خواجہ عبدالمنتقم: جی20- کے ممکنہ اہداف کو پورا کرنے کا بہترین موقع

0

خواجہ عبدالمنتقم

جی-20 کی صدارت سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے جن مشترکہ ملکی و عالمی مسائل اور ہندوستانی حصولیابیوں کی روشنی میں ان کے حل کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان میں سے بیشتر اقوام متحدہ کے دوہزارسالہ اعلامیہ اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق دیگر دستاویزات میں شامل ہیں۔اس اعلامیہ میں حکومت کے سربراہوں کو یہ باور کرایا گیا تھاکہ ان کی یہ اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی عظمت، مساوات اور نصفت کے اصولوں کو عالمی پیمانے پر عملی جامہ پہنائیں تاکہ دنیا کے ہر حصہ میں سبھی لوگوں کو جنس، نسل، زبان یا مذہب کی تفریق کے بنا تمام انسانی حقوق اور بنیادی آزادیاں حاصل ہوسکیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی دھیان رکھا جانا چاہیے کہ عالمی پیمانے پر ایسے اقدام کیے جائیں جن سے ترقی پذیر معیشتوں اور ایسی معیشتوں کو، جو اس وقت ایک نئے دور میں داخل ہورہی ہیں، اس عمل میں موثر طریقے سے شریک ہونے کا موقع مل سکے اور وہ ان سے پورا پورا فائدہ اٹھاسکیں لیکن زمینی صورت حال اور غیر حل شدہ و حل طلب عالمی و علاقائی مسائل بشمول روس-یوکرین ’جنگ صغیر‘ جو کسی بھی وقت عالمی جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے،اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان التزامات پر ایمانداری سے عمل نہیں کیا گیا۔
مودی جی نے جی20- کے حوالہ سے دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ جن امور کا احاطہ کیا ہے اور جن میں سے بیشتر کو انہوں نے جی20- کی صدارت کے لیے ہندوستان کی حمایت پر عالمی رہنماؤں کے پیغامات کے جواب میں تشکراتی ٹوئٹ پردیے گئے پیغامات میں بھی دہرایا ہے، ان میں شامل ہیں ہندوستانی فلسفہ ’ وسو دھیو کٹمبکم‘ یعنی ’ ایک کرۂ ارض، ایک کنبہ‘ کے اصول کی بنیاد پر ایک کنبہ کے مابین ہم آہنگی، آفاقی اتحادکو فروغ، لسانیاتی امور، مذاہب، رسم و رواج، امن و سلامتی، ماحولیاتی مسائل، لازمی اشیا کی ایماندارانہ تقسیم، غربت کا خاتمہ، صحت، دہشت گردی، جمہوریت، مشاورت، شمولیت، بنی نوع انسانیت پر مرکوز عالمی خاکہ وضع کرنا اور یہ کہنا کہ ہم ہندوستان کو دنیا اور خصوصاً جی20- کے اراکین کے روبرو ایک مثالی ملک کی شکل میں پیش کریں گے اورانہیں اپنے ملک کی حصولیابیوں سے باور کراتے ہوئے مبنی بر انسانیت فیصلے لینے کے لیے مل جل کر کام کرنے کی دعوت دیں گے۔ جی20- کے ممکنہ اہداف بھی کافی حد تک،جیسا کہ مندرجہ ذیل التزامات کی تفصیل سے ظاہر ہے، تقریباً ان کا نقش ثانی ہی ہیں۔ اگر دوہزارسالہ اعلامیہ کی فریقین مملکتیں اپنے اہداف کے حصول کے لیے ایمانداری سے عمل پیرا ہوئی ہوتیں تو جی20- جیسی تنظیمیں وجود میں ہی نہیں آتیں۔متعلقہ فریقین کو خود احتسابی کی ضرورت ہے:
دوہزارسالہ اعلامیہ کے جی20- کے مشابہ اہم اہداف
آزادی: سبھی مرد و زن ایک ایسی باوقار زندگی گزارنے کے حقدار ہوں گے جو تشدد، ناانصافی یا کسی بھی طرح کے مظالم سے مبرا ہوں جس میں کوئی شخص بھوکا یا پیاسا نہ رہے۔
مساوات: کسی بھی شخص یا کسی بھی قوم کو ترقی اور فروغ کے معاملے میں احساس محرومی نہیں ہونا چاہیے اور سب کو اس کا مکمل فائدہ اٹھانے کے مواقع ملنے چاہئیں۔
ہم آہنگی: اقوام عالم کے سامنے جو بھی معاشی، سیاسی یا دیگر مسائل ہیں، ان سے اس طرح نمٹا جانا چاہیے کہ دنیا کی تمام قومیں یہ محسوس کریں کہ وہ اس قسم کے معاملات میں برابر کی شریک ہیں اور اس کا ان پر نصفت و سماجی انصاف کے تقاضوں کے مطابق مساوی بار پڑے۔ یہاں مساوی بار کا مطلب ہرگز یہ نہیں نکالا جاسکتا کہ غریب اور امیر مملکتوں پر بالکل برابر بار پڑے بلکہ یہ بار ہر قوم اور ہر ملک کی حیثیت کے مطابق یعنی جتنا بار وہ برداشت کرسکے، پڑنا چاہیے۔
برداشت: سبھی قوموں کو، خواہ وہ کسی بھی مذہب کی پیرو ہوں، ان کا کوئی بھی ثقافتی ورثہ ہو اور جہاں کوئی بھی زبان بولی جاتی ہو، ہر حالت میں ان امور کی بابت جو کسی معاشرتی تفریق کی جانب اشارہ کرتے ہوں مکمل برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ان معاملات میں کسی بھی فرق، تفریق یا امتیاز کو کسی بھی تنازع کی وجہ نہیں بنایا جانا چاہیے بلکہ اس شخص یا امتیازی شناخت کو انسانیت کا ایک بیش بہا سرمایہ سمجھا جانا چاہیے۔ تمام اقوام کے درمیان امن وامان رہنا چاہیے اور ان کے درمیان گفت وشنید کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے تاکہ وہ ایک دوسرے کو سمجھ سکیں۔
کائنات عالم کا احترام: دنیا کی تمام مخلوقات اور قدرتی وسائل کا احترام کیا جانا چاہیے اور ان کی حفاظت کی جانی چاہیے۔ مختلف تہذیبوں کا تحفظ بھی اقوام عالم کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے ان کے درمیان تبادلۂ خیالات ومبادلۂ معلومات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
امن، سلامتی اور تخفیف اسلحہ: اسلحہ کنٹرول، تخفیف اسلحہ اور بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی حقوق سے متعلق قانون کی نسبت کیے گئے عہد و پیمان (Treaties) کی فریقین مملکتوں کے ذریعہ عمل آوری کو یقینی بنانا ، عالمی دہشت گردی کے خلاف متحد ہوکر کارروائی کرنا ۔
ترقی اور غریبی کا خاتمہ :تمام ممالک اس بات کی کوشش کریں گے کہ کسی کو غریبی سے دوچار نہ ہونا پڑے اور ان کو دنیا میں ہر طرح کی ترقی وفروغ میں شراکت کا حق اور موقع ملے۔ وہ ترقی کے لیے اور غریبی کے خاتمے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر مناسب ماحول پیدا کریں گے۔
ماحولیاتی تحفظ : تمام مملکتیں ماحولیات اور ترقی سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس میں کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کریں گی اور اس بات کی کوشش کریں گی کہ موجودہ اور آئندہ آنے والی نسلیں ماحولیاتی آلودگی سے محفوظ رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات اور ایسی آفات جن کا خود آدمی ہی ذمہ دار ہے سے نمٹنے کے لیے اور ان کی تعداد اور اثرات کو کم کرنے کے لیے، کی جانے والی کوششوں میں مزید تعاون کریں گی۔
انسانی حقوق، جمہوریت اور بہتر نظم ونسق: مملکتیں جمہوریت کو فروغ دینے اور قانون کی بالادستی کو مزید مستحکم بنانے اور عالمی پیمانے پر تسلیم شدہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں، جن میں ترقی وفروغ کا حق بھی شامل ہے، کے احترام کے لیے حتی المقدور کوشش کریں گی۔ جمہوریت کے اصولوں، انسانی حقوق کے احترام، جن میں اقلیتوں اور خواتین کے حقوق بھی شامل ہیں، کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام ضروری اقدام کریں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہندوستان کی جانب سے جی20-کے لیے مجوزہ تھیم یعنی گفتگو اور بحث کا موضوع ’ایک کرۂ ارض، ایک کنبہ، ایک مستقبل‘جس کا بظاہر انتخاب ہندوستانی فلسفے ’وسو دھیو کٹمبکم‘کی بنیاد پر کیا گیا ہے،کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ویسے بھی اب تو پوری دنیا اس دنیا کو ایک گلوبل ولیج مان ہی چکی ہے اور یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت (آدمؑ و حواؑ) سے پیدا کیا ہے اور تمہیں مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کردیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔‘ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’شروع میں تمام انسان ایک قوم تھے اور ان کی یہ تقسیم بعدمیں وجود میں آئی۔‘
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS