خواجہ عبدالمنتقم
عورت جسے کبھی دیوی کا روپ کہا جاتا ہے تو کبھی پیمبر کی امت، کبھی رادھا کی ہم جنس تو کبھی زلیخا کی بیٹی،کبھی اردھانگنی تو کبھی Better Half، لیکن اس سب کے باوجود ہمارے نام نہاد مہذب معاشرے میں اس کے ساتھ کبھی کبھی ایسی درندگی کا برتاؤ کیا جاتا ہے کہ پورا سماج شرمسار ہو جاتا ہے۔آج بھی عورتیں وحشیانہ جنسی تشدد کا شکار بنتی ہیں۔ کبھی ان کے ساتھ زنا بالجبر تو کبھی اجتماعی زنابالجبر جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔بقول سپریم کورٹ کے سابق جج جناب وی کے کرشنا ایر، عورت تو بیچاری Womb سے Tomb یعنی جنم سے مرن تک مصیبت ہی اٹھاتی رہتی ہے اوراسے دور نو خیزی میں ہی جنسی تشدد جیسے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں جبکہ وشاکھا اور دیگر بنام ریاست راجستھان والے معاملے(1997) 6SCC 241) میںسپریم کورٹ اس بات کو تسلیم کر چکی ہے کہ عورتوں کی عصمت کا تحفظ ان کا بنیادی حق ہے اور یہ کہ ہر ہندوستانی عورت اپنی عزت، آبرو اور عصمت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے لیکن اگر عدالت اس طرح کے سنگین جرائم کے مرتکبین کو رہا کردیتی ہے توعام لوگ،جو قانونی پیچیدگیوں سے واقف نہیں ہیں بشمول متاثرین ،مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اسے نا انصافی کہنے لگتے ہیں جیسا کہ سپریم کورٹ کے انیس سالہ لڑکی کی اجتماعی زنابالجبر کے تینوں مجرموں کی رہائی کا حکم صادر کرنے کے بعد محسوس کیا جا رہا ہے۔
انسانی معاشرہ میں بیک وقت قانون اور اخلاق کے دو معیاری نظام پائے جاتے ہیں۔قانون ہمارے خارجی طرز عمل کو تجویز کرتا ہے جبکہ اخلاق ہمارے داخلی طرز عمل کو متعین کرتا ہے۔ کبھی کبھی یہ ایک دوسرے کے بہت قریب آجاتے ہیں اور ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔اجتماعی زنابالجبر(Gang rape) سے پیدا شدہ صورت حال ہم آہنگی کی ایسی ہی ایک مثال ہے چونکہ اجتماعی زنابالجبر اگر ایک جانب قانون کی خلاف ورزی ہے تو دوسری جانب یہ ایک اخلاقی کوتاہی بھی ہے۔بہ الفاظ دیگر اس طرح کے درندہ صفت مجرموں کو سخت سے سخت سزا دینا قانونی اور اخلاقی اعتبار سے مکمل طور پر بالکل درست ہے۔ آئیے اب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اجتماعی زنا بالجبر سے کیا مراد ہے اور یہ کہ اس کے لیے مجموعہ تعزیرات بھارت(جسے پہلے تعزیرات ہند کہا جاتا تھا) کی دفعہ376D کے تحت کیا سزا تجویز کی گئی ہے اور یہ کہ سپریم کورٹ نے ان کے ساتھ اتنا نرم رویہ کیوں اختیار کیا؟
دفعہ376Dکی عبارت درج ذیل ہے:
اجتماعی زنابالجبر(Gang rape)’جہاںایک یا ایک سے زیادہ افرادکسی گروپ کی شکل میں یابہ پیش رفت غرضِ مشترکہ کسی عورت کے ساتھ زنابالجبر کرتے ہیں تو ان میں سے ہرایک کی بابت یہ سمجھا جائے گا کہ اس نے زنابالجبرکے جرم کا ارتکاب کیا ہے اور اسے اس مدت تک کی قید بامشقت کی سزا دی جائے گی جو 20سال سے کم نہ ہو لیکن جو عمر قید یعنی اس کی بقایا قدرتی زندگی تک کی ہوسکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس پر جرمانہ بھی عائدہوگا۔
مگرشرط یہ ہے کہ جرمانہ اتنا ہوگا جس سے ستم رسیدہ شخص کے طبی اور بازآبادکاری کے اخراجات کو بخوبی پورا کیا جاسکے۔مگرمزید شرط یہ ہے کہ اس دفعہ کے تحت عائد کیے گئے جرمانے کی رقم ستم رسیدہ کو دی جائے گی۔۔۔‘ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے ملزمین کی رہائی کا حکم جن بنیادوں پر صادر کیا وہ تھیں:
٭محض شبہ کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔اس کے لیے معتبر ثبوت درکار ہوتے ہیں۔ بارثبوت یعنی کسی امر کو ثابت کرنے کی ذمہ داری اس شخص پر ہوتی ہے جو اس بات کا خواہاں ہو کہ عدالت اس کے دعوے کو تسلیم کرے۔ جب کسی شخص پر کسی واقعہ کے وجود کو ثابت کرنا لازم ہوتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ بارثبوت اس شخص پر ہے۔
٭جن اہم گواہان کو استغاثہ کی جانب سے عدالت کے روبرو پیش کیا گیا ان کے نہ تو ابتدائی بیانات صحیح طریقے سے لیے گئے اور نہ ہی جرح کی گئی۔قانون شہادت کی دفعہ137 کی روسے فریق مقدمہ اپنے گواہ سے جو سوالات کرتا ہے وہ بیان ابتدائی (examination-in-chief) کہلاتا ہے۔جب کوئی گواہ کسی عدالت کے روبرو گواہی کے لیے پیش ہوتا ہے تو اس سے سب سے پہلے وہ فریق یا اس کا وکیل سوال پوچھتا ہے جس نے اسے پیش کیا ہے۔جرح (Cross-Examination)فریق مخالف یا اس کا وکیل جو سوالات دوسرے فریق کے ذریعے پیش کیے گئے گواہ سے پوچھتا ہے وہ جرح کہلاتا ہے۔
٭ملزمین کی گرفتاری و شناخت، انڈیکا کار کی پہچان، متعلقہ اشیا کی برآمدگی،اشیا کی مقبوضگی،نمونے لینے اور ان کی مقبوضگی ،طبی و سائنسی ثبوتوں، DNA پروفائلنگ اور دیگر باتوں کی بابت استعاثہ کی جانب سے قابل قبول ، واضح اور معتبر شہادت پیش نہیں کی گئی۔
٭عدالت نے ایک passive role ادا کیا اور اپنی ذمہ داری صحیح طریقے سے نہیں نبھائی۔ اس طرح سچ سامنے نہیں آیا اور معاملہ کا صحیح طریقے سے ٹرائل یعنی fair trial نہیں ہوا۔
سپریم کورٹ نے اس بات پر اظہار افسوس بھی کیا کہ اگر ان درندوں نے واقعی اس سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے اور وہ رہا ہو جاتے ہیں تو اس کا سماج میں بھی ایک غلط پیغام جائے گا اور وہ اور متاثرہ کے اہل خانہ اس درد کو برابر محسوس کریں گے مگر ساتھ ہی اس کا کہنا تھاکہ محض شبہ اور اخلاقی بنیاد پر ملزمین کو مجرمین قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دریں صورت عدا لت اس قسم کا حتمی فیصلہ دینے کے لیے مجبور تھی۔اس طرح کے فیصلوں سے انتظامیہ اور عدلیہ دونوں کے ہی وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے اورعام لوگوں میں بھی خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے اور وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگتے ہیں۔
اصول قانون کے مطابق عدل گستری کو اہم ترین انسانی فرائض میں شامل کرتے ہوئے اسے مملکت کا اولین فرض قرار دیا گیا ہے اور عدلیہ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ سرچشمۂ عدل وانصاف سے حاصل کردہ صفات حسنہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فرائض منصبی اس طرح انجام دے کہ جس سے یہ بات صاف نظر آئے کہ اس نے جو بھی فیصلہ دیا ہے یا کوئی دیگر کارروائی کی ہے، اس کا یہ فیصلہ یا کارروائی من مانی یا خود خواستہ نہیں ہے۔جو کام عاملہ کو کرنے ہیں، بہتر یہی ہے کہ وہ اسی کے ذریعہ کیے جائیں مگر جب انتظامیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتے تو عدالت عظمیٰ کو اپنی عظمت کی برقراری کے لیے عدالتی فعالیت کا مظاہر ہ کرنا لازمی ہوجاتاہے اور اگر عوام کو یہ احساس ہو کہ عدلیہ نے ایسا رول ادا نہیں کیا، خوا ہ ایسا کرنا عدلیہ کی مجبوری ہی کیوں نہ ہو تو شہریوں کی مایوسی لازمی ہے۔ عدالتی فعالیت کا اصول (Principle of Judicial Activism)عدالت سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ ایک فعال ادارے کا کردار ادا کرے اور ارباب حکومت کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلائے اور اگر یہ دونوں ادارے اپنی ذمہ داری نہیں نبھاتے ہیں تو اسے جمہوریت کی موت نہ بھی سمجھا جائے گا تو بھی یہ اس پر کاری ضرب ضرور ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]