گاندھی جی کو تو جھوٹ سے پرے رکھیں

0

پنکج چترویدی

وارانسی میں وشوناتھ مندر کے قریب گیان واپی اور متھرا میں کرشن جنم بھومی سے متصل جامع مسجد کے تنازعات ان دنوں ملک میں زہر گھول رہے ہیں۔
ہو سب کچھ قرینے سے سازشاً۔شاید کاشی میں ابھی تک الگ الگ 15تنازعے عدالت میں درج کیے جاچکے ہیں جس میں کچھ مالکانہ حق کے، کچھ پرانے مندر میں پوجا کے حق، کچھ دیوانی تو کچھ جرائم کے، ٹھیک ایسی ہی صورت حال متھرا ہی نہیں، ملک کے مختلف علاقوں میں مسجدوں کے قبضے کے سبب ہے، یہ بتانے کی کوشش ہے کہ بیشتر بڑی مسجدیں اورنگ زیب نے مندر گراکر بنوائیں، سال 1991 کے عبادت گاہ ایکٹ کے باوجود جب عدالتیں اس طرح کے معاملوں کو سن رہی ہیں تو عدالت کے فیصلے کا بھی انتظار کرنا چاہیے لیکن ان سارے معاملے میں ملک کے ہردلعزیز، ہر قوم کے لیے قابل احترام مہاتما گاندھی کو جس طرح گھسیٹا جارہا ہے اس کی حقیقت جاننا بھی ضروری ہے۔
گزشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا اور اس کی بنیاد پر ٹیلی ویژن کی ’کتا گھسیٹ بحث‘ میں اس بات کو اچھالا جارہا ہے کہ مہاتما گاندھی نے کہا تھا ’مندروں کو توڑکر بنائی گئی مسجدیں غلامی کی علامت ہیں‘ یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس طرح کا مضمون 27جولائی 1937 کے دہلی سے شائع ہونے والے اخبار ’سیوا سمرپن‘ میں چھپا تھا۔ کہا جارہا ہے کہ اس طرح کا مضمون گاندھی جی نے رام گوپال شرد نامی قاری کے اس خط کے جواب میں لکھا تھا جس میں مغل حکمرانوں کے ذریعہ کچھ مندروں کو توڑکر اس پر مسجد بنانے کی بات کہی گئی تھی، کہا جارہا ہے کہ گاندھی جی نے لکھا تھا ’مغل حکمرانوں کے ذریعہ منہدم کیے گئے مندر غلامی کی اصل علامت ہیں۔ اس لیے ہندو-مسلم دونوں کو مل بیٹھ کر ان متنازع عمارتوں کا مسئلہ سلجھا لینا چاہیے۔‘ اس کا پس منظر لکھا ہے- 27-7-1937(نوجیون) ایک بات اور -کوئی بھی اس اخبار، تحریر کی اصل کاپی نہیں دے پارہا ہے- نومبر 1986 کے ایک اخبار کی مبینہ کلیپنگ میں یہ دعویٰ ہے۔
ان دنوں ملک کی ہر مسجد کے نیچے مندر تلاشنے کے دعوؤں کے بیچ یہ مضمون وہ لوگ سب سے زیادہ پھیلارہے ہیں جن کے لیے گاندھی ’وَدھ‘ کرنے لائق پاپی تھا۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ مہاتما گاندھی کی تقریر، انٹرویو، مضمون، مشورے اور یہاں تک کہ بھیجے گئے مکتوب اور ٹیلی گرامس کو collected works of Mahatmaa Gandhi (CWMG) سی ڈبلیو ایم جی کے 98 حصوں میں جمع کیاگیا ہے، اس عظیم مجموعہ میں کوئی 50ہزار صفحات ہیں۔
اس کلیکشن کے حصہ 65 میں گاندھی جی کے 15مارچ 1937 سے 31جولائی 1937 تک کی تحریریں اور افکار شامل ہیں، اس حصہ میں نہ تو گاندھی جی کا مغل اور غلامی کی علامت مساجد سے متعلق کوئی تحریر ہے اور نہ ہی رام گوپال شرد یا پھر سیوا سمرپن نامی کسی میگزین کا ذکر ہے، ظاہر ہے کہ گاندھی اب گپ یا افواہ میں پروئے جارہے ہیں اور اسے وہاٹس ایپ یونیورسٹی کے طلبا ہوا دے رہے ہیں۔
ایک بات اور مہاتما گاندھی نے کبھی بھی مغل دور کو غلامی کا وقت نہیں کہا ہے، 24مارچ 1921 کو کٹک (اڑیسہ) میں گاندھی جی کی یہ تقریر غور طلب ہے جس میں انہوںنے کہا تھا ’برطانوی حکومت سے پہلے کا دور غلامی کا دور نہیں تھا۔ مغل دور اقتدار میں ہمیں کچھ آزادی تھی، اکبر کے دور میں مہارانا پرتاپ جنم لیتا تھا اور اورنگ زیب کے وقت ویر شواجی کا ادے ہوتا ہے۔ کیا برطانوی حکومت کے 150سال میں کوئی پرتاپ یا شیواجی جنم لے پایا؟
سال 1926 میں گاندھی جی کو ایک مکتوب ملا تھا ’بنارس (کاشی) کا مندر گواہ ہے جو کہ صدیوں سے کھڑا ہے، یہاں تک کہ بھگوان بدھ کے دور میں بھی تھا، زندہ پیر، اولیا کہے جانے والے اورنگ زیب کے حکم پر پرانے مندر پر مسجد کھڑی کردی گئی، کیا یہ سب باتیں آپ کے لیے لازم ہیں مہاتما جی؟‘
اس کے جواب میں گاندھی جی نے 4نومبر 1926 کے ’ینگ انڈیا‘ میں لکھا ’یہ حقائق میرے لیے بہت معنی رکھتے ہیں یہ ایک انسان کی بربریت کو واضح کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ مجھے عدم تحمل ہونے کا انتباہ دیتے ہیں، یہ مجھے اس طرح کے عدم تحمل کے باوجود تحمل بنے رہنے کا سبق دیتے ہیں۔
ایک بار ان کی پرارتھنا سبھا میں ’قرآن پاٹھ‘ کیے جانے پر ایک ہندو نے اعتراض کیا۔ اس نے گاندھی سے پوچھا ’آپ کسی مسجد میں جاکر گیتا کے شلوکوں کا پاٹھ کیوں نہیں کرتے ہیں؟ گاندھی جی اس سوال سے پریشان نہیں ہوئے اور انہوںنے جواب دیا ’آپ اپنی لاعلمی کے سبب ہندو دھرم کاکوئی فائدہ نہیں کررہے ہیں بلکہ اس کی تباہی کی تیاری کررہے ہیں۔ ہمارے سامنے خان عبدالغفار خان موجود ہیں۔ وہ پوری طرح ایشور بھکت ہیں۔ اگر آپ خدا کے کسی بندے کو ہاڑ-مانس کی شکل میں مجسم دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں دیکھئے۔ کیا آپ کو ان کے تئیں بھی احترام نہیں ہے؟ وہ شرمندہ ہوگیا۔
گاندھی جی مندر کے ایک حصہ پر مسجد بنائے جانے کے حقائق کو تحمل بنائے رہنے کا سبق بتاتے ہیں، ظاہر ہے کہ مہاتما گاندھی کے نام سے جو مبینہ مضمون برانچ، سینا، پریشد اور نوئیڈا کی مرغا منڈی کے ذریعہ لوگوں کے دماغ میں گھسایا جارہا ہے، وہ فرضی ، غلط تخلیق اور حقائق سے دور ہے، یہ دھیرے دھیرے گاندھی کو فرقہ پرست یا ہندو (جیسا پاکستان بنانے والے کہتے رہے) قائم کرنے کی منظم سازش ہے۔
پھر گاندھی کو اس تنازع میں ڈال کر اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دباؤ بنانے والوں کو گاندھی جی کا یہ قول بھی یاد رکھنا ہوگا ’اگر ہندو مانیں کہ سارا ہندوستان صرف ہندوؤں سے بھرا ہونا چاہیے تو یہ ایک محض خواب ہے۔ مسلمان اگر ایسا مانیں کہ اس میں صرف مسلمان ہی رہیں تو اسے بھی خواب ہی سمجھئے۔ پھر بھی ہندو، مسلمان، پارسی، عیسائی جو اس ملک کو اپنا وطن مان کر بس چکے ہیں، ایک دیسی ، ایک ملکی ہیں، وہ دیسی بھائی ہیں اور انہیں ایک دوسرے کے مفاد کے لیے بھی ایک ہوکر رہنا پڑے گا۔ (ہند سوراج، صفحہ: 31)۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS