲)یااللہ میں کسل وکاہلی سے پرہیز مانگتا ہوں
(۳) تم میں سے بہتر وہ ہے جو دنیا کے بدلے آخرت کو نہ چھوڑے اور نہ آخرت کے بدلے دنیا سے منھ موڑے اورنہ لوگوں پر بوجھ نہ بنے۔(۴)سب انسان سے بہتر وہ انسان ہے جس سے لوگوں کو نفع پہنچے۔
(۵) میری امت کے بہترین لوگ عالم ہیں اور بہترین عالم رحم دل ہیں۔
(۶) تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جو خلق کے لحاظ سے بہتر ہو۔
(۷) علم حاصل کرو خواہ اس کے حصول کے لئے چین کا سفر اختیار کرناہو۔
(۸) عالم کے قلم کی سیاہی شہید کے خون سے زیادہ ہے۔
(۹) اچھا سوال آدھا علم ہے۔
(۱۰) جوشخص علم کے حصول کے لئے سفر اختیار کرتا ہے وہ اللہ کی راہ پر ہے حتی کہ وہ واپس ہوجائے۔
(۱۱) علم کاحصول پیدائش سے لے کر قبر تک چلنا چاہیے۔
(۱۲) ایک گھنٹہ کی محنت بسلسلہ حصول علم کہیں زیادہ اہم ہے بمقابلہ شہیدوں کی نماز۔
(۱۳) سب سے قبل جو چیز پیدا کی گئی وہ علم تھی۔
(۱۴) علم حاصل کرو کیونکہ اس کا حصول اللہ کی راہ پہ چلنا ہے۔
(۱۵) جو شخص اپنا گھر علم کے حصول کے لئے چھوڑتاہے وہ اللہ کے راہ پر چلتا ہے۔
(۱۶)علم حاصل کرنے کے خواہش مند جنت میں فرشتوں کی جانب سے خوش آمدید کہے جائیں گے۔
(۱۷) جو شخص علم اور عالم کا طرف دار ہے اللہ اس کا طرف دار ہے۔
(۱۸) جو شخص عالم کی عزت کرتا ہے وہ میری عزت کرتا ہے۔
(۱۹) ایک حکمت والا شیطان پر زیادہ سخت ہے بمقابلہ سو عابدوں کے۔
(۲۰)عالم عابد پر اسی طرح بہتر ہے جیسے چاند تاروں پر۔
(۲۱) فرشتے اپنے پر پھیلائیں گے عالموں کو خوش آمدید کہنے کے لئے۔
(۲۲) عالم اصل میں نبیوں کے وارث ہیں۔
(۲۳) ایک مومن علم سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہوتا ہے۔
(۲۴) حکمت ایک کھوئی ہوئی دولت ہے جسے حاصل کرنا ہر مومن کا فرض ہے۔
قرآنی حکم اور پیغمبری ہدایات کی بنا پر عہد وسطیٰ میں مسلمانوں نے دنیاوی علوم پر زبردست قدرت حاصل کی۔ انہوں نے دینی علم کو دنیاوی علم سے الگ نہیں دیکھا۔ بلکہ دنیاوی علوم کے حصول کو عین دینی عمل سمجھا، یہ سلسلہ ایک ہزار سال جاری وساری رہا۔اس دور میں غیر اسلامی دنیا نے مسلمانوں سے بہت کچھ سیکھا اور اپنی ترقی کی راہیں ڈھونڈنے میں اس علم کی ضرورت کو محسوس کیا جسے مسلمانوں نے عام کردیا تھا۔ آسٹریا کا ایک دانشور ڈاکٹر ہنس کوچلر نے ایک حالیہ بین الاقوامی کانفرنس میں تسلیم کیا کہ ’’یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ اسپین کی مسلم تہذیب نے ہی عہد وسطیٰ میں یورپ کو جہالت سے چھٹکارا دلایا اور فکری وعلمی ترقی کے راستے دکھلائے‘‘۔
عہد وسطیٰ میں اسلام نے علمی بلندیوں کو چھونے کے لئے دنیا کے تمام علوم سے استفادہ حاصل کیا اور ان میں ایک نئی روح پھونکی۔ بھولے ہوئے ہندوستانی، چینی، ایرانی اور یونانی علوم کو نئی زندگی بخشی اور ایسے علمی سماج کی بنیاد رکھی جس کی ساری دنیا نے قدر کی۔ اس دور میں الکندی، ابوالقاسم زہراوی، زکریا رازی، ابن نفیس، ابن خلدون، ابن بیطار، مسکویہ، ابن رشد، البیرونی، بوعلی سینا، ابوکامل، خوارزمی، بغدادی، مسعودی، جابربن حیان، ابن ہیثم، الفارابی اور الغزالی جیسی مستند ہستیوں کا اسلامی دنیا میں جنم ہوا جنہیں آج بھی یورپ کے دانشور فلسفہ، کیمیا، طبعیات، ریاضیات، فلکیات وغیرہ کے مینارے مانتے ہیں۔ اور تسلیم کرتے ہیں کہ اگر یہ شخصیات ظہور میں نہ آئی ہوتیں اور ان کے انکشافات نے سائنس کو جلا نہ بخشی ہوتی تو یقینا آج کا سائنسی انقلاب رونما نہ ہوپاتا، نیوٹن ، گلیلیو اور کیپلر جیسے دانشور حیرت انگیز انکشافات پانے میں کامیاب نہ ہوپاتے۔
مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک دینی ودنیاوی علوم کو برابر کا درجہ عطا کیا یہ وہ دور تھا جب دینی علماء عصری علوم کے واقف کار ہوا کرتے تھے لہٰذا ملت کی امامت نہایت خوبی سے کیا کرتے تھے، لیکن نہ جانے کیوں اور کیسے یہ صورت بدلی اور مسلمان رہنمائوں ، میں عصری علوم سے بیزاری پیدا ہوئی۔پھر کیا تھا اسلامی زوال کادور شروع ہوگیا جو اتنا عبرت انگیز تھا کہ بقول ایک دانشور محمد محمود ’’آج دنیا کے منظر نامے میں قوم مسلم پست ترین مقام پر ہے اور پچھلی دو صدیوں میں اسے جس طرح کی ذلت وخواری اور شکست کا سامنا ہوا ہے اس کی دوسری مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ہے‘‘۔سچ تو یہ ہے کہ تاریخ انسانی میں آج تک کسی قوم نے نہ تو اتنی بلندی پائی اور نہ اتنی پستی میں جاگری جتنی کہ قوم مسلم کے حصہ میں آئی۔ اس صورت حال کے ذمہ دار یقینا وہ حضرات تھے جنہوں نے دین کو دنیا سے الگ کیا اور اْن حکمرانوں کے اشاروں پر کام کرتے رہے جو مسلمانوں کو جاہل رکھنے میں اپنی عافیت سمجھتے تھے۔ ان حکمرانوں نے اوہام پرستی اور بدعات کو خوب بڑھاوا دیا نیز سیدھے سادھے لیکن جاہل عوام کو باور کرایا کہ یہ رسوم (Rituals) ہی در اصل دین اور روحانیت کا حصہ ہیں اور ان کی زندگی کا مدعا ومقصد ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عام مسلمانوں کی نظروں میں علم کی کوئی اہمیت باقی نہ رہی اور حکمرانوں کو اپنے ظالمانہ اور غیر اسلامی اقتدار کوبرقرار رکھنے میں آسانیاں فراہم ہوتی رہیں۔ایک اسلامی اسکالر نسیم حسن نے کتنا سچ کہا ہے کہ Diminishing Muslim Vision of Knowledge is singularly responsible for the decline of vitality and power of Muslim civilization.
افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج ہمارے ملی رہنما اس سچائی سے آنکھیں موندے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ اصل میں اللہ سے دوری اور اعمال بد مسلمانوں کے زوال کے اسباب ہیںگویا کہ جو قومیں مسلمانوں پر غالب ہیں وہ اللہ سے زیادہ قریب ہیں اور بہترین اعمال کے حامل ہیں۔ کسی افلاس زدہ، شکست خوردہ اور پریشان مسلم قوم کو یہ جتانا کہ ان کی حالت زار کی وجہ ان کی بد اعمالیاں ہیں بڑا ہی تکلیف دہ نظریہ ہے۔حق تو یہ ہے افلاس اور جہل کے باوجود آج بھی ایک عام مسلمان اپنے اللہ اور رسول کا زیادہ شیدائی ہے اور دینی جذبہ میں سرشار ہے وہ دوسروں کے مقابل زیادہ عبادت گزار بھی ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ علم کی اہمیت کا احساس وہ کھو چکا ہے کیوں کہ سماج کے مٹھی بھر ذی علم اور صاحب اقتدار طبقہ نے اس بات کی چنداں ضرورت نہ سمجھی کہ علم کو اسلامی تمدن میں عام کیا جائے حالانکہ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ قوم مسلم کو یقین دلایا جاتا کہ ان کا شاندار ماضی پھر سے لوٹ سکتا ہے بشرطیکہ وہ سائنس کو اپنی وراثت سمجھتے ہوئے پھر سے اس میں سبقت حاصل کرے اور سائنسی تدابیر سے اپنی قسمت کو بدل کر رکھ دے۔
موجودہ صورت حال پر حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی کا خیال بھی مسلمانوں کو دعوت فکر دیتا ہے انہوںنے مغربیت اور اسلام کے درمیان کشمکش پر اپنی تصنیف میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’انسانیت کی مصیبت علم کوایمان سے علیحدہ کردینے میں ہے اس علیحدگی اوردوری نے اسلامی تمدن کو ہر طرح کے مصائب میں مبتلا کردیا ہے —— آج ایمان کو علم کی رفاقت کی ضرورت ہے اور علم کو ایمان کی سرپرستی‘‘۔
مولانا موصوف نے ہی متعدد بار اپنی تحریروں اور تقریروں میں یہ بات دہرائی کہ سائنسی سرگرمی اصل میں مسلمانوں کی وراثت تھی جس کے اصل وارث مغرب والے بن بیٹھے اور بقول ان کے ’’ہمارے ہی حربوں سے ہم پر حکم چلانے لگے‘‘۔علم کی توجیہ کرتے ہوئے مولانا اخلاق حسین قاسمی فرماتے ہیں کہ ’’اسلام کے بارے میں یہ تصور انتہائی ناقص ہے کہ اسلام صرف عقائد وعبادات کا مذہب ہے اور اسی دائرہ کا علم وہ علم ہے جس کو سیکھنے کاحکم مسلمانوں کو دیا گیا ہے‘‘۔
مسلمانوں کا غیر علمی رویہ در اصل سولہویں صدی میں رواج پاچکا تھا جب انہوں نے یورپ کے تاریک دور کے طور طریق کو اپنا کر اپنے زوال کے اسباب پیدا کر لئے جبکہ یورپ نے مسلمانوں کے علمی اور فکری طرز زندگی کو اپنا کر ترقی کی جانب گامزن ہونے کے مواقع فراہم کر لئے جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔بہر حال اب وقت آگیا ہے کہ قوم مسلم بے معنی مباحث سے چھٹکارا پائے اور ماڈرن بصیرت رکھنے والے دانشوروں کی مدد سے علوم مختلفہ کے حصول کے لئے اپنے کو وقف کردے۔ اس کوشش کے بغیر قعر مذلت سے نکلنا ممکن نہیں۔ قرآن بھی تو یہی فرماتا ہے :
ترجمہ : – ’’واقعی اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت میں تغیر نہیں کرتا جب تک کہ وہ لوگ خود اپنی حالت کو نہیں بدل دیتے‘‘۔ (سورہ رعد آیت-۱۱)
دنیا بہت تیز رفتار سے بدل رہی ہے۔ بہت کچھ بدل چکی ہے۔ ہمیشہ کے لئے۔ اسکی واپسی نا ممکن ہے۔ بدلتے زمانے کیجدید تقاضے ہیں۔ ان سے خود کو ہم آہنگ کرناکتنا ضروری ہے؟

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS