خواجہ عبدالمنتقم
قانون آ زاد ی ہند با بت 1947 کے ذریعے بالترتیب 14اگست اور 15اگست، 1947کو دو آزاد مملکتیں پاکستا ن و ہندوستان وجود میں آئیںاور برٹش پارلیمنٹ کی خود مختاری اورجواب دہی کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کراؤن کا کوئی اختیار باقی نہیں رہا اور وہ تمام بااختیار گورنر جنرل اور صوبائی گورنر جو اپنی شان و شوکت اورپھو ں پھاں کے لیے جانے جاتے تھے اور جن تک عوام کی دسترس نہایت مشکل بلکہ چند پسندیدہ شخصیتوں کو چھوڑ کر تقریباً ناممکن تھی محض ریاستوں کے آئینی سربراہ بن کر رہ گئے اور قانون ساز اسمبلی کو اپنی پسند کا آئین منظور کرنے کی اجازت دے دی گئی۔26جنوری1950یعنی یوم جمہوریہ وہ مبارک دن ہے جب ہندوستان کا آئین مکمل طور پر نافذہواتھااوراس نے انگریزوں کی حکومت کے دوران بنائے گئے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ، 1935 کی جگہ لی تھی۔ 26نومبر 1949 کوہماری آئین ساز اسمبلی نے آئین کے جس متن کو منظوری دی تھی، اسی کے ساتھ ہمارے ملک میں جمہوریت کی بنیاد پڑی لیکن اگرہم صحیح معنوں میں پارلیمانی جمہوریت کے آغاز کی بات کریں تو یہ 13مئی 1952کو ہوا یعنی اس دن جب ہندوستان کی پارلیمنٹ وجود میں آئی۔آئین کے نفاذ کے لیے 26جنوری کی تاریخ کا انتخاب بھی تاریخی اہمیت کاحا مل ہے۔در اصل 26 جنوری 1929کو ہی اس وقت کی انڈین نیشنل کانگریس نے لاہور میں سوراج یعنی اپنی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ہر آئین یا دستور کی اپنی ایک تاریخ ہوتی ہے اور بھارت کا آئین بھی انگریزی سامراج کے زمانے سے آج تک بہت سے ادوار سے گزرا۔ آئیے اب آئین کے تاریخی پس منظر اور و ضعی سفر پر مختصر اً روشنی ڈالتے ہیں۔ کیبنٹ مشن پلان میں دی گئی تجویز کو رو بہ عمل لانے کے لیے نومبر، 1946میں قانون ساز اسمبلی وجو دمیں آئی۔اس کے ارکان کو بالواسطہ انتخاب کے ذریعے منتخب کیا گیا۔برٹش انڈیا کی 296نشستوں میں سے211نشستوں پر کانگریس اور 73نشستوں پر مسلم لیگ جیتی۔ اس طرح اسمبلی نے ایک خودمختار ادارے کی شکل اختیار کرلی جو اپنی مرضی کے مطابق اپنا پسند یدہ آئین وضع کرنے کا اختیار رکھتی تھی۔ اس کے اہم ارکان میں شامل تھے پنڈت جواہر لعل نہرو، ڈاکٹر امبیڈکر، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر راجندر پرشاد ، گووند ولبھ پنت، سردار پٹیل، خان عبدالغفار خاں، گوپال سوامی آینگر، ٹی ٹی کرشنمچاری، الاّدی کرشنا سوامی ایر، ایچ این کنزرو، کے وی شاہ،مسانی، اچاریہ کرپلانی اور ڈاکٹر رادھا کرشنن۔ اسمبلی کا پہلا اجلاس 9دسمبر 1946کو ہوا تھا۔11دسمبر 1946کو ڈاکٹر راجندر پرشاد اس کے چیئرمین منتخب ہوئے۔اسمبلی نے ایک تجویز منظور کی جسے Objectives Resolution کا نام دیا گیا، یہی تجویز بھارت کے آئین کی تمہید کی بنیاد بنی۔ یہ تجویز پنڈت جواہر لعل نہرو کی تحریک پر 13دسمبر1946کو پیش کی گئی او راسے اتفاقِ رائے سے 22جنوری 1947کو منظور کر لیا گیا۔ اس تجویز میں تقریباً اُن تمام آزادیوں کا ذکر ہے جن کی آئین کے جز 3میں ضمانت دی گئی ہے۔آئین کو وضع کرنے کے لیے ڈاکٹر امبیڈکر کی چیئرمین شپ میں 19اگست1947کو ایک ڈرافٹنگ کمیٹی وجود میں آئی۔ فروری1948میں اس قانون کا مسودہ(ڈرافٹ) شائع کیا گیا۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا، 26نومبر1949کو آئین کو منظوری دے دی گئی اور اس کا مکمل اطلاق 26جنوری 1950کو ہوا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ آئین کی دفعات 392,391, 388, 380, 379, 367, 366, 324, 60, 9, 8, 7, 6, 5اور393، 26نومبر 1949 کو ہی نافذ العمل ہوگئی تھیں۔
26 جنور ی کی نہ صرف تاریخی اہمیت ہے بلکہ قانونی اعتبار سے بھی یہ دن کافی اہمیت کا حامل ہے چونکہ اس دن کو پورے ملک میں دستاویزات خرید و فروخت، چیک وغیرہ سے متعلق قانون (Negotiable Instruments Act) کے تحت لازمی عام چھٹی کا درجہ حاصل ہے۔اس قانون کے تحت اگر کسی دن کو لازمی عام تعطیل یعنی چھٹی کا درجہ دیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی قانونی عمل اس دن تک کیا جانا ہے تو یہ دن اس کی میعاد میں شامل نہیں ہوتا اور اس عمل کو اس تعطیل کے اگلے دن انجام دیا جاسکتا ہے۔
کو ن سا ملک کتنا مہذب اور قانونی اعتبار سے کتنا ترقی یافتہ ہے، اس بات کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس ملک کے دستور میں عوام کو تمام سیاسی، سماجی، معاشی، تہذیبی، ثقافتی و مذہبی حقوق حاصل ہیں یا نہیں اور ان پر عمل بھی ہورہا ہے یا نہیں۔ اگر کسی ملک کے دستور میں وہاں کے عوام کو ان حقوق کی مکمل ضمانت نہیں دی جاتی تو ہمیشہ یہ خدشہ بنا رہتا ہے کہ ارباب حکومت یا وہ لوگ جن کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہے، کب ان حقوق کو پامال کردیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آزادی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ جو چاہیں کرسکیں۔ آزادی ہمیشہ مختلف پابندیوں یا تحدیدات کے ساتھ عطا کی جاتی ہے۔ آزادی کا مقصد لا قانونیت نہیں۔ان حقوق کا استعمال اس طرح کیا جانا چاہیے کہ اس سے امن عامہ اور اخلاق عامہ پر منفی اثر نہ پڑے۔ کوئی ایسا شخص جس کے بنیادی حقوق یا حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے، عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔اس سلسلے میں وہ آئین کی دفعہ32 یا دفعہ 226 کے تحت بالترتیب سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں رٹ داخل کرسکتا ہے۔
گجرات کے سابرمتی آشرم میں اپنے ایک خطاب میں سابق صدرِ مملکت پرنب مکھرجی نے کہا تھا کہ اصل گندگی وہ نہیں جو گلیوں میں نظر آتی ہے بلکہ وہ ہے جو معاشرے کو تقسیم کرنے والے خیالات کے سبب ہمارے دماغ میں موجود رہتی ہے اور یہ کہ گاند ھی جی نے بھی ایک انصاف پسند، غیرجانبدار اور امن وآشتی والے معاشرے کا تصور کیا تھا جس میں ملک کا ہر طبقہ بغیر کسی جھجھک کے ترقی کرسکے اور اسے معاشرے میں احترام و عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔
آئیے 74 ویں یوم جمہوریہ پرہم ایک بار پھر یہ عہد کریں کہ ہم کسی کو ظلم وستم اورجبروتشدد کا نشانہ نہیں بننے دیںگے، نہ سر تن سے جد ا ہو نے دیںگے اور نہ لنچنگ ہوگی،اقلیتوں اور کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو کبھی گئو رکشا کے نام پر، کبھی محض مذہبی یا طبقاتی بنیاد پر تو کبھی ان کے تشخص کے باعث نشانہ نہیںبنایا جا ئے گا،نہ کوئی بانگ اذان پر اعتراض کرے گا اور نہ صدائے ناقوس پر، کسی کے لباس اور طرز زندگی، شناخت اور یہاں تک کہ عبادات کے طریقوں پر بھی انگلی اٹھانا جیسی حرکتیں نہیں کی جائیں گی، مذہبی یا طبقاتی بنیاد پر شہریوں،پناہ گزینوں کے ساتھ جانبدارارانہ رو یہ،سوشل میڈیا کا ناجائز استعمال، ناجائز انہدامی کارروائی، بدکلامی، عاملہ اور عدلیہ کے مابین بدمزگی کو ناپسندیدہ اعمال تصور کیا جا ئے گا اور کسی ملک غیر اور غیر ملکی ایجنسی کو اس با ت کا نہ توموقع دیا جائے گا اور نہ اجازت کہ وہ ہم پر انگلی اٹھا سکیں۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]