عارف محمد خاں
(مترجم: محمد صغیر حسین)
چوں کہ ہم اب بھی فرقہ وارانہ تقسیم اور ہندوستان کے بٹوارے کے محرکات اور اس کے لیے ذمہ دار افراد پر مصروف بحث ہیں، اس لیے تحریک خلافت(1919-1924) اور اس کے بعد رونما ہونے والے سیاسی واقعات پر ازسرنو ایک نگاہ ڈالنا مناسب ہوگا۔
خلافت احتجاج دراصل دوردراز واقع ترکی میں پہلی عالمی جنگ کے بعد ہونے والی تبدیلیوں کے تعلق سے ہندوستانی طبقۂ علماء کا ردعمل تھا۔ اس جنگ میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا اور اسے ایک شکست خوردہ فریق کی حیثیت سے برطانیہ اور اُس کے حلیفوں کی صادر کی ہوئی ذلت آمیز شرائط تسلیم کرنی پڑی تھیں۔
ذہن نشیں رہے کہ جنگ سے بہت پہلے عثمانی حکومت میں داخلی بحران شروع ہوچکا تھا۔ 1909 میں نوجوان ترک سلطان عبدالحمید کے محل میں جبراً داخل ہوگئے تھے اور انہوں نے سلطان کو معزول کردیا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب عربوں نے بھی اپنی آزادی کے لیے قوم پرستانہ خواہشات کا اظہار شروع کردیا تھا۔ جنگ کے دوران عربوں نے سلطان کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اتحادی قوتوں سے 1916میں ہاتھ ملالیا جنہوں نے بدلے میں عربوں کو آزادی اور حکومت خود اختیاری دینے کا وعدہ کرلیا۔
لیکن ہندوستان میں، اگرچہ اس کا خلافت عثمانیہ سے کوئی تاریخی ربط و تعلق نہ تھا، مسلم طبقۂ علماء نے خلافت کی بقاء کو اسلام کی بقا کے لیے لازمی قرار دیا۔ انہوں نے خلافت عثمانیہ کی مدافعت کے لیے خود کو منظم کیا اور ایک کل ہند خلافت کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی کی پہلی میٹنگ دہلی میں 23نومبر 1919کو منعقد ہوئی۔ مہاتماگاندھی نے اس میٹنگ میں شرکت کی اور بعد میں اس تحریک کی قیادت بھی سنبھالی۔ انہوں نے اس سلسلے میں پورے ہندوستان کا دورہ کیا اور تقریباً تمام بڑی مسجدوں کے منبر سے لوگوں کے عظیم اجتماعات سے خطاب کیا۔
کلکتہ میں، فروری 1920میں منعقدہ خلافت کانفرنس نے دعویٰ کیا کہ ’’شریعت اسلامیہ ہر دور میں ایک خلیفہ اور امام کی متقاضی ہوتی ہے۔ خلیفہ سے مراد وہ مسلم حکمراں ہے جس کے زیراقتدار ایک قلمرو ہو اور وہ ایک مقتدر حاکم ہو تاکہ وہ مسلم آبادیوں کو تحفظ دے سکے اور شریعت نافذ کرسکے۔‘‘
خلافت کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ عثمانی سلطان ’آفاقی خلیفہ‘ تھا جس کے تئیں تمام مسلمانوں کو خواہ وہ اس کی قلمرو سے باہر ہی کیوں نہ ہوں، مطیع و فرمانبردار ہونا لازم ہے۔ کمیٹی نے مزید توضیح کی کہ ’’عثمانی سلطان کی اطاعت اور خدمت ایک فریضہ ہے اور جو مسلمان سلطان کے اوامر کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتا وہ ازخود دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔‘‘
مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ آئندہ چار سالوں میں تحریک خلافت، ایک مضبوط برطانیہ مخالفت تحریک بن گئی جس نے سول نافرمانی کو ہوا دی۔ اس تحریک کی ناکامی کے سبب ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو افغانستان ہجرت کرنی پڑی۔ جوپلا بغاوت اور چوری چورا کا تشدد جس کے سبب گاندھی جی کو تحریک ختم کرنے پر مجبور ہونا پڑا، دراصل اسی تحریک کے رہینِ منت تھے۔
تحریک خلافت کے لیڈروں نے ترکی کے خسارے کو دنیائے عیسائیت اور اسلام کے مابین ایک جنگ قرار دیا۔ انہوں نے اس بین حقیقت سے صرف نظر کیا کہ ترکی نے ایک ایسی جنگ میں شرکت کی جس کے دونوں فریق عیسائی طاقتیں تھیں۔ طبقۂ علماء نے اپنے ہمہ اسلامی ایجنڈے کے پیش نظر، نوجوان ترکوں کے احساسات اور عربوں کے قومی جذبات و خواہشات، دونوں سے ہی مکمل طور پر چشم پوشی کی۔
قاضی عدیل عباسی نے اپنی کتاب تحریک خلافت میں تحریر کیا ہے کہ جامعہ ملیہ کے یوم تاسیس پر سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کے دوران مولانا محمود حسن کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو عربی لباس زیب تن کیے ہوا تھا۔ انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں اس لباس سے نفرت کرتا ہوں۔ یہ غداروں کا لباس ہے۔‘‘
یہ بات کس قدر متناقض ہے کہ جب ترکی کی نوجوان قیادت اپنے وطن عزیز کو جدیدیت اور ترقی کی شاہراہ پر لے جانے کے لیے کھڑی ہورہی تھی اور عرب خوداقتداری کے حق کا مطالبہ کررہے تھے، اس وقت ہندوستانی تحریک آزادی کے لیڈران مذہب کے نام پر ایک زوال آشنا، استبدادی حکومت کو بچانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔
تحریک خلافت بری طرح ناکام ہوگئی کیوں کہ خود ترکوں نے خلافت کو ختم کردیا۔ لیکن یہ تحریک، سیاسی تحریک کے ایک آزمودہ آلے کی حیثیت سے ’مذہبیت‘ کے تعارف میں کامیاب ہوگئی۔ اس ’مذہبیت‘ نے آئندہ سیاست بالخصوص 1947کے واقعات میں کیا کردار ادا کیا، لازمی طور پر اس پر ازسرنو غور کیا جانا چاہیے۔
(صاحب مضمون سردست ریاست کیرالہ کے عزت مآب گورنر ہیں)