ڈاکٹر سعیداللہ ندوی
خواجہ الطاف حسین حالی کا اردو ادب کے بڑے محسنوں میں شمار ہوتاہے۔وہ شاعر،نثر نگار،نقاد، صاحب طرز سوانح نگار اور مصلح قوم وملت تھے ۔انہوں نے ادبی اور معاشرتی سطح پر زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو محسوس کیا اور ادب و معاشرت کو ان تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ حالی 1837 میں پانی پت میں پیدا ہوئے ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ان کو اہل خانہ وبرادراکبرنے بیٹے کی طرح رکھا۔ پانی پت میں یہ رواج تھا کہ چھوٹی عمر سے بچوں کو قرآن مجید زبانی یاد کرایا جاتا تھا۔ جسے حفظ کہتے ہیں اور ساتھ ہی قراء ت وتجوید سکھائی جاتی تھی۔ الطاف حسین جب چار برس چارمہینے اور چاردن کے ہوئے تو ان کو مکتب میں داخل کردیا گیا۔ قاری حافظ ممتاز حسین عالم بڑے اچھے قاری تھے۔ وہی الطاف حسین کے پہلے استاد تھے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بچہ بہت ذہین اور بہت شوقین ہے۔ حالی نے چند سال کے اندر پورا قرآن شریف پڑھ لیا اور زبانی بھی یاد کرلیا۔ کہتے ہیں کہ وہ اس قدر اچھی آواز اور صحیح طریقے سے قرآن شریف پڑھتے تھے کہ لوگ وجد میں آجاتے تھے۔
حالی ؔجب تعلیم کی غرض سے دہلی پہنچے تو اتنے بڑے شہر میں نہ کسی سے جان نہ پہچان اور نہ پاس میں پیسہ۔ انہوں نے اس زمانے کے حالات بہت کم کسی کو بتائے ہیں مگر ان کے بیٹے خواجہ سجاد حسین نے اپنی ڈائری میں کچھ حال لکھا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دہلی پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ جامع مسجد کے قریب ایک مسجد میں ایک مدرسہ بھی ہے ’’حسین بخش کا مدرسہ‘‘ کہلاتا ہے اور ایک بڑے عالم نوازش علی اس میں لڑکوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ اس زمانے میں دستور تھا کہ اکثر مسجدوں میں مدرسے بھی ہوا کرتے تھے اور غریب لڑکوں کو عالم لوگ مفت پڑھاتے تھے۔ جن لڑکوں کے اپنوں کا ٹھکانا نہ ہوتا وہ وہیں مسجد میں قیام کرتے تھے۔ الطاف حسین معلوم کرتے ہوئے کسی طرح اس مسجد میں پہنچ گئے اور مولوی نوازش علی سے پڑھنا شروع کردیا۔ مولوی صاحب نے دیکھا کہ یہ لڑکا تو بہت ذہین بہت شوقین ہے تو شوق سے انہیں تعلیم دینے لگے۔ حالی کے رہنے کا کہیں ٹھکانا نہ تھا وہیں مسجد کے فرش پر پڑے رہتے۔ نہ تکیہ تھا نہ بستر تھا۔ سر کے نیچے دو اینٹیں رکھ لیا کرتے تھے۔ جو ملتا وہ کھالیتے۔ غالباً مولوی صاحب کے کھانے میں شریک ہوتے ہوں گے۔
دہلی میں اس وقت بڑے بڑے شاعر، ادیب اور عالم موجود تھے۔ مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ مولومی نوازش علی کے ساتھ ان کی بڑے بڑے عالم فاضل لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ مشاعروں میں بھی جانے لگے اور خود بھی شعر کہنے کا شوق پیدا ہوا۔ مولوی نوازش علی کے علاوہ دہلی میں انہوں نے ایک اور عالم مولوی فیض حسن اور دوسرے مولوی امیر احمد اور میاں سید نذیر حسین سے بھی علم حاصل کیا۔ اس زمانے میں ہندوستان میں انگریزی تعلیم کاذکر ومذاکرہ ہونے لگا تھا اور دہلی میں ایک اسکول اینگلو عربک اسکول کے نام سے چل رہا تھا۔ مگر پرانے طرز کے عالم لوگ انگریزی پڑھنا برا سمجھتے تھے اور حالی کے استاد تو بہت ہی خلاف تھے۔ اس لیے حالی نے اس اسکول میں جانا تو بڑی بات شاید نام بھی نہ سنا ہو۔ دہلی میں حالی کی ملاقات بڑے شاعروں سے ہوئی۔ ان میں مرزا غالب بھی تھے جن کی دہلی میں بہت شہرت تھی۔ حالی کو غالب اور ان کا کلام بہت پسند آیا اور ان کے دل پر غالب کی شخصیت کا اتنا گہرا اثر ہوا جو زندگی بھر رہا۔ انہوں نے آگے چل کر غالب کی سوانح عمری بھی لکھی اور مرثیہ بھی لکھا۔ یہ دونوں چیزیں لاجواب ہیں۔
دہلی کے قیام کے زمانے میں پورے ملک میں بدعنوانیوں کا دور تھا۔ انگریز ہندوستان پر رفتہ رفتہ قبضہ جماتے جا رہے تھے۔ دوسری طرف دہلی کی مغل حکومت بہت کمزور ہوگئی تھی۔ ہندوستانیوں میں یہ احساس بڑھ رہا تھا کہ انگریز ہم پر حاکم بن جائیں گے تو ہمیں تباہ کردیںگے۔
بڑا ہی پریشان کن زمانہ تھا۔ 1875 میں وہ پہلی جنگ آزادی چھڑ گئی جسے انگریزوں نے ’غدر‘کا نام دیا۔ اس وقت حالی حصار میں نوکر تھے۔ اورہر جگہ کی طرح یہاں بھی گڑ بڑ مچی اور حالی کو وہاں رہنا مشکل معلوم ہوا۔ یوں بھی ایسے زمانے میں ہر کسی کوتمنا ہوتی ہے کہ اپنے وطن اور عزیزوں میں رہے۔ انہوں نے اللہ کا نام لیا اور جان ہتھیلی پر رکھ کر حصار سے پانی پت کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستہ میں جو سامان اور روپیہ تھا وہ اور سواری کی گھوڑی کو بھی لٹیروں نے چھین لیا۔ راستے میں بہت تکلیفیں اٹھائی، بھوک اور پیاس جھیلی اور کئی دنوں کی مشکلات اورپریشانیوں کے بعد پانی پت پہنچے۔ حالی پانی پت آئے تو وہاں پورے چار سال تک رہے۔ اس وقت نہ کوئی ملازمت تھی نہ ملنے کی امید۔ مگر انہوں نے اس فرصت سے یہ فائدہ اٹھایا کہ دل و جان سے علم کے حصول میں لگ گئے۔ اردو، عربی، فارسی اور کئی دوسرے علم سیکھتے رہے۔ پڑھتے رہے اور اپنی قابلیت بڑھاتے رہے۔
پھربعد میں اینگلو عربک کالج میں معلم ہو گئے۔ وہاں سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی اور ان کے خیالات سے متاثر ہوئے۔ اسی دوران1879ء میں ’’مسدس حالی‘‘ سر سید کی فرمائش پر لکھی۔ ’مسدس‘کے بعد حالی نے اِسی طرز کی اوربہت سی نظمیں لکھیں جن کے سیدھے سادے الفاظ میں انہوں نے فلسفہ، تاریخ، معاشرت اور اخلاق کے ایسے پہلو بیان کیے جن کو نظر انداز کیا جا رہا تھا۔1856 میں حصار کے کلکٹر کے دفتر میں ملازم ہو گئے ۔ ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد پانی پت میں سکونت اختیار کی۔ 1904 میں ’شمس العلماء‘کا خطاب ملا 31 دسمبر 1914 کو پانی پت میں وفات پائی۔
٭٭٭