خواجہ عبدالمنتقم : عاملہ اور عدلیہ کے مابین باہمی مفاہمت ناگزیر

0

خواجہ عبدالمنتقم

کسی بھی جمہوری ملک میں جمہوریت کی بقا کے لیے عدلیہ اور عاملہ (انتظامیہ) کے مابین خوشگوار تعلقات، باہمی مفاہمت اور ایک دوسرے کا احترام ناگزیر ہے اور ان دونوں سے ہمیشہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ آئین کی بالادستی اور ملک کے نظام قانون میں اس کی قانونی حیثیت سر بفلک کو ملحوظ خاطر رکھتے ہو ئے اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں رہ کر ہی اپنے فرائض انجام دیں گے۔ ایک جانب کبھی ارباب حکومت کو یہ شکایت رہتی ہے کہ عدلیہ اس طرح کے احکامات صادر کرتی ہے جن سے مداخلت کا گمان ہوتا ہے تو دوسری جانب عدلیہ بھی اپنے اختیارات کی تخفیف کے اندیشے کے مدنظر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔ ماضی بعید،ماضی قریب اور دور حاضر میں دونوں جانب سے اس قسم کے ناخوشگوار واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جیسے ایک جانب وزیر قانون کا وہ حالیہ بیان جس میں انہوں نے پھر ایک مرتبہ کولیجیم یعنی ججوں کی تقرری کے نظام کو نشانہ بنایا ہے تو دوسری جانب سپریم کورٹ کے ججز کا یہ کہنا کہ ہماری اس سلسلہ میں ارسال کردہ فائلوں کو روک کر رکھا جاتا ہے اور ان پر بر وقت فیصلے نہیں لیے جاتے۔ افسوس تو تب ہوتا ہے جب یہ معاملے پبلک ڈومین میں آجاتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت حال کیوں پیدا ہوتی ہے؟ یاد رہے کہ جہاں عدالت کو شہریوں کے حقوق کا کسٹوڈین یا محافظ مانا جاتا ہے تووہیں بقول سپریم کورٹ کے سابق جج کرشنا ایر انتظامیہ سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایسی صورت حال نہ پیدا ہونے دے کہ رکشک (محافظ) ہی بھکشک(قانون شکن) ہو جائے۔ متذکرہ اس سوال کا کہ ایسی صورت حال کیوں پیدا ہوتی ہے، واحد جواب یہ ہے کہ جب انتظامیہ اپنے فرا ئض کی انجام دہی میں کوتاہی برتے اور شہریوں کے آئینی حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے تو سپریم کورٹ انتظامیہ کی لغزشوں کو خاموش تماشائی بن کر نہیں دیکھ سکتی۔ اسے بے جا مداخلت نہیں کہا جاسکتا، یہ تو عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات پر نظر رکھے کہ انتظامیہ کوئی ایسا کام تو نہیں کر رہی ہے جس سے آئین یا اس کے تحت بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی ہو رہی ہو۔اس ضمن میں ہمیں اپنے سپریم کورٹ کی تعریف کرنی ہوگی کہ اس نے حکومت وقت کی مفاد عامہ سے متعلق کسی پالیسی میں مداخلت نہیں کی خواہ ایس سی/ایس ٹی کے لیے پروموشن میں ریزرویشن کا معاملہ ہو،کمزور طبقات کو ملازمت اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن کا معاملہ ہو یا ایسے کئی دیگر معاملات۔
ہر جمہوری نظام میں اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ وہاں عدلیہ کو مکمل آزادی حاصل ہو اور انتظامیہ کو اس بات کی اجازت نہ ہو کہ وہ عدالت کے کام کاج میں دخل اندازی کرسکے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جج اپنے من مانے ڈھنگ سے کام کریں اور دراصل ایسا ہوتا بھی نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس دیپک گپتا نے سبکدوشی کے موقع پر اپنے الوداعی خطاب میں بھارت کے آئین کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاتھا کہ ججوںکے لیے آئین ہی گیتا، قرآن،گروگرنتھ و بائبل ہے اور کیوں نہ ہو ؟یہ آئین ہی تو ہے جو ہندوستان کو ایک سیکولر اور عوامی جمہوریہ کا درجہ عطا کرتا ہے۔ جی ہاں! ایسی عوامی جمہوریہ جو سب کو یکساں مواقع فراہم کرتی ہے۔ یہ مذہب، ذات پات، نسل، زبان اور ہر طرح کی علاقائی عصبیت سے پاک ہے۔ یہ شہریوں کو سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف کا حق دیتی ہے اور ان کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔
ججز بھی قانونی حدود کے اندر رہ کر ہی اپنے فرائض انجام دیتے ہیںمگر کبھی کبھی ہماری عدلیہ کو بھی catch 22 جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ اس پس و پیش میں رہتی ہے کہ نرمی سے کام لے یا سختی سے،جب وہ کسی معاملے میں نرم رویہ اختیار کرتی ہے تو اس پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں اور جب وہ قدرے غیرمعمولی فعالیت کا اظہار کرتی ہے، خاص کر سرکار کی پالیسی سازی کی بابت، تو اسے عاملہ کے دائرۂ اختیار میں مداخلت کا نام دیا جانے لگتا ہے۔کچھ عرصہ قبل حکومت ہند نے ٹریبیبنلوں کے اراکین وغیرہ کی شرائط ملازمت میں تبدیلی سے متعلق ایک آرڈیننس کو سپریم کورٹ کے ذریعہ کالعدم قرار دیے جانے کو عاملہ کے دائرۂ اختیار میں دخل اندازی کا نام دیا تھا اور اس سلسلہ میں حکومت نے اپنے ایک حلف نامہ میں یہ اعادہ کیا تھاکہ پالیسی سازی کے معاملہ میں اسے سپریم کورٹ کی دخل اندازی قابل قبول نہیں تو دوسری جانب سپریم کورٹ کا یہ اسٹینڈ تھا کہ اسے نامناسب قانون سازی کے کسی بھی عمل پر عاملہ سے وضاحت طلب کرنے کا حق حاصل ہے۔اس طرح اس معاملے نے عدلیہ بنام عاملہ جیسے معاملے کی شکل اختیار کر لی تھی اور ٹکراؤ جیسی صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔
جمہوری ممالک میں یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ قانون بنانے والوں سے تو قانون کی تعبیر کرنے والے زیادہ طاقتور ہیں، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر سپریم کورٹ کسی قانون کو باطل قرار دیتا ہے یا اس میں کسی قسم کی کمزوری یا خامی کی طرف اشارہ کرتا ہے تو سرکار اس قانون میں ترمیم کرکے یا نیا قانون بنا کر ایک نئی راہ نکال سکتی ہے، جیسا کہ شاہ بانو کے معاملے میں کیا گیا تھا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ سپریم کورٹ زیادہ مضبوط ہے یا پارلیمنٹ، کوئی صحت مند بحث نہیں ہے۔ سب سے بالاتر تو بھارت کا آئین ہے۔ اگر کوئی جج معاشرے یا عوام کے مفادات کو دھیان میں رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ دیتا ہے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کے ذاتی رجحانات اس پر غالب آگئے ہیں۔ آخر جج بھی ایک انسان ہے، اسی معاشرے میں رہتا ہے جو بھی واقعات اس کے چاروں طرف پیش آتے ہیں، ان پر نظر ڈالتا ہے، انہیں محسوس کرتا ہے۔اگر کسی قانون سے جا نبداری کی بو آتی ہے یا اس سے وہ غرض پوری نہیں ہو سکتی جس کے لیے اسے وضع کیا گیا ہے تو عدالت حکومت کی پالیسی کے بارے میں اپنی رائے تو پیش کر ہی سکتی ہے۔صرف یہی نہیںازخود مداخلت بھی کرسکتی ہے۔اسے مداخلت بے جا نہیں کہا جا سکتا۔مزید یہ کہ وہ کسی قانون یا اس کے کسی جز کو کالعدم قرار دے سکتی ہے لیکن ایک پالیسی ساز ادارے کا رول ادا نہیں کرسکتی۔ اب جب آئین کی دفعہ50 کے تحت عدلیہ اور عاملہ کو علیحدہ کر دیا گیا ہے تو ان دونوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی حدود میں رہ کر اپنے اپنے فرائض انجام دیں اورلکشمن ریکھا یعنی حد فاصل پار کرنے کی کوشش نہ کریں۔ آ ج بھی کبھی کبھی یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے جب حکم عدولی اور توہین عدالت کے مرتکب بھی محض علامتی سزا پا کر چھوٹ جاتے ہیں یا سپریم کورٹ کے احکام کی کھل عام اس طرح دھجیاں اڑائی جاتی ہیں جیسے عدالت عظمی کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS