سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
ماہِ رمضان کی شروعات میں بس دو ایک دن باقی ہیں لیکن کشمیر کے مسلم اکثریتی سماج میں کوئی جوش و خروش دکھائی نہیں دے رہا ہے بلکہ لوگوں کو رمضان کی رونقوں کے غائب رہنے کا غم کھائے جارہا ہے۔یہ پہلا رمضان ہے کہ جس کی آمد پر ’’استقبالِ رمضان‘‘کا کوئی پروگرام منعقد ہوسکا ہے اور نہ ہی اب کے مساجد کی پیشگی تیاری کی کوئی سرگرمی ہے بلکہ سبھی مساجد کرونا وائرس کی وجہ سے گویا بند ہیں اور لوگ گھروں تک محدود۔
حالانکہ سوشل میڈیا پر لوگ رمضان کا استقبال کرتے ضرور نظر آرہے ہیں لیکن یہاں بھی یہ تذکرے ہیں کہ اب کے رمضان کہیں وہ دھوم دھام ہوگی اور نہ اجتماعی عبادات و افطار کی پُر رونق اور روح پرور محفلیں۔ جیسا کہ غلام محمد نامی ایک شخص نے اپنے فیس بُک پر لکھا ہے ’’رمضان کی آمد آمد ہے لیکن دیکھیں کہیں کوئی دھوم دھام نہیں ہے،مساجد کی تیاری تو دور بلکہ تقریباََ سبھی مساجد بند پڑی ہیں اور یہ کسی عذاب سے کم نہیں ہے‘‘۔
مسلم اکثریت والے کشمیری سماج میں ماہِ رمضان کے دوران الگ ہی دھوم دھام ہوتی ہے کہ جہاں بازاروں میں خاص اشیائے خوردنی،باالخصوص کھجور، شربت وغیرہ،کی ایک منفرد مہک سی آرہی ہوتی ہے تو وہیں مساجد میں پورا دن بڑا رش لگا رہتا ہے اور لوگ خصوصیت کے ساتھ عبادات میں مشغول ہوتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ رمضان کی آمد سے قبل مختلف مذہبی تنظیموں اور انجمنوں کی جانب سے ’’ٓستقبالِ رمضان ‘‘کے پروگرام منعقد کرکے اس مقدس مہینے کی آمد پر خوشی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اسکے لئے تیاریوں کا اعلان کیا جانا یہاں کی روایت رہی ہے۔اب کے تاہم ایسا کہیں کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ چناچہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچاؤ کی ترکیب کے بطور کشمیر میں ایک ماہ سے زائد عرصہ سے تالہ بندی ہے اور مساجد کو خاص طور بند کرادیا گیا ہے۔ کشمیر کا کوئی محلہ،کوئی بستی ایسی نہیں ہے کہ جہاں چھوٹی بڑی کئی کئی مساجد آباد نہیں ہیں تاہم آج ایک ماہ سے زیادہ عرصہ سے اللہ کے ان گھروں میں امام ، مؤذن یا چند ایک لوگوں کے علاوہ جانے کی اجازت نہیں ہے۔
فاطمہ بیگم نامی ایک خاتون کہتی ہیں ’’مساجد کا بند ہونا ایک بد شگونی کی طرح ہے،میرے خیال میں اللہ نے گناہگار لوگوں پر اپنے گھر کے دروازے بند کردئے ہیں لیکن رمضان کے دوران یہ سزا کچھ زیادہ ہی محسوس ہوگی‘‘۔ وہ کہتی ہیں ’’میرے بچپن سے لیکر آج تک میں نے رمضان میں مساجد کے اندر چہل پہل دیکھی ہے لیکن اس بار ….سمجھ نہیں آتا ہے کہ رمضان
کس طرح کٹے گا‘‘۔ نذیر احمد نامی ایک نوجوان کا کہنا ہے ’’سچ پوچھیئے تو بندہ سال بھر رمضان کریم کا انتظار کرتا ہے کہ کافی عبادت کرکے اپنے گناہ بخشوا لے گا لیکن اب کی بار مساجد تک بند ہیں، گھروں کے اندر نمازیں تو ہوتی ہیں لیکن مسجد میں جاکر نماز پڑھنے ،باالخصوص رمضان میں،کا مزہ ہی کچھ اور ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیں ’’پھر یہ بھی ہے کہ گھروں میں قید رہتے ہوئے رمضان کا روزہ زیادہ صبر آزما ثابت ہوسکتا ہے‘‘۔
سرینگر کے ضلع کمشنر کے دفتر میں تعینات ایک افسر نے بتایا ’’رمضان کے دوران مساجد کی بندش ایک تکلیف دہ معاملہ ہے لیکن اسکے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ کشمیری مسلمانوں نے ابھی تک سرکاری ہدایات پر پورا پورا عمل کیا ہے لیکن ہمیں ڈر ہے کہ کہیں لوگ رمضان میں خود کو مساجد سے دور رکھنے سے روکنے میں ناکام نہ ہوجائیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ انتظامیہ نے مذہبی علماٗ سے اپیلیں کروائی ہیں اور رمضان کے دوران لوگوں کو گھروں کے اندر رہکر عبادت کرنے کی مزید تلقین کرائی جائے گی۔
اب کے رمضان کشمیر میں کوئی جوش و خروش ہے نہ دھوم دھام،لوگ دم بخود
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS