میونسپل و پنچایتی اداروں میں ملی نمائندگی کے اہم نکتے

0

ڈاکٹر سید ظفر محمود
ہمارے ملک عزیز کے تمام صوبوں و مرکزی خطوں کے شہری و دیہی علاقوں میں میونسپل کارپوریشن، میونسپل بورڈ، ضلع پریشد،پنچایت سمیتی، گرام پنچایت وغیرہ کی طرح کے 25 ہزار سے زیادہ مقامی ادارے ہیں جنھیں ہندی میں نکائے کہا جاتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک میںوارڈوں کی اوسط تعداد اگر 40 فرض کر لی جائے توپورے ملک کے ان مقامی نکایوں میں وارڈوں کی کل تعداد 10,00,000 ہوتی ہے۔ ہر دس برس پر ملک میں مردم شماری (Census)ہوتی ہے جس کے شائع شدہ اعداد و شمار کی روشنی میں ان سبھی وارڈوں کی جغرافیائی حدبندی (Delimitation)میں ضروری رد و بدل کردینا الیکشن مشینری کی قانونی ذمہ داری ہے اور پابندی وقت ایسا کر بھی دیاجاتا ہے۔ یہ ساری کارروائی جمہوریت کے تقاضوں کو پروان چڑھانے کے لیے غیر جانبداری سے ہوتی رہنی چاہیے لیکن اس میں تعصب پر مبنی خردبرد کی کافی گنجائش ہے۔ ہر صوبہ و مرکزی خطہ اپنے یہاں وارڈوں کی حد بندی کے لیے قانون و ضابطے بناتا ہے جن کے لیے ضروری ہے کہ وہ دستور ہند اوراس کی روشنی میں پارلیمنٹ کے ذریعہ بنائے گئے قوانین کے حدود کی پابندی کریں۔ ساتھ ہی سماج کے ذریعہ اس پر بھی نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ صوبائی قوانین و ضابطوں کا نفاذ مکمل طور پر و صدق دل سے ہو رہا ہے کہ نہیں۔ اور اگر نہیں ہو رہا ہے تو اس کی تصحیح کے لیے ضروری کارروائی کی جانی چاہیے۔ لیکن یہ معاملہ ایسا ہے جس میں عوام کو عموماً دلچسپی نہیں ہوتی ہے حالانکہ اس تساہل عارفانہ کا خمیازہ جمہوری نظام کو اور خصوصاً اقلیتوں و دیگر کمزور طبقوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔مثلاً میونسپل کارپوریشن کے تحت کل آبادی کو وہاں کے وارڈوں کی تعداد سے تقسیم کر کے ایک اوسط ہندسہ بتا دیا جاتا ہے تا کہ ہر وارڈ اس طور پر تشکیل دیا جائے کہ اس میں کل آبادی اتنی ہی ہو جتنی طے کی گئی ہے، ہاں 10 فیصد اوپر نیچے ہونے کی گنجائش ہے بشرطیکہ اس تجاوز کی وجہ تحریری طور پر درج کی جائے۔ چھان بین کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس ضابطہ کی خوب کھل کر اندیکھی بلکہ خلاف ورزی کی جاتی ہے جس کا کوئی تحریری جواز بھی درج نہیں کیا جاتا ہے۔اگر دس ہزار کی آبادی پر ایک وارڈ بننا چاہیے تو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں ملی آبادی تقریباً غیر موجود ہے وہاں تو 5 ہزار سے کم آبادی پر بھی ایک وارڈ بن گیا ہے لیکن جہاں گنجان ملی آبادی ہے وہاں 20 ہزار سے زیادہ آبادی پر بھی صرف ایک ہی وارڈ بنایا گیاہے۔
2017 کے الیکشن سے پہلے دہلی میونسپل کارپوریشن اور گریٹر ممبئی میونسپل کارپوریشن میں وارڈوں کی حدبندی میں گڑبڑیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے زکوٰۃ فائونڈیشن آف انڈیا نے حوالوں سے بھرپور طویل نوٹسوں کی تعمیل متعلقہ صوبائی الیکشن کمشنروں پرکر دی تھی جس کے نتیجہ میں ان دونوں کارپوریشنوں میں متعدد وارڈوں کی حدبندی میں صوبائی الیکشن کمیشنوں کو تبدیلی کرنی پڑی تھی۔ اس سے فائدہ یہ ہوا کہ 2017 کے الیکشن میںان کارپوریشنوں میں ملی نمائندگی میں اضافہ ہو گیا۔ اس سے کئی برس قبل جب یوپی کے دو حصہ کر کے اتراکھنڈ بنایا گیا تھا تو انتخابی حلقوں میں پھیر بدل ہونا لازمی تھا، مرکزی الیکشن کمیشن نے پبلک نوٹس جاری کیا کہ وہ سہارنپور کو ریزرو کرنے جا رہے ہیں(مردم شماری کے مطابق وہاںملی آبادی 45 فیصد ہے)، زیڈ ایف آئی نے باقاعدہ یہ اعتراض داخل کر دیاکہ سہارنپور میں شیڈولڈ کاسٹ کی آبادی معمولی ہے جبکہ دیگر انتخابی حلقوں میں شیڈولڈ کاسٹ کی آبادی بہت زیادہ ہے۔ معاملہ کی سنوائی کے بعد الیکشن کمیشن نے سہارنپور کو ریزرو کرنے کا اپنا ارادہ ترک کر دیا اور اس کے بجائے زیڈ ایف آئی کے ذریعہ نشاندہی کیے گئے متبادل انتخابی حلقوں میں سے ایک کو ریزرو کر دیا(جہاں ملی آبادی معمولی ہے لیکن شیڈولڈ کاسٹ آبادی کی شرح بہت زیادہ ہے)۔ اس سلسلہ کی تازہ ترین کڑی ہے مہاراشٹرمیں اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن، وہاں 2020 میں الیکشن ہونا تھا، زیڈ ایف آئی نے حدبندی میںگڑبڑیوں پر اعتراض درج کیا جسے مہاراشٹرکے الیکشن کمیشن نے اورپھر ہائی کورٹ نے رد کردیا، اس دوران کووڈ وائرس (Covid-19)کی وجہ سے الیکشن ملتوی ہوگیا، موقع کا فائدہ اٹھا کے زیڈ ایف آئی سپریم کورٹ چلا گیا جس نے مہاراشٹر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیا ہے اور اس اثنا میں اورنگ آباد میںالیکشن پر الحمدﷲپابندی لگا دی۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے پورا ملک پابند ہوتا ہے لہٰذاذی فہم پیروی جاری ہے کہ معاملہ کی بنیادی خرابی پر عدالت کی توجہ دلا کر ایسا فیصلہ حاصل کیا جاسکے جس سے اس طرح کی شاطرانہ کارروائی پر ملک گیر ضرب کاری لگ جائے۔ اس اہم ایشو کو قدرے تفصیل سے سمجھنا کارآمد رہے گا۔
دستور ہند کے آرٹیکل243T کے مطابق جو وارڈ شیڈولڈکاسٹ کے لیے ریزروکیے جانے ہیں، ان کا تعین کرتے وقت یہ اجازت ہے کہ ہر پانچ برس کے بعد منعقد ہونے والے الیکشن میں پہلے کی بہ نسبت مختلف وارڈ ریزرو کیے جائیں یعنی ریزرو ہونے والے وارڈوں کا روٹیشن (Rotation)کیا جا سکتا ہے۔ اس دستوری اجازت کی روشنی میں مہاراشٹر نے اپنے متعلقہ قانون کے سیکشن 10(1) میں لکھ دیا کہ(i) شیڈولڈ کاسٹ، (ii)شیڈولڈ ٹرائب، (iii)بیکورڈ کلاسز اور(iv) خواتین کے لیے ریزرویشن کے مقصد سے وارڈوں کا تعین اس طور پر کیا جائے گاکہ ہر وارڈ کو ریزرویشن کا فائدہ پہنچے۔ یہاں نوٹ کرنے کا نکتہ یہ ہے کہ آبادی میں خواتین کا تناسب تو ہر وارڈ میں اور ہر طبقہ میںتقریباً یکساں ہی ہوتا ہے، اس لیے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ خواتین کے لیے ریزرویشن کا فائدہ ہر وارڈ کو پہنچنا چاہیے۔ لیکن آبادی میں شیڈولڈ کاسٹ اورشیڈولڈ ٹرائب کا تناسب تو ہر وارڈ میں یکساں نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کی آبادی تھوڑے سے ہی وارڈوں میں مرکوز (Concentrated)ہوتی ہے۔ اسی لیے حدبندی قانون (Delimitation Act) کے سیکشن 9(1)(c-d) میں پابندی لگائی گئی ہے کہ شیڈولڈ کاسٹ اورشیڈولڈ ٹرائب کے لیے وہ انتخابی حلقے ریزرو کیے جائیں گے جہاں کی آبادی میںشیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائب کا تناسب سب سے زیادہ ہو۔ ظاہر ہے کہ حدبندی کا یہ پارلیمانی قانون دستور کی منشا سے مطابقت رکھتا ہے۔اس طور پر یہ معلوم ہوا کہ مہاراشٹر کے قانون کا مندرجہ بالا سیکشن غیردستوری (Unconstitutional) ہے۔اس نکتہ پر خدا کرے سپریم کورٹ زیڈ ایف آئی کے حق میں فیصلہ دے دیتی ہے تو مستقبل میں ملت کو اس کی واجب جمہوری نمائندگی ملتی رہے گی، کیونکہ اس غلط قانون کی آڑ میں ملی تسلط والے وارڈ شیڈولڈ کاسٹ کے لیے ریزرو کر دیے جاتے ہیںجبکہ شیڈولڈ کاسٹ کی تعریف میں سے مسلمانوں کو شاطرانہ طور پر 1950 میں ہی نکال دیا گیا تھا۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ مہاراشٹر کے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں داخل کیے گئے اپنے بیان حلفی میں کہا ہے کہ زیڈ ایف آئی نے یہ غلط فرض کررکھا ہے کہ شیڈولڈ کاسٹ و شیڈولڈٹرائب کے لیے صرف وہی وارڈ ریزرو ہو سکتے ہیں جہاں ان کی آبادی کا تناسب مقابلتاً زیادہ ہو، شاید گیدڑ شہر کی طرف بھاگ رہا ہے۔ قوی امید ہے کہ عدالت عظمیٰ جمہوری قانون سازی (Democratic Jurisprudence) کے دائمی اصولوں کا ساتھ دے گی۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ مرکزی وصوبائی الیکشن کمیشنوں کی نگرانی کرنے والے اور ضلع سطح پر حد بندی کے فیصلے کرنے والے لوگ سول سروسز و دصوبائی افسرشاہی کے افراد ہی ہوتے ہیں، ملت کو ان معاملات میں دلچسپی و دلجوئی سے کام کرنے کی ضرورت ہے، اس مقصد سے زیڈ ایف آئی جلد ہی ادارہ سازاقدام کرنے والا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS